عمران خان پاکستان کے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں


\"shanilaامریکہ میں جاری صدارتی انتخابات کی مہم میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اپنے نفرت انگیز بیانات کی وجہ سے زبان زدعام ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت نفرت کو پھیلانےکی علامت بن چکے ہیں۔ مخالف مذہب کے لوگوں کے خلاف شرانگیز بیان دینا، غیرملکیوں کو ملک سے نکال دینے کی دھمکیاں دینا، مخالف امیدوار کی جائے پیدائش پر سوالیہ نشان لگا کر اس کو غیرامریکی ثابت کرنے پر زور دینا یہ سب ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم کا حصہ ہے۔ رنگ، نسل اور شہیریت کی بنا پر سیاست کرنا ان صاحب کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں دہشت گردی کو ہدف بناتے ہوئے اسلام پر اور مسلمانوں پر تنقید تو چلتی رہی ہے۔ بش سنیئر اور جونیئر کی پالیسی اب تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن کبھی کسی نے مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکالنے کی بات نہیں کی اور نہ میکسکیو کے لوگوں کو تعصب کا نشانہ بنایا۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ بش کی پارٹی کے ہی امیدوار ہے لیکن یہ نفرت کے پھیلاو میں اپنی پارٹی سے بھی بہت سے قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔

اب امریکی سیاست میں ڈونلڈ ٹرمپ نام ہے نفرت کا، ڈونلڈ ٹرمپ نام ہے دوسروں کا تمسخر اڑانے اور تذلیل کا، ڈونلڈ ٹرمپ نام ہے مخالفین کی کردارکشی کا، ڈونلڈ ٹرمپ نام ہے مار دینے کا، ڈونلڈ ٹرمپ نام ہے للکارنے کا، ڈونلڈٹرمپ نام ہے انتشار کا، ڈونلڈٹرمپ نام ہے بغیر کسی دلیل کے الزام کا۔ یہ تو امریکی سیاست کا حال ہے جہاں ایک سیاسی کرداراپنی ان خصوصیات کی وجہ سے ابھر کر سامنے آیا ہے یقین مانیئے اس مملکت پاکستان میں بھی ایک ڈونلڈ ٹرمپ ہے عمران خان کے نام سے۔ اس پاکستانی کردار میں بھی کم وبیش ایسی ہی خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔

مئی 2013 کی انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا رویہ بھی شرانگیز اور نفرت انگیز تھا۔ ان کی پوری انتخابی مہم صرف اپنے مخالفین کی کردار کشی کرتی رہی ان کو للکارتی رہی، دھمکیاں دیتی رہی اور اپنے ورکرز کو اکساتی رہی۔ صد افسوس کہ یہ مریضانہ مہم انتخابات کی ناکامی کے بعد بھی جاری رہی۔ انتخابات میں شکست کے بعد پاکستانی ڈونلڈ ٹرمپ اس ہار کو برداشت نہ کرسکے اور اپنی روش پر قائم رہتے ہوئے وہ نفرت انگیز رویہ برقرار رکھا اور موجودہ حکومت کے خلاف ان کی شرانگیزیاں عروج پر رہیں۔ امریکہ میں تو ہار تسلیم کر کے مخالف امیدوار ایک موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے حکومت کو راہ راست پر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کے ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کو کیا راہ راست پر رکھتے، خود راہ سے بھٹک گئے۔

\"donald-trump\"پاکستان کے ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست نے پاکستان میں نفرت اور گالی کی روایت کو پروان چڑھانے میں بہت کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ حکومت کے خلاف 126 دن کے دھرنے نے ملک میں عدم برداشت کے رویے کو بہت فروغ دیا ہے۔ جب آپ مسلسل لوگوں کو صرف اکساتے رہے گے، جب آپ اپنے خلاف کوئی بات سننے کا حوصلہ نہ رکھے گے، جب آپ لوگوں کو سول نافرمانی کی طرف دھکیلیں گے، جب آپ لوگوں کو ترغیب دیں گئے کہ ملک کے ایوانوں پر حملہ کر دو، جب آپ سرکاری املاک پر ہونے والے حملے اور اس کے نتیجےمیں توڑ پھوڑ پر خوش ہوں گے اور اس کارنامے کو فخریہ انداز سے بتائیں گئے تو معاشرے میں تعیمری رویے کیسے پروان چڑھے گئے؟ جب کنٹینر پر کھڑے ہوکر آپ لوگوں کی پتلونیں گیلی ہونے کے دعوے کر یں گئے تو نوجوان کیا سیکھے گئے۔ جب بزرگ سیاست دانوں کا مذاق بنایا جائے گا تو لوگ بزرگوں کی عزت کیسے کریں گے۔ جب ملک کے ایوان کو سربازار رسوا کریں گے تو آئیندہ جمہوریت کے نام پر ووٹ کون دے گا۔

معاشرے اور جمہوری رویے برداشت اور تحمل سے فروغ پاتے ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈٹرمپ کے رویے کے خلاف احتجاج بھی ہوا نوجوانوں نے ان کی مہم کا بائیکاٹ بھی کیا، دانشوروں نے ان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ وہ ایک تہذیب یافتہ جمہوری ملک ہے جب کہ پاکستان میں جمہوریت ابھی ارتقائی مرحلے میں ہے۔ وہاں کے لوگوں ڈونلڈ ٹرمپ کے سحر سے نکل آئیں گے لیکن پاکستان میں یہ نہیں ہو گا۔ پاکستان کے ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست نے کسی کی عزت محفوظ نہیں رکھی۔ عدم برادشت کا رویہ بالکل مفقود ہوگیا ہے۔ دلیل پر گالی حاوی ہوگئی ہے۔ الزامات لگا کر تسکین ملتی ہے۔

نفرت بہت عارضی جذبہ ہے۔ یہ اشتعال پیدا کرتا ہے۔ لوگوں کو تخریب پر آمادہ کرتا ہے، توڑپھوڑ کی طرف راغب کرتا ہے اور مایوسی کو فروغ دیتا ہے۔ عمران خان نے اسی جذبے کا سہارا لیا ہے۔ اختلاف برائے اختلاف کی سیاست کی ہے اختلاف برائے اصلاح کی نہیں۔ بد تمیزی اور بدتہذیبی کے کلچر کو پروان چڑھایا ہے۔ یہ سب وقتی جادو تھا جو رفتہ رفتہ اپنے معنی کھو رہا ہے۔ لایعنی ہو رہا ہے۔ مذاق بن رہا ہے۔ قوموں، افراد اور مسلکوں کے خلاف یہی نفرت شدت کو جنم دیتی ہے۔ عقل انسانی کو ماوف کرتی ہے۔ دہشت گردی اسی جذبے کی پیداوار ہے ۔ جنگیں اسی جذبے کے تحت لڑی جاتیں ہیں۔ قتل اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔

\"Imran-khan-angry\"ڈونلڈ ٹرمپ کا مسئلہ نفرت کا سہارا لے کر اپنی شناخت قائم کرنا ہے۔ عمران خان کا مسئلہ بھی قریبا ایسا ہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پارٹی کو نفرت کا سہارا دے کر الیکشن جیتنا چاہتا ہے اورعمران خان کے اس جذبے کے پس منظر میں بھی یہی خواہش کارفرما ہے اور وہ خواہش وزارت عظمی کے عہدے کی ہے۔ خان صاحب کو سمجھنا ہو گا کہ سیاست کھیل نہیں کہ جیسے ہی میدان میں آئے اپنی مرضی کی ٹیم سلیکٹ کی، اپنی مرضی کی فیلڈ سیٹ کی، اپنی مرضی سے بیٹنگ آرڈر بنایا اور مخالف پر اندھا دھند باونسر برسانا شروع کر دئے۔ دوسری ٹیم کے کھلاڑی کے ٹخنے توڑ دیئے۔ سیاست ریاضت مانگتی ہے۔ حوصلہ اس کے لیئے درکار ہوتا ہے۔ صبر کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ معاملات پر سوچ سمجھ کر سنبھلنا پڑتا ہے۔ بردباری سے کام لینا پڑتا ہے۔ تحمل سے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ مخالف کی بات کو سننا پڑتا ہے۔ دوسروں کو احترام دینا پڑتا ہے۔ اور بدقسمتی سے عمران خان میں یہ سب کچھ کرنے کا یارا نہیں ان کو وزیراعظم بننے کی اتنی جلدی ہے کہ وہ نفرت کا شر سارے معاشرے میں پھیلا کر اپنی اس خواہش کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی حالت ڈونلڈ ٹرمپ کی ہے۔ میرا عمران خان کو عاجزانہ مشورہ ہے کہ اگر کسی بین الاقوامی لیڈر جیسا بننا ہی ہے تو وہ لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ نہیں۔ مثال بننا ہے تو نیلسن منڈیلا کی بردباری کی مثال بنیں۔ ماو زے تنگ کی طرح اپنے عوام کے مسائل کو سمجھیں۔ جمی کارٹر کی طرح دانش سے کام لیں۔ نفرت کا پرچار کریں گے تو اتنے بڑے بڑے لیڈروں کی بجائے لوگ آپ کو ڈونلڈ ٹرمپ ہی کہیں گے۔ خود آپ تضحیک کا نشانہ بنیں گے ۔ یاد رکھیں۔ دوسرے آپ سے وہی سلوک کریں گے جو سلوک آپ ان سے روا رکھیں گے۔

نفرت کی سیاست کی ایک مثال ہم نے لندن کے میئر کے الیکشن میں بھی دیکھی ۔ زیک گولڈ سمتھ نے صادق خان کو دہشت گرد قرار دیا، اپنے ایک مضمون میں قابل نفرین گردانا۔ ان پر مذہب اور قومیت کے حوالے سے ذاتی حملے کئے۔ برطانوی عوام کو نفرت پر اکسایا۔ وہ ایک پڑھا لکھا معاشرہ ہے وہاں یہ کھیل نہ چل سکا۔ لندن کی بڑی اکثریت نے زیک گولڈ سمتھ کی نفرت کو مسترد کر کے صادق خان کو اپنا مئیر چن لیا۔ مسئلہ پاکستان جیسے ملکوں کا ہے جہاں عوام اتنے باشعور نہیں ہیں جتنے سمجھے جاتے ہیں۔ تعلیم کا فقدان ہے۔ اپنے ہاں دور رس سوچ ابھی بہت دور کی بات ہے۔ لوگ جذباتی ہیں۔ جذبات کی رو میں بکھر جاتے ہیں۔ نعرے کو ہی سچائی سمجھتے ہیں۔ یہاں نفرت کا کاروبار چل سکتا ہے۔ سستی جذباتیت بک سکتی ہے۔ امریکی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے شکست کے سوا کچھ بھی نہیں لیکن پاکستان میں ابھی ایک آدھ ڈونلڈ ٹرمپ کی بدقسمتی سے گنجائش باقی ہے۔ یہ ہم جیسے ملکوں کی بدنصیبی کے سوا کچھ بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
12 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments