بیمار پولیس ملازمین پر ظلم


پچھلے دنوں سوشل میڈیا پہ ایک کراچی، سندھ پولیس انسپکٹر کا ویڈیو کلپ دیکھا جس میں ایک باوردی پولیس افسر اپنے محکمے سے ناراض دھاڑیں مار مار کو رو رہا تھا اور اور کہہ رہا تھا میرا بیٹا بیمار ہے۔ جس کے علاج کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ پاس ہی انتہائی لاغر اور بیمار اس کا نوعمر بیٹا بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ ایک پولیس افسر کا ہاتھ میں قرآن پاک پکڑ کر واسطے دینا زور زور سے چلانا کہ ”خدا کے لیے میری مدد کرو۔ کچھ نہیں کر سکتے تو مجھے میرے بیٹے کے علاج کے لیے میری ایڈوانس تنخواہیں ہی دے دو اور ماہانہ میری تنخواہ سے کٹوتی کرتے رہنا“ قابل افسوس قابل مذمت اور کس بے حس معاشرے کی عکاسی کرتا ہے ہمیں بطور انسان اپنے رویوں پہ نظر ثانی کرنا ہوگی۔

اس طرح کے مصائب اور پریشانیوں میں گھرے پولیس افسران سے کس طرح آپ امید اور توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت لاپرواہی کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ اور خوشی خوشی قوم کے تحفظ کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیں گے۔ انسپکٹر رینک کا افسر جماعت پولیس کا ایک معتبر شخص اور رکن ہوتا ہے کسی تھانے میں بطور ایس ایچ او تعینات ہونے والا انسپکٹر اپنے تھانے کی حدود کا بے تاج بادشاہ تصور کیا جاتا ہے اور لوگوں کی جان مال کا نگہبان ہونے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے جرائم کے تدارک یا وقوع پذیر ہونے کی وجہ بھی ہو سکتا ہے۔ ہر طرح کے جائز ناجائز اختیارات کا بے دریغ استعمال کسی بھی تھانے کے ایس ایچ او کا حق تصور کیا جاتا ہے۔

پھر کیا وجہ تھی کہ وہ انسپکٹر پینتیس سال پولیس کی نوکری کرنے کے باوجود نہ اپنا گھر بنا سکا نہ اس قابل ہوا کہ وہ اپنی جمع پونجی سے اپنے بیٹے کا علاج کروا سکے۔ یہ لمحہ ء فکر ہے یقینا وہ انسپکٹر اپنی تنخواہ پہ گزارا کرنے والے پولیس ملزمین کے حالات کی عکاسی و ترجمانی کر رہا تھا۔ ہمیں اس پہ سوچنا ہوگا۔ پولیس محکمہ کے لیے ہسپتال۔ پولیس افسران کے بچو ں کے لیے سکول۔ بچیوں کے لیے دستکاری سکول۔ پولیس شہداء کے بچوں کے لیے الگ سے فنڈ قائم کرنا اور فنڈات حقداران تک پہنچانے کا بندوبست کرنا۔ شہداء اور دوران سروس فوت شدگان کی بیواؤں کے لیے باعزت روزگار کے مواقع پیدا ء و فراہم کرنا۔ یہ حکومت پاکستان کی اولین ترجیحات ہونی چاہییں۔ اب آتے ہیں محکمہ پولیس میں علاج معالجہ کے طریقہ کار کی طرف۔

پولیس ڈیپارٹمنٹ میں سرکاری ہسپتال اور علاج معالجے کی خاطر خواہ سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ شوگر۔ بلڈ پریشر۔ ہیپاٹائٹس۔ ڈپریشن۔ امراض قلب۔ ذہبی تناؤ۔ نیند کا نہ آنا۔ بھوک میں کمی۔ گیس کی شکایات۔ یہ وہ امراض ہیں جن کا پولیس محکمہ معہ ماتحت و افسران بہت زیادہ شکار ہے یہ وہ بیماریاں ہیں جو دیمک کی طرح کسی بھی انسان کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں پولیس کی صفو ں میں گھسے ان بیماریوں کی شکل میں میٹھے اور خفیہ چور پولیس کی پکڑ سے کوسو ں دور ہونے کے ساتھ ساتھ نقب زنی میں بھی دن رات مصروف ہیں۔ ان صحت و تندرستی کی دشمن بیماریوں اور چوروں کو پکڑ کر ان کا خاتمہ کرنے میں پولیس مکمل طور پہ ناکام نظر آتی ہے اور مستقبل میں بھی ان کے پکڑے جانے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی

شاید محکمہ پولیس کی صحت کے متعلقہ افسران کا اور حکومت پاکستان کا اس طرف کوئی خاص دھیان نہیں ہے۔ پولیس لائینز او ر ٹریننگ انسٹیٹیوٹس میں چھوٹی موٹی ڈسپنسریاں بنا دی گئی ہیں جن میں میڈیکل کے حوالے سے تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والے پولیس ملازمین سے ہی بطور ڈسپنسر کام لیا جاتا ہے۔ اگر کہیں کسی ڈسپنسری یا پولیس ہسپتال میں کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر تعینات ہے تو اس کے پاس سٹاف اور خاطر خواہ ادویات دستیاب نہیں۔ پیناڈول۔ ڈسپرین۔ درد کے ٹیکہ جات۔ کھانسی کے شربت کے علاوہ کوئی دوائی ملنا قدرے نا ممکن ہے پیٹ درد۔ ٹانگ درد۔ سر درد۔ بخار۔ کھانسی۔ نزلہ۔ تھکاوٹ۔ سب بیماریوں کے لیے ایک ہی نسخہ جو پہلے سے پڑیوں میں بند ہوتا ہے ”کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں“ کے مشورے کے ساتھ مریض کو تھما دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ہائیڈرالین سیرپ کی بوتل کو بھی کئی چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی شیشیوں میں ڈال کر رکھا ہوتا ہے۔ آپ کو کھانسی ہے یا نہیں وہ چھوٹی پلاسٹک کی شیشی آپ کو تبرک کے طور پہ دوائی کی پڑُی کے ساتھ لازمی تھما دی جائے گی۔

کوئی پولیس ملازم اگر سچ مچ بیمار ہو جائے خدانخواستہ اسے کوئی خطرناک بیماری لاحق ہوجائے تو اسے اپنی مہلک بیماری اور پریشانی کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ علاج معالجے کے لیے تکلیف دہ کٹھن اور محکمانہ دلچسپ پراسیس سے گزرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے آپ کو یہ ثابت کر نا پڑتا ہے کہ آیا آپ سچ مچ بیمار ہیں یا کوئی بہانہ بازی سے کام لے رہے ہیں یہ پریکٹس اسپیشل ماتحتان ادنی کے لیے ہے۔ اور یہ سب ثابت کرنے کے لیے آپ کو کسی مشین یا ٹیسٹ کے عمل سے نہیں گزرنا بلکہ اپنی حرکات و سکنات سے لب و لہجہ سے اور چہرے کی معصومیت سے باور کروانا ہوتا ہے کہ آپ بیمار ہیں اور آپ کا انتہائی نگہداشت میں علاج ضروری ہو چکا ہے۔ بہت سارے فنکار قسم کے پولیس والے اس عمل سے احسن طریقے سے گزر جاتے ہیں اور یہ ہی وہ پولیس والے ہوتے ہیں بعد ازاں ہسپتال کے عملہ سے ساز باز کرکے میڈیکل ریسٹ لیتے اور افسران کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں

شاید ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی حقداران کا بھی ٹھیک علاج نہیں ہو پاتا اور حقیقی بیماروں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے پولیس افسران کو چیک اپ کے بعد ریسٹ دیا جانا قطعی غلط ہے۔ اس غیر ضروری ریسٹ کی اور اس نقصان دہ سہولت کی جگہ پولیس کے ایسے ہسپتال ہونے چاہیئں کہ اگر کوئی پولیس ملازم اس قدر بیمار ہے تو اسے گھر بھیجنے کی بجائے ہسپتال میں داخل کیا جائے اور باقاعدہ علاج معالجہ کیا جائے۔ ریسٹ لے کر گھر جانے والے پولیس ملازما ن کا ایک تو اچھی طرح سے علاج معالجہ نہیں ہوتا دوسرا ان کی تنخواہ سے ایک بڑی رقم کاٹ لی جاتی ہے جس سے حقیقی بیمار کی داد رسی ہونے کی بجائے مالی نقصان کر دیا جاتا ہے۔ اور چور قسم کے ذہنی بیمار اور میڈیکل ریسٹ لینے کے عادی مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

ایک پولیس والے کا علاج کی غرض سے ہسپتال تک پہنچنا بھی بڑا دلچسپ مرحلہ ہے۔ جیسے کہ تھانہ یا چوکی میں موجود رجسٹر آؤٹ ڈور میں رپٹ کا اندراج کروانا باقاعدہ روزنامچہ میں ہسپتال کے لیے روانگی کروانا۔ ڈاجر گامبڑ۔ کام چور۔ اور بجلی سکارڈ یہ وہ نام ہیں جو بیمار پولیس ملازم کے نام کے ساتھ اسی وقت جڑ جاتے ہیں جب وہ رجسٹر آؤٹ ڈور میں اپنا نام درج کرواتا ہے۔ خاص کر پولیس کے ٹریننگ سکولز اور کالجز میں یہ القابات بہت بہت زیادہ کہے سنے اور نوازے جاتے ہیں۔ آؤٹ ڈور رجسٹر میں نام اندارج کروانے کے بعد سرکاری ڈسپنسری سے ریفر ہو کر کسی بڑے ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ جہاں ایک طویل خجالت کے بعد لائینوں میں لگ کر باوردی ملازمان اپنا چیک اپ کرواتے اور دوائی لیتے نظر آتے ہیں۔

کسی مہلک بیماری کی تشخیص کے بعد واپس آکر پولیس ملازمان اپنے دفتر رپورٹ کرتے ہیں اور پھر ایک سرکاری ڈاکٹ کے لیے درخواست دینا پڑتی ہے۔ ایک دو دن کی کارروائی کے بعد ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی طرف سے بیمار ملازم کو سرکاری ڈاکٹ جاری کیا جاتا ہے جس سے ملازم کو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تمام علاج معالجہ اور ہر طرح کے ٹیسٹ میں بنیادی تنخواہ کے تناسب سے رعایت کی جاتی ہے اور کسی حد تک ملازمان پولیس کا علاج سستا اور آسان ہو جاتا ہے لیکن سرکاری ڈاکٹ کا حصول بھی ایک کٹھن مرحلہ ہے بیمار آدمی کے لیے دفاتر کے چکر لگانا کافی دشوار اور پریشانی کا سبب بنتا ہے۔

ان تمام پریشانیوں سے بچنے کے لیے پھر پولیس ملازما ن کوئی شارٹ کٹ مارنے کی یا غیر قانونی طریقہ اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنا علاج معالجہ کروانے کی بجائے قانونی اور غیر قانونی طریقے سے ہسپتال کے عملہ سے ملی بھگت کرتے اور میڈیکل ریسٹ لیتے نظر آتے ہیں۔ میں نے جہاں تک نوٹ کیا ہے پولیس ملازما ن بیماری کی صورت میں اپنا علاج معالجہ کروانے کی بجائے ریسٹ لے کر گھر جانا زیادہ پسند کرتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ میڈیکل سہولیات کی عدم دستیابی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ بہت سارے پولیس ملازمان سچ مچ ڈاجر۔ گامبڑ۔ اور کام چور ہوتے ہیں صرف پولیس والے ہی نہیں ہر سرکاری محکمے میں اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ جن کے لیے ڈیوٹی کرنا مر جانے سے بھی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر کی طرف سے تجویز کی گئی ریسٹ کو کسی بھی پولیس آفیسر کی طرف سے رد کیے جانے کے بہت کم امکانات ہوتے ہیں۔ ۔ محکمہ پولیس کے ذاتی ہسپتال نہ ہونے کے جہاں صحت کے حوالے سے نقصانات ہیں وہیں یہ بھی بڑا نقصان ہے کہ بلاوجہ کی ریسٹ لینا میڈیکل ڈاکٹ بنوانا عام بات ہے اور اس غیر اخلاقی کام کا سدباب محض اسی صورت ممکن ہے کہ پولیس کے الگ سے بہترین ہسپتال بنائے جائیں علاج معالجہ سستا اور آسان کیا جائے آرمی کی طرز پولیس کے ہسپتال ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ کسی بھی رینک کا کوئی بھی پولیس افسر اپنا یا اپنے بچو ں کا علاج معالجہ بہتر طریقے سے کروا سکے۔ اگر سچ مچ کوئی حلال روزی سے جائز کمائی سے اپنے بچوں کی پرورش کر رہا ہے۔ اپنی ڈیوٹی کو فرض سمجھ کر احسن طریقے سے سرانجام دے رہا ہے رشوت لوٹ مار سے جہنم کا ایندھن اکٹھا کرنے سے محفوظ اور بچا ہو ا ہے تو اسے سر بازار اس طرح رو رو کر اپنے یا اپنے بیوی بچوں کے علاج کے لیے جہاں کا تماشہ نہ بننا پڑے رو کر بھیک نہ مانگنی پڑے۔

پولیس ملازمان کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ بہت ضروری ہے۔ ان کی ڈیوٹی ٹائمنگ مقر ر کیا جانا۔ بہت ضروری ہے۔ ورنہ قوم کو چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں، اور جرائم پیشہ عناصر سے تحفظ دینے کے لیے ہر وقت سڑکوں گلیوں چوراہوں تنگ و تاریک بستیوں محلوں میں چوبیس گھنٹے گشت کرتے اور جان کے نذرانے دیتے ماؤں کے سپوت۔ اپنی ہی صفو ں میں بیماریوں کی شکل میں گھسے ان میٹھے چوروں سے محفوظ نہ رہ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).