اوریانہ فلاچی: راج ہنس کے گیت کی مانند آخری سانسیں


اوریانہ کی ذات کا ادھوراپن مکمل کرنے والا یونانی شاعر اور یونان کی مزاحمتی تحریک کا روح رواں الیگزینڈروس پینگولس تھا۔ الیکو، تاریخ کا ایک انوکھا کردار ہے۔اٹل اور ناقابل شکست انسان۔ الیکو  نے فاشسٹ یونانی آمر جارجیوس پاپادوپولس کو مارنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ جس کے لئے وہ روڈ کے کنارے بموں کا جال بچھاتا ہے۔ لیکن اس کا منصوبہ ناکام ہوجانے کی صورت میں ، الیکو کو پکڑ کر قید میں ڈالا جاتا ہے۔

پانچ سال تک اس انقلابی ہیرو کو ہر طرح کی ذہنی و جسمانی اذیت دی جاتی ہے۔ اسے پانچ سال تک بنا کسی ہوادان یا کھڑکی کے انتہائی چھوٹے کمرے میں رکھا جاتا ہے۔ اوریانہ الیکو کے لئے لکھتی ہے۔ اس کی دفاعی تقریر کے بارے میں جس نے ججوں کو سحرانگیز کردیا تھا۔ “تم ظلم کے نمائندے ہو اور مجھے پتا ہے کہ مجھے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے بھیجا جائے گا۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ ایک حقیقی مجاہد کے لئے موت سے پہلے اس کی آخری سانس راج ہنس کے گیت جیسی ہے۔” الیکو نے شاعری جیل کی نیم تاریک کوٹھڑیوں میں لکھی۔ اس کے زخموں کو مندمل کرنے کے لئے لائے گئے پیاز کے چھلکے اور کپڑے کی پٹیوں پر وہ اپنے خون سے چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھتا۔

اوریانہ فلاچی  1973ء میں الیکو کی جیل سے آزادی کے بعد فوراً ہی اس کا انٹرویو لیتی ہے اور اس کی آنکھوں میں اپنی جدوجہد کا عکس پاکر اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ تین سال پر محیط یہ ان کی یہ دوستی محبت کے علاوہ اپنے اندر ایک گہری معنی بھی رکھتی ہے۔ ایک ٹھنڈا گھنا سایہ جو زندگی کی جھلساد ینے والی دھوپ میں انسان کو اس کے وجود کے ہونے کی معنی عطا کرتا ہے۔ دو انتہاؤں کے بیچ میں پنپنے والی محبت، جس میں تکمیل کی سرشاری سے زیادہ تشنگی کی خوبصورتی ہوتی ہے ۔ بیخودی کے ساتھ ہجر کا خمار بھی ہوتا ہے، جو کوئی مستقبل نہ ہوتے بھی جو سانسوں میں سر بکھیرتی رہتی ہے۔

1976ء میں الیکو دشمن کے ہاتھوں مارا گیا۔ اوریانہ نے اس کی یاد میں ناول “A Man” لکھ کر اسے تاریخ کے صفحوں میں امر کردیا۔ “یہ ناول میں اپنے ساتھی ،الیکو پیناگولس کے لئے ، اس کی موت کے نقصان اور دکھ کو محسوس کرتے ہوئے لکھی ہے ۔” میری کتابو ں کے مضامین موت کے متعلق ہوتے ہیں۔ جو موت کے لئے میری نفرت اور اس کے خلاف میری لڑائی کے بارے میں بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ آزاد ی بقایا سب چیزوں کا محرک عنصر ہے، جس کے لئے میں نے قلم اٹھایا ہے۔ لیکن جس چیز نے مجھے قلم اٹھانے کے لئے تحرک بخشا و، وہ میرے احساسات پر حاوی موت ہے۔”

موت سے نفرت اور موت کے خلاف جنگ ،شاید اپنی آنے والی نسلوں کو آگ کے کھیل سے بچانے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔ جینے کا بنیادی حق اس کرہ ارض میں بسنے والے ہر انسان کو بنا کسی تفریق کے حاصل ہے۔ اپنی سرزمین پر آزادی کے ساتھ سانس لینے کا حق، جن کو آمریت کے “لانگ بوٹ” کچلتے رہے ہیں۔ نسل کشی، تیسری دنیا کے ممالک کا استحصال، لسانی اور مذہبی فسادات اور انسانی حقوق سے مسلسل انحرافی ہر شعور رکھنے والے انسان کے لئے دکھ کا باعث ہے۔

موجودہ دور کتنے ہی تضادوں میں بٹا ہوا ہے۔ رہبر رہزن، حاکم غاصب اور طاقتور مظلوم۔ طاقتور، طاقت کے نشے میں چور جھوم رہے ہیں۔ دنیا کے سامنے ایک بڑا فطور، نسلی اور مذہبی تضاد کی صورت میں گردن اکڑائے کھڑا ہے۔

دنیا مذہبی و نسلی تضادات میں جھلسنے لگی ہے۔ اوریانہ فلاچی بھی اس آگ سے اپنا دامن نہیں بچا سکی۔ اور گیارہ ستمبر ورلڈ ٹریڈ سینٹر والے حملے کے بعد وہ مسلمانوں کی مخالف بن گئی۔ اسامہ بن لادن کی دہشتگردی اور مسلمانوں کے یورپ میں ہونے کو ایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اس نے کہا: “یورپ اب یورپ نہیں رہا۔ یہ یوروبیا کی صورت اسلامی کالونی بنتا جارہا ہے۔ جہاں پر اسلامی غلبہ نہ فقط طبعی بلکہ ذہنی اور ثقافتی طور پر بڑھ رہی ہے۔ اٹلی اور یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد ہماری آزادی کے لئے بہت بڑا نقصان ثابت ہوگی۔ “

اوریانہ کی حالیہ چھپنے والی کتاب “Force of Reason ایسے خیالات اور مسلمانوں پر تنقید پر جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ دنیا ادب پر حکمرانی کرنے والی اوریانہ معلوم نہیں کیوں غیرجانبداری سے، مشرق و مغرب کے تضادات کو بیان نہیں کر سکی۔ اپنی کتاب “دی ریج اینڈ دی پرائیڈ ” میں وہ کہتی ہے ، ” یہ ایک ایسا پہاڑ ہے جو چودہ سو سال گذرنے کے باوجود اپنے اندھے پن کی پاتال سے بلند نہیں ہوسکا ۔ جس نے تہذیب کی فتوحات پر اپنے دروازے نہیں کھولے۔ اور جس نے کبھی آزادی، جمھوریت اور ترقی کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی۔ ” اور یہی حال موجودہ دور کے یورپین سیاسی تجزیہ نگاروں کا ہے۔ جو یورپ و امریکا کی اجارہ داری اور جنگی جرائم پر پردہ پوشی کرنے میں مصروف ہیں۔

اس موضوع پر محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ نے ایک جامع کتاب : “Reconciliation: Islam, Democracy, and the West” لکھی۔ طویل جلاوطنی کے بعد، وہ اکتوبر 2007ء میں پاکستان آئی تھیں۔ اپنی اس کتاب میں محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی حکومت کے آخری ایام کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اسلامک ریڈیکلزم کا منطقی انداز میں جائزہ لیا اور مذہب کی بنیاد میں برداشت اور مفاہمت کا تذکرہ کیا۔

محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ نے مغرب میں تعلیم حاصل کی اور مغرب کی سیاست اور خارجہ پالیسی پر ان کی کڑی نظر رہی۔ محترمہ بینظیر بھٹو اپنی پہلی حکومت کے دوران محض بیس مہینوں تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہیں۔ اور جمہوریت کی بحالی کے لئے تمام عمر جدوجہد کرتی رہیں۔ اور اسی کوشش میں، اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کی آخری سانسیں بھی راج ہنس کے گیت کی طرح ہیں۔

اس کتاب میں انہوں نے کئی سوالات اٹھائے ہیں، جس میں مغربی قوتوں کی، ضیاءالحق کی دور میں پشت پناہی، مغرب کا مشرق وسطیٰ کے ملکوں کی جانب جانبدار رویہ، مسلمانوں کی نسل کشی پر اسلامی دنیا کے راہنماؤں و مغربی دنیا کی خاموشی شامل ہے۔ یہ کتاب اوریانہ فلاچی کی پرتعصب کتاب سے بلکل مختلف ہے، جس میں منطقی اور حقیقت پسندانہ انداز سے تمام مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔

موجودہ دور بھی خطرناک جنگی سازش کا شکار ہوچکا ہے۔ اور دنیا مذہبی و نسلی گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ حالانکہ سب سے زیادہ مضبوط رخ انسانیت و انسانی قدروں کا ہے۔ جسے موجودہ دنیا فراموش کرچکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2