وزیراعظم کے غیر مفاہمتی مشیر


\"ibarhimجب قید و بند، ملک بدری، جھوٹے مقدمات کا مقابلہ کرنے والا وزیراعظم دہشت گردوں اور حکومت مخالف سیاستدانوں کو ایک صف میں کھڑا کردے تو یہ شک ضرور پیدا ہوتا ہے کہ یہ الفاظ ہمارے وزیراعظم کے ہیں یا ان کے آس پاس رھنے والے کچھ ایسے ساتھیوں کے ہیں جن کے لیے پیپلز پارٹی کے رہنما ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ وزیراعظم کے آس پاس ان کے دوست نہیں، ان سے بچ کے رہنا چاہیئے۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد میاں نواز شریف وہ واحد وزیراعظم ہیں جو اس ملک کی سیاست، حکومت، مداخلت، دخل اندازوں، غیر سیاسی قوتوں کی سیاست، اقتدار کے رموز، سیاست کو بدنام کرنے والے طاقتیں اور غیر جمہوری سوچ کے حامل اداروں اور افراد کو خوب سمجھتے ہیں۔ یہ سمجھنا ہی کافی نہیں لیکن اب اس بات کی بھی تو ضرورت ہے کہ سیاسی فاصلے اس طرح گھٹنا چاہیں کہ کسی بھی غیر ضروری مداخلت پر تمام سیاسی قیادت ایک صفحے پر ہوں، فضا ایسی نہیں ہونی چاہئے کہ مولانا فضل الرحمان کو یہ کہنا پڑ جائے کہ ”خدا نخواستہ حزب اختلاف معاملے کو کسی غیر آئینی صورتحال کی طرف دھکیل رہی ہے“۔

 وزیراعظم احتساب کے نام پر سیاسی انتقامی کارروائیوں، اختیارات کی جنگ، رسہ کشی والے کئی معاملات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، وہ نام نہاد احتساب، سزا اور انتقام کے حوالہ سے جو کچھ بھی کہتے ہیں ان کی سچائی میں کسی کو شک نہیں لیکن جب وہ دھرنے والے سیاستدانوں اور دہشت گردوں میں کوئی فرق نہیں رکھتے تو یہ شک ضرور ہوتا ہے کہ یہ ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ وزیراعظم کا بیان ہے جنھوں نے خود کئی مرتبہ دھرنا اور لانگ مارچ کئے ہیں یا اس بیان کے پیچھے سیاسی مفاہمت کے مخالف ان کے اپنے ہی ساتھی ہیں جن کو ہر وقت پارسائی پر ناز رہتا ہے یا جن کو سیاسی لڑائیوں میں ہی مزا آتا ہے۔

سنیئیر سیاستدان محمو د خان اچکزئی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ”میں نے میاں نواز شریف کو کافی پرکھا ہے وہ شریف سے بندے ہیں لیکن ان کے آس پاس لوگ کافی چالاک ہیں“ یہ تقریباً وہی بات ہے جو سینٹ میں محترم اعتزاز احسن اور قومی اسمبلی میں سید خورشید شاہ کہتے رہے ہیں کہ ”میاں صاحب کو اپنے ساتھیوں کے روپ میں دشمنوں سے بچنا چاھئیے“

۔ پاناما لیکس کے پس منظر میں پیدا ہوئے اس بڑے بحران میں بظاہر تو حکومت کے سامنے مخالف سیاسی قوتوں نے مشکلات کھڑی کردیں ہیں لیکن یہ پہلی بار ہے کہ اس قسم کے بحران میں بھی حکومت مخالف جماعتیں سیاسی انداز سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ کیا اس قسم کی سیاسی سرگرمیاں ملک میں مستحکم سیاسی ماحول پیدا نہیں کر رہیں؟ جس ملک میں سیاست کو ایک گالی اور سیاستدان کو بدنام زمانہ بدعنوان، چور، لٹیرا، غنڈہ، ڈاکو اور ان جیسے کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہو وہاں مثبت انداز میں سیاسی نوعیت کی پرامن سرگرمیاں شروع ہونا غنیمت نہیں؟ ورنہ یہ تو کل کی بات ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کی پگڑی میں ہاتھ ڈالتے دیر نہیں کیا کرتے تھے، انتقامی کارروائیاں، ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے مقدمات، ملک کے ترقیاتی منصوبے صرف تعصب کے بنیاد پر ختم کرنا، ایک دوسرے کو چوکوں میں گھسیٹنے جیسے بیان ان ہی سیاستدانوں کا مشغلہ رہا ہے۔ سیاست دانوں کی ان ہی حرکات کا ہر فوجی مطلق العنان نے ماضی میں خوب فائدہ اٹھایا ہے، آپ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف کی اقتدار پر قبضے کے وقت پر کی گئی تقریر کا موا د پڑھ کر دیکھیں ان میں سیاستدانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی کا ذکر ضرور ملے گا۔ ایسے مطلق العنانوں کو سیاست ایک آنکھ نہیں بھاتی لیکن وہ بھی سیاستدانوں کی ان حرکات کا فائدہ اٹھانا نہیں بھولتے۔

لیکن اب پگڑیوں میں ہاتھ ڈالنے والا وہ ماحول آہستہ آہستہ ختم ہونے کی طرف جا رہا ہے۔ اب کی بار حکومت کی حمایت یا مخالفت میں کھڑی اکثر سیاسی جماعتیں ملک میں چلتے ہوئے جمہوری نظام کے تسلسل پر متفق ہیں، کیا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ 90 کی دہائی والی سیاست کو اتنا جلدی پیچھے دھکیل دیا جائے گا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب بڑی سیاسی پارٹیاں ایک دوسری کی ٹانگیں کھیچنے کے لئے دوسری قوتوں کو اپنا کاندھا فراھم کرتی تھیں لیکن میثاق جمہوریت کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ اس پر دستخط کرنے والی سیاسی جماعتوں نے اپنا کاندھا اس مقصد کے لئے استعمال کرنے سے توبہ کرلی۔

اس بار حکومت کو اگر کچھ مشکلات کا سامنا ہے تو وہ ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس میں وزیراعظم کے مشیروں کا بڑا عمل دخل ہے، ورنہ سیاسی اعتبار سے حکومت کو ایک آئیڈیل اور مثبت سیاسی ماحول میسر ہے، کوئی بھی شخص یہ اندازہ آسانی سے لگا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کو وزیراعظم سے استعفیٰ لینے والے موقف سے دستبردار کرانے سے لے کر ان کو گلی کوچوں میں پرتشدد طاقت کا مظاہرہ کرنے کی خواھش سے روکنا حکومت کو کتنا بڑا ریلیف دینے کے برابر ہے۔

بھلے کوئی کہتا رہے کہ تحریک انصاف کو ابھی تک امپائر کا اشارہ نہیں ہوا لیکن اس کی داد تو دینا پڑے گی کہ سیاست قوتوں کی بالغ النظری کا کمال تھا کہ تحریک انصاف کی جذباتی قیادت کو اس بات پر راضی کرلیا ہے کہ استعفیٰ کے مطالبے کو پاناما لیکس کی تحقیقات سے مشروط کیا جائے، اور اس سیاسی مشورے کو مان لینا اس بات کی دلیل ہے کہ تحریک انصاف بھی بالغ نظر سیاست میں قدم رکھ رہی ہے۔

یہ سب باتیں اور سیاسی قوتوں کا دو الگ الگ جگہوں پر ایک صف میں کھڑا ہونا اس بات کا بڑا ثبوت ہے کہ سیاست جمہوری نظام کے استحکام کے لئے آگے بڑھ رہی ہے، اگر اس نظام کی پیٹھ میں خنجر مارنے سے سیاسی پارٹیاں توبہ کر لیتی ہیں تو ان برسوں میں پاکستانی جمہوری نظام کی یہی سب سے بڑی کامیابی ہوگی، یہ صرف حزب اختلاف کا ہی نہیں لیکن حکومت کا بھی فرض ہے کہ پرامن سیاسی ماحول کو پرتشدد بننے سے روکنے کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھے، اور الٹے سیدھے مشورے دینے والے حکومتی اکابر کو سمجھنا چاہیئے کہ سیاست میں اس وقت جتنی مفاہمت کی ضرورت ہے اتنی کبھی نہیں رہی، اس لئے وزیراعظم کو پارلیمنٹ سے گریز کرنے، حزب اختلاف کو آنکھیں دکھانے، ان کی ہر بات کو رد کرنے جیسے مشورے دینے کی بجائے اس نظام کی بہتری اور سیاسی استحکام کے لئے مشورے دیئے جائیں۔

اب آتے ہیں پاناما لیکس اور اس سے جڑی اخلاقیات پر۔ پاناما لیکس اپنی نوعیت کا منفرد اسکینڈل ہے جس نے پاکستان کے ساتھ کئی ممالک کے سیاستدانوں کے لئے مسائل پیدا کردئیے ہیں، لیکن ھمارے ہاں تو ہر جمہوری دور میں وقفے وقفے سے اس طرح کے تناؤ کی سی صورتحال پیدا ہوتی رہتی ہے۔ پھر خطرے کی لٹکتی تلواروں، خوف کے سائے اور اضطرابی کیفیت میں وہ منتخب حکومت ایک دن گھر بھیج دی جاتی ہے۔

ٹھیک ہے اخلاقیات کے درس مفت میں بانٹ کر کئی مہذب معاشروں اور جمہوری ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں، میڈیا میں شام کے ٹاک شوز کے میزبان سے لیکر مہمانوں تک، گلی نکڑ پر تھڑے پر بیٹھے عام لوگوں تک سب کے سب وزیراعظم سے استعفیٰ لینے کی خواھش کا اظہار کر رہے ہیں، پھر بھارت، برطانیہ اور دوسرے ممالک اور ان کے سربراھان، ان ملکوں میں پاناما لیکس پر تحقیقات کی کئی مثالیں دے کر مطالبات کئے جاتے ہیں، وہ سب اچھی بات، ہمیں مہذب معاشروں کی تقلید کرنی چاھئیے، ہمیں دنیا کی بہترین جمہوری ملکوں کے سربراہاں کی قائم کردہ اچھی روایات کی پیروی کرنی چاھیئے، لیکن یہ تقلید اور پیروی صرف ان سربراہوں اور وزرا کے استعفوں کی حد تک ہی کیوں؟

ہمیں ان ملکوں کے بہترین، مضبوط، مستحکم، آزاد، بااختیار اور خودمختار جمہوری نظام کی بھی تقلید کرنی چاھیئے۔ ہمیں بھارت کی مثال دینے وقت یہ بات بھی باور کرانی چاہیئے کہ جس طرح کبھی بھارت میں فوج نے سیاست میں مداخلت کی کبھی کوشش نہیں کی اسی طرح ہماری فوج کو بھی ایسی کوشش نہیں کرنی چاہئیے، جس طرح دشمن ملک میں جمہوریت مستحکم اور جمہوری ادارے مضبوط ہیں اسی طرح کی جمہوریت ہمارے ہاں بھی ہونی چاہئیے۔ جس طرح برطانیہ کی مثالیں دی جاتی ہیں اس کے ساتھ برطانیہ میں قانون کی حکمرانی کی مثالیں یہاں قائم کرنے کی روایت بھی ہونی چاہئیے، لیکن اس کے ساتھ اس ملک میں جس نے جو غلط کیا ہے اس کا حساب کتاب بھی کرنا چاھیئیے، آئین کو پاؤں تلے روند کر قانون سے بھاگنے والے آمر سے لیکر ملک توڑنے کے ذمہ داروں کا ذکر بھی سرعام کرنا چاھئے۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے کسی کے ہونٹوں پر کبھی تالا نہیں پڑنا چاھیئے۔

اخلاقیات کے درس سویلین حکمرانوں کے لئے ضرور ہونا چاھیئں لیکن وہ جو دس دس سال بغیر کسی خوف و خطر اقتدار کا مزا لیتے رہے ان فوجی آمروں اور ان کے ساتھیوں اور ان کی حمایت کرنے والے تمام طبقوں پر بھی ان اسباق کا اطلاق ہونا چاہیئے۔

 

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments