محکمہ زراعت کی کارستانی


ایک شخص ڈیوٹی کے لیے ایک برف پوش پہاڑ پر جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے ایک غار دیکھا۔ دل میں یہ سوچ کر وہ غار کی طرف چل پڑا کہ وہاں پر رک کر کچھ دیر کے لیے آرام کرے۔ غا ر میں پہنچ کر اُس نے دیکھا کہ ایک چھوٹا لڑکا اپنی بہن کے ساتھ بیٹھا ہے۔ اُس نے لڑکے سےپوچھا تمھارے والدین کہاں ہے؟ لڑکے نے جواب دیا، وہ اوپر پہاڑوں میں کام کرتے ہیں۔ اُس شخص نے بہن بھائی سے پوچھا وہ تھوڑا آرام کیوں نہیں کر لیتے؟ جس پر لڑکے نے جواب دیا۔ میرے والدین نے مجھے کہا ہے کہ ’ دوسروں کو اپنا کام نہیں چھوڑنا چاہیے‘۔ بچے کا جواب سن کر وہ شخص اٹھا اور اپنی کام کی طرف چل پڑا۔ اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ کسی کو اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کام میں کام نہیں رکھنا چاہیے۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے۔ کہ ہر کوئی اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کاموں میں لگا ہوا ہے۔ ہمارے ملک کے محکمہ زراعت کو ہی دیکھ لیجیے۔ ان کا کام ملک میں زراعت کی ترقی کے لیے دن رات محنت کرنا ہے تاکہ ملک زرعی لحاظ سے خود کفیل ہوجائے۔ اس کے علاوہ محکمہ زراعت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ یہ لوگوں میں زراعت کے شعبے میں ہونے والے تمام نئے ایجادات، اس کے استعمال اور مختلف بیماریوں کے بارے میں لوگوں کو اگاہ کریں۔ لیکن حال ہی میں ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ جس میں ایک عوامی نمائندہ یہ کہ رہا تھا کہ محکمہ زراعت کی طرف سے ان کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ اور ان کو دھمکیاں دی جا رہی ہے۔ کہ وہ ایک سیاسی پارٹی کی ٹکٹ واپس کر دے، ورنہ ان کے گوداموں کو جلادیا جائے گا۔ اور ان کو مارنے تک کی دھمکی دے دی گئی۔

اس طرح حال ہی میں پشاور اور بنوں میں یکے بعد دو دھماکے ہوئے۔ جس میں ہارون بلور سمیت کئی لوگ شہید ہوئے۔ اور سابق وزیر اعلی اکرام خان درانی سمیت کئی لوگ زخمی بھی ہوئے۔ جس کے بعد کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ جس طرح سابق وزیر اعلی اکرام خان درانی نے سوال اٹھایا کہ اگر ملک کے اداروں کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ پر فلاں عمر کا، فلاں رنگ کےکپڑوں میں ملبوس شخص دہشت گردی کی کارروائی کرنے والا ہے۔ تو یہ لوگ اِن کو پکڑتے کیوں نہیں۔ اور واقعہ ہو جانے کہ بعد یہ بیان دینا کہ ہمارے پاس پہلے سے اطلاعات تھیں، سب فضول اور بے کار ہیں۔

اگر دیکھا جائے موجودہ دور میں انسان نے سائنس کی بدولت آسمان کی بلندی سے لے کر زمین کی گہرائی تک رسائی حاصل کر رکھی ہے۔ اور پاکستان جیسے ملک کے لئے جس کا خفیہ ادارہ دنیا کی نمبر ون ادارہ ہے۔ جس پر فخر کرتے کرتے ہم تھکتے نہیں۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے۔ کہ تمام تر سائنسی آلات اور ایک مضبوط ادارے کے ہوتے ہوئے، ہم ان تمام حالات سے کیوں دوچار ہیں۔ اس سارے صورتحال کی ایک وجہ اپنے کام کی بجائے دوسروں کے کام میں مداخلت کرنا ہے۔ اگر ملک کے تمام ادارے چاہے وہ سیاسی ہوں، معاشی ہوں، عسکری ہوں یا تعلیمی ہوں، سب صرف اور صرف اپنے کام پر توجہ دیں اور پورے لگن اور ایمانداری کے ساتھ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کریں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں سے ایک ہوگا اور یہاں ہر طر ف امن اور خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔

اسی طرح ملک کے اس صورتحال کی دوسری وجہ نا اہل لوگوں کا ملک کی اہم عہدوں پر فائز ہونا ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین اپنی کتاب ’گورننگ دی ان گورن ایبل’ میں پاکستان کی بد حالی کا اصل وجہ یہی لکھتے ہیں۔ کہ نوے کی دھائی تک پاکستان کی ترقی کی اصل وجہ قابل لوگوں کا اعلی عہدوں پر آنا اور بعد میں پاکستان کے زوال کی یہی سبب ہے۔ کہ میرٹ کو بالائے طاق رکھ کر رشتہ داریاں اور دوستیاں نبھانا شروع ہو گیا۔ جس کی وجہ سے نا اہل لوگ اعلی عہدوں پر فائز ہوگئے اور پورا ملک بد حالی اور بدامنی کا شکار ہوگیا۔ اس لئے ہم سب پاکستانیوں کو مِن حیث القوم اپنے کام کو پوری لگن اور ایمانداری سے کرنا چاہیے تاکہ ہمارے آنے والے نسلوں کو ان مسائل کا سامنا نہ ہو جو آج ہم جھیل رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).