اینکروں کی ڈرامے بازیاں اور طے شدہ سرویز


الیکشن سے متعلق ہر ٹی وی سروے پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ٹی وی ناظرین کی رائے پر بہت اثرانداز ہوتا ہے بعض اوقات لوگ کسی چہرے سے شناسا ہو جاتے ہیں یا کسی کی بات کلک کر جاتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کی شخصیت کے سحر میں اس کی بات اچھی لگنے لگے چاہے وہ بونگیاں ہی مارے۔ بعض اوقات جعلی سے اخلاقی درس دے دے کر اینکر حضرات خود کو ولی اللہ بنا لیتے ہیں ناظرین کے لیے۔

یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی چالاک اینکر جانبدارانہ رویہ اختیار کر لے اور بے تکان کسی ایک سیاسی پارٹی کا تیاپانچہ کرتا چلا جائے۔ ظاہر ہے اس پارٹی کے مخالفین اینکر صاحب کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور انہیں سچ کا استعارہ سمجھ لیا جاتا ہے بھلا اس نے پس پردہ ڈیل ہی بنائی ہو۔ ذرا غور کرنے پر علم ہوتا ہے کہ موصوف کل تک کسی اور کے قصیدے پڑھتے تھے پھر یکایک ان میں کیڑے نظر آنے لگے۔ ایسی جذباتی باتیں کرتے ہیں کہ سننے والا ایسے دھوکا کھاتا ہے جیسے نیا عاشق سنگدل محبوب سے۔

یہ کام بہت آ سان ہے۔ کرنا صرف یہ ہوتا ہے کہ جس کا تیاپانچہ کرنا ہو اس کی جیت بھی کسی اور کے کھاتے میں ڈال دو اور جسے بڑا دکھانا ہو اس کے دھوکے کو بھی مرہم بنا دو۔ ایک بڑی دلچسپ مثال پاکستان میں ٹی 20 کرکٹ کا انعقاد تھا۔ گیارہ بجے والے ایک اینکر صاحب نے نجم سیٹھی صاحب اور نواز شریف حکومت کا سارا کریڈٹ راولپنڈی میں بیٹھی اسٹیبلشمنٹ کو دے دیا۔ انہی صاحب نے ایک بار کمال کر دیا۔ نواز شریف کے پانامہ کیس پر بیٹھے ہوئے بنچ سے استدعا کرتے ہیں، ” خدارا! فیصلہ دیتے ہوئے عوامی جذبات کو ضرور ملحوظ خاطر رکھیں“۔

اسی طرح پچھلے دنوں ایک گول مول سے باخبر اینکر سیاسی امور کے ماہر بنے بیٹھے تھے اور بہت باتیں بنانے کی ضرورت تھی کیونکہ نواز شریف کا طیارہ تاخیر کا شکار ہوگیا تھا اور کہنے کو کچھ تھا نہیں۔ موصوف نے آف سکرین بیٹھے کسی شخص کو آ نکھ ماری اور بناوٹی سا غصہ طاری کر کے شور مچا دیا کہ کوئی مستونگ سانحہ کی بات ہی نہیں کر رہا۔ سب لوگ نواز شریف کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور یہ کہ انہیں تو بہت رنج ہے کہ میڈیا صرف پنجاب کی خبر کو ہی خبر سمجھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے کہہ دیا کہ دیکھ لینا کوئی بڑا سیاستدان بلوچستان نہیں جانے گا کیونکہ یہ لوگ ہارون بلور کی تعزیت کرنے بھی نہیں گئے۔ اب سمارٹنس دیکھیے۔ خود بھی بڑے بن گئے، ایک ڈیڑھ گھنٹہ بھی سکرین پر ” ٹپا“ لیا اپنی nuisance value بھی بتا دی اور سیاستدانوں کی بھی دوڑیں لگوا دیں۔ اگر نواز شریف کا طیارہ لیٹ نہ ہوتا تو اتنا کچھ نہ ہو سکتا۔

اسی طرح کچھ اینکرز الیکشن میں ہار جیت سے متعلق دو یا تین طرح کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ جب نتیجہ آئے گا تو درست والی پیش گوئی نکال کر کہیں گے، ”خا کسار نے فلاں پروگرام میں اتنے دن پہلے یہ کہہ دیا تھا“۔ فیس بک پر درست پیش گوئی کی تشہیر کریں گے۔ ایسے ہی وہ معتبر صحافی جو جی ٹی روڑ پالیسی کو نوز شریف کی نئی سیاسی زندگی کہہ رہے تھے، فیصلہ آ نے کے بعد یکا یک ٹکراؤ کی پالیسی پر تبرے بھیجنا شروع ہو گئے۔ جب اس نے جیل جانے کا فیصلہ کر لیا تو پھر اس کے سیاسی تدبر کی تعریفیں شروع کر دیں۔

اسی طرح آج کل آ پ سیاسی سرویز بھی دیکھتے ہیں۔ ہر للو پنجو جسے ٹماٹروں کا بھاؤ کرنا نہیں آ تا وہ مختلف حلقوں میں سروے کرتا نظر آ تا ہے۔ اب ظاہر ہے دس بارہ لوگوں میں سے کوئی ایک اپنی مرضی کا بولنے والا ملتا ہے ( رائے میں نہیں صرف بولنے میں ) اور پھر ایک جعلی سا توازن بھی قائم رکھنا ہوتا ہے ورنہ پروپیگینڈا لگے گا۔ بعض اوقات لوگوں سے گزارش کرنی پڑتی ہے کہ جسے مرضی ووٹ دیں بس کیمرہ پر فلاں پارٹی کا کہہ دیں۔ نیوز چینلز کو اگر تو آپ تفریح کا ہی ایک ذریعہ سمجھیں تو بہتر ہو گا ورنہ یہ نام نہاد رائے اور سرویز آپ کے ناک میں دم کر دیں گے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دریا میں رہتے ہوئے بندہ سوکھا رہے۔ میں خود ایک بار پوسٹ آ فس ہر ایک ڈاکیومنٹری بنا رہا تھا، خط کا جہاں، اور مجھے ایک ایسے بوڑھے شخص کی ضرورت تھی جو خط پتر لکھنے، عرضیاں وغیرہ لکھنے کے کام پر نوحہ کناں ہو سکے۔ ایک نحیف و نزار بوڑھا مجھے جنرل پوسٹ آ فس کے باہر مل گیا۔ میں نے پانچ سو کا ایک نوٹ جیب سے نکال کر بابا جی کو تھمایا کہ یہ آپ کی مزدوری اور مجھے آپ کے پندرہ منٹ چاہئیں۔ بوڑھے نے پانچ سو روپے ذرا جھجھکتے ہوے پکڑے اور وہیں فٹ پاتھ پر پڑے چھوٹے سے میز پر سامنے رکھ دیے۔ میں نے کہا کہ ” بابا جی! اے قبول کرو“۔ کہتا ہے، ” پتر قبول ہی قبول نیں کم دسو“۔ میں نے کہا کی بس آپ کہہ دیں کہ خط پتر لکھوانے کا دور ختم ہو گیا ہے۔ اس کام میں کوئی روزی کا ذریعہ نہیں رہا وغیرہ۔

بوڑھے نے خلاؤں میں گھورنا شروع کر دیا۔ میں سمجھ گیا کہ کہ بوڑھا بہت کایاں ہے اور فٹ پاتھ پر اکیلا ہونے کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ میں نے پانچ سو کا ایک اور نوٹ نکالا اور بوڑھے کے میز پر رکھ دیا، ” بابا جی! ٹایم دی فکر نہ کرنا۔ تواڈی دیہاڑی نہیں مردی۔ دو گلاں بول دئیو“ ( بابا جی! ٹائم کی فکر نہ کیجیے۔ آپ کی ایک دن کی مزدوری ضائع نہیں ہوگی۔ بس دو فقرے بول دیجیے)۔ بوڑھا بولا ” بیٹا! میں اڑتیس برس سے یہ کام کر رہا ہوں۔ تین بیٹیوں کی شادی کی۔ گھر بنایا۔ کبھی بھوکا نہیں رہا۔ کبھی کسی سامنے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑا۔ میں اس کام کو کیسے برا کہہ دوں“۔ میں ایک لمحہ کو ٹھٹھکا لیکن ابھی میں بوڑھے کو قائل کرنے کے لیے کوئی دلیل گھڑنے ہی والا تھا کہ اس نے میرا ہزار روپیہ واپس میرے ہاتھ پر رکھ دیا۔

اسی طرح میں بجلی کے کنڈوں پر ایک شارٹ فلم بنانے ہڈیارہ کے علاقہ میں گیا۔ بہت کنڈے پڑے تھے لیکن کچھ سمجھ نہیں آ تی تھی کہ کنڈہ ڈالا کس نے ہوا ہے۔ خیر ہم نے کنڈوں کے شاٹس بنائے اور اسی اثنا میں پتہ چلا کہ کچھ لوگوں نے ہمارے لیے خود ہی چائے بنا لی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ کنڈوں کا مدعا کس پر ڈالیں۔ خیر ہم نے گاؤں والوں کو اکٹھا کیا اور انہیں کہا کہ آپ دور کھڑے ہو جائیں اور جب ہم اشارہ کریں آ پ ہمیں گالیاں بکنا شروع کر دیں۔ گاؤں والوں نے صاف انکار کردیا۔ میرے ایسوسی ایٹ پروڈیوسر نے کہا، ” یہ گاؤں والے بہت سیانے ہو گئے ہیں۔ کنڈوں کی وجہ سے سامنے نہیں آئیں گے“۔ میرے بہت اصرار پر گاؤں والوں نے کہا کہ انہیں کنڈوں شنڈوں کا کوئی خوف نہیں۔ صرف یہ کہ وہ مہمان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کر سکتے۔

اسی طرح ایک سروے کے دوران میں نے پاؤں سے گارا بناتے، کیچڑ میں لت پت ایک نوجوان کو دیکھا جو سرائیکی بول رہا تھا۔ میں مہنگائی پر سروے کر رہا تھا یوسف رضا گیلانی کے دور میں۔ میں نے اس گارے میں لت پت آدمی سے پوچھا کہ اس کا تعلق کہاں سے ہے۔ کہنے لگا ملتان سے۔ میں نے پوچھا گزارا کیسے ہوتا ہے اتنی مہنگائی میں بولا مرنا مشکل ہے اور جینا اس سے بھی مشکل۔ میں نے کہا بس یہی بات کیمرہ پر کہہ دو۔ اس نے جو کہا میں سر پیٹ کر رہ گیا۔ کہتا ہے، ” جو مجھ پر گزرتی ہے گزرے۔ اگر شکوہ کروں گا تو گیلانی صاحب کیا سوچیں گے کہ لاہور آ کر بدل گیا ہے۔ ملتان کی محبت مر گئی ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).