کیا سب گدھے ہیں؟



ادب و شاعری سے مزین محفل اپنے عروج پر تھی ۔اسی دوران کسی منچلے نے سیدہ عارفہ فاطمہ سے سوال کیا،میڈم عمران خان نے ایک انتخابی جلسے کے دوران کہا کہ جو بھی سابق وزیر اعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو خوش آمدید کہنے ائیرپورٹ پر جائیں گے وہ گدھے ہوں گے ۔آپ اس حوالے سے کیا کہیں گی؟سیدہ عارفہ فاطمہ منچلے نوجوان کے سوال پر مسکرانے لگیں۔ ایک دم سناٹا چھاگیا ،محفل میں بیٹھے انسان یہ سوچنے لگے کہ اس گدھے اور بے وقوف نوجوان نے ادبی محفل میں یہ کیا سوال کردیا ہے؟محترمہ عارفہ فاطمہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا آپ کیا سمجھتے ہو،وہ جو نوازشریف اور مریم نواز کے لئے باہر نکلے تھے ،وہ گدھے ہیں یا انسان؟ نوجوان نے جوشیلے انداز میں کہا کہ عمران خان کہتے تو سچ ہیں کیونکہ نوازشریف کو عدالت نے مجرم قراردیا ہے ،تو ایک مجرم کے لئے جو باہر نکلے گا وہ گدھا ہی ہو گا۔ نوجوان کے اس طرح کے جواب پر محفل میں قہقہے گونجنے لگے۔

کچھ دیر کے بعد عارفہ فاطمہ صاحبہ نے جواب دیتے ہوئے کہا بیٹا آپ درست فرما رہے ہیں ،لیکن یہ بتائیں کہ نوازشریف تو لندن سے خود گرفتاری دینے کے لئے پاکستان آئے ہیں،ایسے میں شہر بے مثال کو لاک ڈاون کرنے کی کیا ضرورت تھی ،اژدھا قسم کے کنٹینرز شاہراوں پر لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ سیاسی ورکروں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو عوام پر ڈنڈہ چلانے کی کیا ضرورت تھی؟ سید طلعت حسین کے پروگرام پر پابندی لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ پچاس ہزار افراد بھی اگر نوازشریف کو خوش آمدید کہنے کے لئے ریلی نکال رہے تھے تو اس ریلی کے ساتھ بدترین سلوک کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جب سیاسی ورکرز پر اس طرح تشدد کیا جائے گا ،تو ان میں غصے پیدا ہوگا۔ نگران حکومت اور طاقتور قوتیں چاہتی تو ان گدھوں کو آزادی کا حق دے دیتی ،گدھا تو شریف جانور ہے ،اس نے پرامن ہی رہنا تھا، ریاست کو ان گدھوں کے ساتھ الجھنے کی کیا ضرورت تھی؟ تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے سیاسی لیڈر کو بیٹی سمیت جیل میں بند کردیا گیا ،میڈیا کو اس سیاسی لیڈر کی کوریج کرنے سے روک دیا گیا، لاکھوں کی تعداد میں پاکستان کے شہری یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عدلیہ ،فوج اور میڈیا سب ملکر عمران خان کی مدد کر رہے ہیں ،وہ جہاں چاہتے ہیں جلسے کرتے ہیں ،عوام کو گدھا اور بے وقوف کہتے ہیں، سیاسی رہنماوں کو مجرم اعظم کہتے ہیں۔ کیا عوام اس ساری صورتحال کو دیکھ نہیں رہے کہ حقیقت میں ہو کیا رہا ہے؟ کیا ایسا سوچنے والے سارے گدھے ہیں؟

نوجوان نے کہا نہیں میڈم اس طرح کی سوچ رکھنے والے سارے انسان کیسے گدھے ہو سکتے ہیں؟سیدہ عارفہ فاطمہ نوجوان کے اس جواب پر مسکرانے لگیں ۔محفل میں ایک دم پھر قہقہہ گونجا اور پھر اچانک خاموشی ہو گئی ۔اب ادبی محفل سیاسی بن چکی تھی ۔محفل میں بیٹھے ایک اور شخص نے سوال کیا کہ میڈیم یہ بتائیں کون حق پر ہے اور کون باطل ہے؟میڈم نے کہا بیٹا اس ملک کا یہی المیہ ہے کہ یہاں حق و باطل میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ہاں البتہ نوازشریف کے جیل میں بند ہوجانے کے بعد بہت سی نئی باتیں اس معاشرے میں ہونے لگیں ہیں۔یہاں کے عوام اب بہت سارے سوالات اٹھانے لگیں ہیں۔ان سوالات کی وجہ سے مستقبل میں پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں بہتری آئے گی ۔کہنے لگیں وہ پنجاب جو طاقتور قوتوں کے ہر جھوٹے سچے پروپگنڈے کو تسلیم کر لیتا تھا ،اب وہاں بے چینی اور غصہ ہے ۔وہ پنجاب اب غداروں اور کافروں کے خیالات کو بھی اہمیت دینے لگا ہے ۔اس لئے یہ ایک مثبت سیاسی ارتقا وہاں بھی شروع ہوگیا ہے جہاں دس سے گیارہ کروڑ افراد رہتے ہیں ۔ان دس سے گیارہ کڑور افراد کے گھروں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے ۔انہیں سمجھ آنے لگی ہے کہ حقیقت میں تو نوازشریف جیسا لیڈر بھی طاقتور نہیں تھا ،حقیقی طاقتور تو وہ ہیں جو ان کو جیل میں ڈال کر کہیں دور مسکرا رہے ہیں ۔محفل میں ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا محترمہ آپ کیسی باتیں کررہی ہیں؟ دیکھ لیجیئے گا 25 جولائی کو گدھوں کو شکست ہو گی اور عمران خان جیت جائے گا ۔میڈم بولی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ بظاہر پچیس جولائی کو طاقتوروں کی فتح ہوگی لیکن حقیقی فاتح گدھے ہی ہوں گے۔ سیدہ عارفہ فاطمہ کا جواب کچھ لوگوں کو تو سجھ آ گیا ،لیکن میرے جیسے بہت سے گدھے سیدہ صاحبہ کا منہ تکتے نظر آئے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).