ایک فور بائی فور جیپ کی خوبیاں



میں گاؤں میں رہتا ہوں۔ ہمارے گاؤں میں زیادہ تر سڑکیں کچی ہیں وہاں جیپ کا سفر معمول ہے۔ جیپ دشوار گذار راستوں پہ سفر کرنے کے لئے مناسب سواری تصور کی جاتی ہے لیکن اتنی بھی نہیں جتنی شہر میں چلنے والی جیپ۔ ہم لوگ خوشی خوشی جیپ پہ سوار ہوتے ہیں۔ ہمارے گاؤں کی سڑکوں پہ چلنے والی جیپیں بھی بہت پرانے ماڈل کی ہیں۔ پرانے انجن اور آواز بھی پھٹی پھٹی۔ گاؤں کی کچی سڑکوں پہ چلنے والی جیپ کی بہت سی خصوصیات ہیں تاہم کچھ جیپیں بہت مہنگی ہیں ان میں خاص طور پر ایک جیپ جس کو خاص مقام حاصل ہے فور بائی فور۔ پکی مضبوط جیپ۔ گاوں کی سڑکیں چونکہ خستہ حال ہیں اس لئے جیپ میں سوار ہونے والے ہمیشہ غیر یقینی صورت حال کا شکار رہتے ہیں۔ بار ہا جیپیں حادثوں کا شکار ہو چکی ہیں۔ ڈرائیور بھی یار لوگ ہیں پرانے گانے لگاتے ہیں اور دھیمے دھیمے انداز میں گاڑی چلاتے ہیں۔ ہم تمام ڈرائیوروں سے واقف ہیں اور ان کے مزاج سے بھی۔ ڈرائیور گاڑی کا بڑا خیال رکھتے ہیں اور پیدل چلنے والوں کا بھی سٹرکوں کے خدوخال اور احوال سے واقف بچا بچا کر سواریوں کو منزل تک پہچاتے ہیں۔ لیکن تمام سفر خدشوں سے بھرپور رہتا ہے۔

اس کی وجہ سڑک کی خستہ حالی کے ساتھ ساتھ ڈائیور کی طبعی حالت بھی ہوتی ہے۔ اسی لئے ڈرائیور زیادہ سواریاں بیٹھانے سے اجتناب کرتے ہیں۔ راستوں پہ سنگ و سگ دونوں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ نوکیلے رستوں پہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ جیپ کے ٹائر جواب دے جاتے ہیں۔ جیپ کے ٹائروں سے ہوا نکل جاتی ہے ،کہیں جیپ کی بریک کام چھوڑ جاتی ہے۔ لیکن ان سب مسائل کے باوجود وہاں کی جیپ ہی آمدورفت کا واحد ذریعہ ہے۔ وہاں کی جیپ پہ بات کرنا مقصود نہیں ہے۔ آجکل ملک میں الیکشن کا ماحول ہے۔ ہرسو الیکشن ہو رہے ہیں لیکن ہوتے نظر نہیں آرہے۔ الیکشن میں مجھے گاؤں کی جیپ کا بار بار خیال آرہا ہے۔

الیکشن 2018 میں یہاں بھی ایک جیپ مقبولیت کے حامل ہو گئی ہے۔ اس جیپ کا موازنہ کسی طور بھی گاوں کی کچی سڑک پہ چلنے والی پرانی اور کسٹم پیڈ جیپ سے ممکن نہیں لیکن یہ جیپ کچھ غیر مرئی خصوصیات کی حامل ہے۔ اگر کوئی غور کرے تو اس جیپ میں بہت دلچسپ موضوعات چھپے ہیں۔ پہلی بات کہ اس جیپ کا کوئی خاص ماڈل نہیں تاہم کچھ لوگ یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ اس جیپ کو عسکری کمپنی نے تیار کیا ہے اور یہ اپنی نوعیت کی واحد جیپ ہے۔ اس جیپ کو فیول کی ضرورت نہیں ہے یہ فیول پہ نہیں چلتی۔ کچھ لوگوں کے ہاں یہ جیپ بلٹ پروف سمجھی جاتی ہے۔ بے شمار خصوصیات کی حامل جیپ کی مگر سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس جیپ کی نمبر پلیٹ نہیں ہے ،اس کو چلانے والے ڈرائیور کو بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ڈرائیور تو کہیں نظر ہی نہیں آتا کہ کہاں بیٹھا ہوا ہے تاہم ڈرائیور سیٹ موجود ہے۔ یہ جیپ کسی بھی قسم کے چالان سے مبرا ہے۔ ابھی تک اس جیپ میں سوار مسافروں کی تعداد ایک سو انیس سے زائد ہے۔ گاوں کی ایک جیپ میں زیادہ سے زیادہ آٹھ لوگ سفر کر سکتے ہیں۔
اس جیپ کی منزل بھی سامنے ہے اور اب کوئی پڑاو بھی ایسا نہیں راستہ بھی صاف ہے۔ اس کا رخ پنڈی کے بجائے اسلام آباد کی جانب ہے۔ جیپ سڑک پہ موجود بہت سی رکاوٹوں کو عبور کر چکی ہے۔ اس جیپ میں سوار مسافروں کے پاس لائف جیکٹ ہے اور منزل پہ پہچنے کی یقین دھانی بھی ،اس کے انجن میں ایک پورے ملک کی طاقت ہے ،یہ جیپ بہت قوت کی حامل ہے۔ شاید یہ دنیا کی واحد جیپ ہو گی جس میں مسافروں کو زبردستی سفر کرایا جاتا ہے او ر ان سے کرایہ بھی نہیں مانگا جاتا۔

زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ اس جیپ کو چلانے والا ڈرائیور محض ڈمی ہے اور جیپ ریموٹ کنڑول ہے۔ جیپ میں سفر کرنے والوں کے مقابلے میں شیر اور بلا بھی ہیں لیکن اس جیپ کی ہارس پاور شیر سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس جیپ کے پیچھے کیا کیا ہے انسان اگر غور کرے تو اس کو لگ پتا جائے تاہم پاکستان میں جتنی توجہ اس بے نام جیپ نے حاصل کی اتنی دنیا کی سب سے مہنگی جیپ کارلمین کنگ کے حصے میں بھی نہیں آئی۔ ۔

اطلاع یہ بھی ہے کہ اصل طاقت جیپ میں نہیں ہے کہیں اور ہے۔ کوئی جو بھی کہے لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ا س نان کسٹم جیپ کو اب آئینی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور اس پہ بیٹھ کر سفر کرنے والے سواروں کے منہ میں جو زبان ہے، وہ ان کی اپنی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).