ہارون بلور کو کس نے قتل کیا؟


حاجی غلام احمد بلور سینیر سیاستدان ہیں۔ سیاست کے کئی نشیب و فراز سے گزرے ہیں لیکن پائے استقلال میں کبھی لرزش نہیں آئی۔ سیاست اے این پی کے پلیٹ فارم سے شروع کی اور ہمیشہ اس جماعت سے وفاداری نبھائی۔ سیاست میں لانے والے اجمل خٹک مرحوم تھے۔ کئی لحاظ سے پاکستان کے شہروں میں سب سے اہم پشاور شہروں میں پچھلے کئی دہائیوں سے اپنا سیاسی مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ چاہے جیتیں یا ہاریں، پشاور کی سیاست ان کے بغیر ادھوری ہے، اسی لئے پاکستان کی سیاست میں ان کا نام اہمیت کا حامل ہے۔

انتہائی شریف النفس انسان ہیں۔ شخصیت میں ایک خاص مٹھاس اور ٹھہراؤ شامل ہے۔ میڈیا کے تندوتیز سوالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتے ہیں۔ مشکل حالات میں ڈٹ جاتے ہیں اور ’جس دور میں جینا مشکل ہو، اس دور میں جینا لازم ہے‘ کی عملی تصویر ہیں۔ ہمیشہ بائیں بازو کی سیاست کی ہے لیکن مذہب سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں۔ قید و بند کی صعوبتوں کا ہمیشہ مردانہ وار سامنا کیا ہے۔ زیادہ تر زندگی اپوزیشن میں گزاری اور نیک نام رہے، ریلوے کی وزارت ملی تو کرپشن اور بدنامی کے چھینٹوں سے دامن نہ بچا سکے۔

انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کو اس وقت پشاور میں ہرایا جب محترمہ کی شہرت عروج پر تھی۔ پچھلے انتخابات میں تحریک انصاف کی سونامی کے سامنے نہ ٹھر سکے اور اپنی سیٹ بہت بڑے مارجن سے ہار بیٹھے لیکن جلد ہی ضمنی انتخابات میں شاندار واپسی کی اور تحریک انصاف کے امیدوار کو ہرا کر ایک دفعہ پھر اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

ان کا خاندان سرفروشی کی علامت بن چکا ہے۔ ان کے بیٹے شبیر احمد بلور آج سے اکیس برس قبل الیکشن مہم کے دوران ہونے والے کراس فائرنگ میں جان سے گئے۔ حاجی غلام احمد بلور کے چھوٹے بھائی بشیر احمد بلور پختونخوا کے سینئر منسٹر تھے۔ کئی ایک خونی حملوں کے باوجود کبھی اپنے ساتھ محافظ لئے نہیں پھرے۔ بالآخر بائیس دسمبر دو ہزار بارہ کو پانچویں خود کش حملے میں جان سے گئے۔ بشیر بلور نے اس وقت جھکنے سے انکار کردیا تھا جب ہمارے بیشتر سیاسی لیڈر دہشت گردوں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے چھپتے پھرتے تھے۔

بشیر بلور بھی عجیب شخصیت تھے، کھرے اور بیباک سیاست کے علمبردار۔ کبھی اپنی نشست نہیں ہارے۔ روایت ہے کہ جب بشیر بلور کی لاش گھر پہنچی تو ان کی شریکِ حیات نے یہ کہتے ہوئے ان کی لاش کے سامنے جانے سے انکار کر دیا کہ پہلے انہیں بتایا جائے کہ موت کا سامنا کرتے ہوئے ان کے قدم ڈگمگائے تو نہیں تھے کیونکہ مرحوم نے اُن کو وصیت کی تھی کہ اگر گولی بھاگتے ہوئے پیچھے سے لگی تو ان کا مرا منہ نہیں دیکھنا اور اب بشیر بلور کے صاحبزادے ہارون بلور بھی اسی راستے کے مسافر ہوئے جس پر چل کر ان کے والد نے جان دی تھی۔

یہ سارا پس منظر بیان کرنے کا مقصد فقط آپ کی توجہ حاجی غلام احمد بلور کے ایک بیان کی طرف مبذول کرانا مقصود ہے۔ حاجی صاحب نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہارون بلور طالبان نہیں بلکہ اپنے لوگوں کے ہاتھوں جان سے گئے ہیں۔ طالبان کی ذمہ داری قبول کرنے کے بیان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہوں نے دعوی کیا کہ ان کے پاس شواہد اور ثبوت موجود ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ ہارون بلور کی موت سے کن لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے؟

اللہ کرے کہ حاجی صاحب کے خدشات غلط ثابت ہوں کیونکہ وہ جو فرما رہے ہیں اس کے تصور سے بھی خوف آتا ہے۔ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے آخری حد تک جانا ہمارے لئے نیا نہیں لیکن اگر بات ایک دوسرے کو گرانے کے لئے اس حد تک پہنچ چکی ہے تو یہ واقعی لمحۂ فکریہ ہے۔ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن ہمارے سینوں میں دل بھی ہیں اور ہم سانس بھی لیتے ہیں، خواب بھی دیکھتے ہیں، اس لئے حاجی صاحب کے بیان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ حاجی غلام احمد بلور کو اس عمر میں کیا پڑی ہے کہ بے بنیاد الزامات لگائیں؟

اب تو سرعام یہ باتیں ہورہی ہیں کہ کچھ پوشیدہ عناصر نے ایک جماعت کے علاوہ باقی ساری جماعتوں کو نشانے پر رکھا ہے۔ حاجی صاحب کے بیان کو نظر انداز کرنا ایک سنگین غلطی ہوگی جس کے خمیازہ ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کو بھگتنا ہوگا۔ اگر اس ملک میں ادارے موجود ہیں اور وہ اپنے فرائض ادا کرنے میں مخلص ہیں تو اس معاملے کی تحقیقات شروع کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے، حقائق جو بھی ہیں سب کے سامنے آنے چاہئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).