پاکستانی موجد اسلم آزاد میں ایلن مسک کی ٹیسلا موٹرز کی دلچسپی


اسلم آزاد کو جاننے سے پہلے ہم ایلن مسک پر آتے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ اس شخص کو اپنی تخلیقات و اختراعات اور سائنسی تصورات کے سبب دنیا نے ”مرد ِ آہن‘‘ کے خطاب سے نوازاہے یہ شخص جو کہتا ہے وہ کر دکھاتا ہے۔ 28جون 1971کو جنوبی افریقہ کے شہر پری ٹوریا کے ایک عام گھرانے میں آنکھ کھولنے والا ایلن مسک جب دس سال کا ہوا تو اس نے ایک کمپیوٹر گیم بنا ڈالی جسے اس وقت 500 ڈالر میں بیچ بھی ڈالا۔ جب اسے اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے جنوبی افریقہ موزوں نہیں دکھائی دیا تو وہ پہلے کینیڈا اور پھر امریکہ منتقل ہو گیاجہاں اس نے پینسلوانیا یونیورسٹی سے گریجویشن اور سٹینفرڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔

اس دوران وہ معاشی طور پر انتہائی غیر مستحکم رہا اور چھوٹی موٹی نوکریا ں کرتا رہا۔ اپنے باپ سے کچھ پیسے مستعار لے کر اس نے” زپ ٹو ‘‘ نامی ایک آئی ٹی کمپنی کھولی۔ اس کے پاس سرمایہ اتنا کم تھا کہ وہ خود ایک ڈالر روزانہ کرایہ کے ایک ہوسٹل میں رہتا تھا مگر کام کا اتنا دھنی کہ جب اس کے ساتھی صبح آفس آتے تو اسے آفس میں ہی سویا ہوا پاتے کیونکہ رات دیر تک کام کرتے کرتے وہ وہیں لیٹ جاتا۔ 1999میں اس کمپنی کو کومپاک کمپیوٹرز نے 300 ملین ڈالر میں خرید لیا۔

اس نے اپنے حصے کے سرمائے سے ایک نئی کمپنی کھولی جس نے صارفین کے لئے بغیر اکاؤنٹ کے ایک ڈیبٹ کارڈ متعارف کروا دیا۔ پے پال نامی یہ کمپنی جلد ہی آن لائن خریداری کے لئے لاکھوں افراد کا انتخاب بن گئی۔ 2002 میں یہ کمپنی ای بے نے ڈیڑھ ارب ڈالر میں خرید لی۔ جب ایلن مسک کے پاس سرمایہ آیا تو وہ بچپن میں دیکھے گئے اپنے اس خواب کی طرف آیا جس میں وہ زمین سے باہر دوسرے سیاروں پر آبادیا ں قائم کرتا ہے۔ اس خواب کی تعبیر کے لئے اس نے سپیس ایکس نامی کمپنی قائم کی جس کا مقصد انسان کو مریخ تک لے کر جانا اور وہاں کالونیاں بنانا ہے۔

2004 میں ایلن کے آہنی عزائم کو دیکھتے ہوئے ٹیسلا موٹرز نے اسے اپنا چیف ایگزیکٹو آفیسر بنا لیا یہ کمپنی بجلی کے ذریعے چلنے والی گاڑیاں بنانے کی تگ و دو کر رہی تھی۔ اس دور میں جو بھی ایلن مسک کو دیکھتا یہی کہتا کہ یہ شخص دن میں خواب دیکھ رہا ہے۔ خود ایلن مسک کو بھی اندازہ تھا کہ یہ کام کس قدر مشکل ہے کیونکہ ایک جانب امریکہ کا خلائی ادارہ ناسا تھا جو ارب ہاڈالرز کے وسائل کے باوجود انسان کو مریخ تک پہنچانے کے منصوبوں سے بہت دور تھا تو دوسری جانب دنیا کی بڑی کار ساز کمپنیاں یک لخت پٹرول کو چھوڑ کر گاڑی کو سو فیصد بجلی پرچلانے کو ناقابل ِعمل قرار دے رہی تھیں۔ ایسے میں انتہائی محدود وسائل کے ساتھ اتنا بڑا چیلنج قبول کرتے ہوئے وہ خوداکثر کہا کرتا تھا کہ شاید میری کامیابی کے امکانات محض دس فیصد ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ اپنے کام سے جتا رہا۔

2007میں خلا میں راکٹ فائر کرنے کا اس کا تجربہ ناکام ہو گیا۔ ٹیسلا بھی معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ اس نے اپنی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے لئے ہر وہ دروازہ کھٹکھٹایا جہاں سے اسے کچھ امید ہو سکتی تھی۔ بالآخر 2009 میں ٹیسلا موٹرز نے اپنی پہلی سپورٹس کار متعارف کروا دی جس کی اڑھائی ہزار کاریں 31 ملکوں کے اندر فروخت بھی ہو گئیں۔ 2012 میں اس کمپنی نے بجلی سے چلنے والی اپنی پہلی کار بھی لانچ کر دی۔ دسمبر 2017تک ا س کے مختلف ماڈلز کی 72ہزار سے زائد کاریں مارکیٹ میں آچکی تھیں جو ایک چارجنگ میں ساڑھے تین سو کلومیٹر تک چلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ٹیسلا اس گاڑی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پانچ ہزار گاڑیاں فی ہفتہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

ایلن مسک نے 2012 میں سات سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والے ایک ٹیوب سسٹم ہائیپر لوپ کا نہ صرف تصور دیا بلکہ بعد ازاں نیواڈا کے صحرا میں اس کا عملی مظاہرہ بھی کر دیا۔ فروری 2018میں واشنگٹن ڈی سی نے ایلن مسک کی بورنگ کمپنی کو امریکی دارالحکومت اور بالٹی مور کے درمیان 10.3 میل کا ایک ٹنل بنانے کی منظوری بھی دے دی ہے جہاں کمپنی اپناپائلٹ پراجیکٹ شروع کرنے جا رہی ہے۔ مگر ایلن ماسک کا اصل چیلنج 2024 تک مریخ پر انسانی کالونی قائم کرنا ہے اس مقصد کے لئے انہوں نے دنیا کے سب سے طاقت ور راکٹ سپیس ایکس کو چھ فروری 2018 کو خلا میں روانہ کر دیا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے نہ صرف بھاری سازو سامان کو کم وقت اور کم خرچ پر خلا میں بھیجنا ممکن ہو گیا ہے بلکہ انسان کو زمین کے مدار سے باہر بھیجنے کا راستہ بھی کھل گیا ہے۔ گزشتہ سال کے وسط میں ایلن مسک نے امریکہ کی 31 ریاستوں کے گورنروں کو بلایا ان کے سامنے ایک منصوبہ رکھا کہ وہ محض ایک سو مربع میل کے علاقے پر سولر پینل لگا کر پورے امریکہ کی بجلی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل ان کی کمپنی سولر سٹی نے ایسے چھت بنائے تھے جو سولر سسٹم سے لیس تھے۔ ایلن مسک کا کہنا ہے کہ عنقریب لوگ بجلی کے کھمبوں، پاور سٹیشنوں کو بھول جائیں گے کہ یہ بھی کبھی دنیا میں ہوتے تھے۔ ہر گھر اپنی بجلی خود بنائے گا اور وہ بھی مفت۔ دنیا کے ایک کونے پر ایلن مسک کھڑا ہے جس کی کامرانیوں کے پیچھے دنیا کی سب سے بڑی معیشت کھڑی ہے۔

دوسری طرف پاکستان ہے جہاں تمام تر بے سروسامانیوں کے باوجود کچھ سر پھرے موجود ہیں جو ایلن مسک کی طرح سوچتے ہیں اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اسلم آزاد بھی انہی لوگوں میں سے ہیں۔ کئی کانفرنسوں اورسائنسی نمائشوں میں اسلم آزاد کی سولر گاڑی دیکھی ہے۔ وہ نہ صرف شمسی توانائی سے چلنے والی دنیا کی پہلی گاڑی بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں بلکہ اس کو پیٹنٹ بھی کروا چکے ہیں۔ ان کی گاڑی کا ایک ایک پرزہ میڈ ان پاکستان ہے جس کے بنانے کے تمام حقوق ان کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔ پاکستان میں فوج سمیت کئی ادارے ان کی بنائی ہوئی شمسی توانائی پر چلنے والی شٹل وین اور گالف کارٹس استعمال کر رہے ہیں یہ گاڑیاں بجلی پربھی چلائی جا سکتی ہیں۔

ان کی فیکٹری جائیں تو ایسا لگتا ہے کسی لوہے کے کارخانے میں آگئے ہیں۔ جہاں درجنوں کارکن فائیبر اور خراد مشینوں پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ایک ایسا لچکدار سولر پینل بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں جسے گاڑی کی چھتوں یاسائیڈوں پر کہیں بھی لگایا جا سکتا ہے۔ ان کا ایک اور کارنامہ سولر پینل میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ بھی ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں جو سولر پینل دستیاب ہیں ان کی پیداواری صلاحیت سولہ سترہ فیصد ہے جبکہ ان کی گاڑی میں استعمال ہونے والے سولر پینل کی صلاحیت بائیس فیصد ہے۔ اپنی لیبارٹری میں وہ اس کی صلاحیت پچیس فیصد تک لے جانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

فی الحال ان کی بنائی ہوئی گاڑی ایک چارج میں سو کلومیٹر چلتی ہے جس میں بڑی بیٹریاں لگا کر اس کو دو سو کلومیٹر تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ صنعتی بنیادوں پر اگر اپنا پیداواری یونٹ لگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ ایک چارج میں پانچ سو کلومیٹر تک چلنے والی گاڑی بنا سکتے ہیں۔ اسلم آزاد کی کے عزائم کو دیکھتے ہوئے ٹیسلا موٹرز سمیت کئی بڑے ادارے ان کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں اور انہوں نے باہمی طور پر ایک ایسی یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت وہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنی ٹیکنالوجی شیئر کریں گے تاکہ پہلے سے مروجہ ٹیکنالوجی پر وسائل صرف کرنے کے بجائے کچھ نیا کیا جائے۔

اسلم آزاد اور ایلن ماسک میں فرق صرف یہ ہے کہ ایلن ماسک ایک ایسے ملک میں رہ رہا ہے جہاں کچھ نیا کرنے کے لئے ادارے اور لوگ آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کا راستہ روکا جاتا ہے۔ مگر وہ نام کا ہی نہیں طبیعتاً بھی آزاد منش ہے۔ وہ تنقید و ستائش سے بے پروا اپنے کام میں جتا ہوا ہے بالکل ایلن مسک کی طرح۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).