بھٹو کی ”اگر مجھے قتل کیا گیا“ سے نواز شریف کی ”اگر مجھے بدل دیا گیا“ تک


جمہوریت کی خاطر اپنی جان قربان کر دینے والے قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب اگر مجھے قتل کیا گیا زنداں نامہ سے زیادہ جمہوریت پرستوں کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے جس میں جیل حکام کے رویے سے لے کر اپنی سیاسی میراث کی تقسیم کا ذکر ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں سیاسی و سماجی رہنماؤں کا قید و بند کی صعوبتیں بردداشت کوئی آج کا قصہ نہیں، سیف الدین کچلو سے لے کر علی برادران اور شورش کاشمیری سے لے کر فیض احمد فیض تک اس رہگزر سے آشنا رہے ہیں۔ کسی نے جیل میں نغمے بکھیرے تو کوئی سیاسی ماحول بناتا نظر آیا۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کا وطن واپسی کا فیصلہ شاید ان کے سیاسی مستقبل کا تعین کرنے کے لئے فیصلہ کن ثابت ہو، ایسے میں نواز شریف اپنی سیاسی وراثت منتقل کرنے کے لئے اگر مجھے بدل دیا گیا کے عنوان سے کچھ اس طرح کی گزارشات کر سکتے ہیں :

بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کو جمہور کے ذریعے ہی دبانے کا جو سلسلہ روز اول سے شروع ہوا تھا، آج بھی آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔ مجھ پر میرے ماضی کے حوالے سے اعتراضات کی بھرمار کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر مجھے اب ہی ووٹ اور ووٹر کی عزت کیوں یاد آرہی ہے، میں اس کتاب کے توسط سے ان تمام لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ سیاسی بلوغت اور دانشمندی اسی چڑیا کا نام ہے، جس کے پر گننے کا دعوی آج ہر طفل مکتب کرتا نظر آتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا کہ میں نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔ آج مجھے ہر شخص آمر کے ساتھ ڈیل کر کے فرار ہونا بھی یاد دلاتا ہے تو ان تمام لوگوں کو میرا یہ ہی پیغام ہے کہ جمہوریت کے وسیع تر مفاد اور عوام کی دیرینہ روایت کے پیش نظر اس وقت اس فیصلے کی گنجائش موجود تھی لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آج عوام نے میرا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تو مجھے کسی ڈیل کی ضرورت نہیں۔

حسن اور حسین تو میری سیاسی وراثت میں کسی حصے کے کبھی طلبگار نہیں رہے لیکن حمزہ نے اپنے والد کے ساتھ مل کر کارکنان کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مریم اور حمزہ مل کر پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور مریم نے میرے ساتھ جیل سمیت ہر مشکل کا مقابلہ کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ رضیہ سلطانہ کا دوبارہ ظہور اس بار پنجاب کی سرزمین سے ہوا ہے۔

آج 1985 اور آئی جے آئی کا قیام تو سب کو یاد آرہا ہے مگر 1970 کے انتخابات کسی کو یاد نہیں۔ میں پوچھتا ہوں آخر کیا جرم تھا بنگالیوں کا؟ کیوں انھیں بے داغ سبزہ نہیں دیکھنے دیا گیا؟ تمام طالع آزما قوتوں کو میرا یہ مشورہ ہے کہ ووٹ سمیت ہر غالب رجحان کی حرکیات کو سمجھیں۔ میرا ووٹر اب روایتی نہیں رہا، اب اس کے پاس اسمارٹ فون کی شکل میں دنیا بھر کی معلومات موجود ہیں اور اسے پتہ ہے کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں عوام کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہو۔ اگر بنانا ری پبلک کا نام لینا اتنا ہی ناگوار گزرتا ہے تو باز آجائیں ایسے افعال سے جو حالات کو مزید مشکل بنا رہے ہیں۔

ہر سیاسی لیڈر جیل میں آکر مطالعے کی عادت ضرور اپناتا ہے اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ مریم کا سیاسی و ادبی مطالعہ میرے بہت کام آرہا ہے۔ مریم نے مجھے دوستوفسکی کا ناول (مردہ گھر) جو دوران قید ہی لکھا گیا، عنایت کیا ہے جس کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ پسے ہوئے طبقات کی بات کرنا زورآوروں کے معاشرے میں ہمیشہ سے ہی قابل اعتراض رہا ہے۔ ابھی میرے سرہانے ہمہ یاراں دوزخ بھی موجود ہے جس کا مطالعہ مریم کے بقول مجھے ضرور کرنا چاہیے کیونکہ یار لوگوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ میں نے بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف کبھی کچھ نہیں کہا تو شاید یہ کتاب میرے جذبہ ایمانی کو بیدار کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ میرے مطالعاتی سفر کا احوال پھر کبھی سہی، لیکن قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ کرنا اس وقت ہم سب کے لئے بہت ضروری ہے تا کہ ہم اپنا مقام خود متعین کر سکیں۔

مجھے امید ہے کہ آپ تمام لوگ تھوڑے کو بہت جانتے ہوئے 25 جولائی ایک چھٹی کے دن کے طور پر منانے کے بجائے سول بالادستی کے تقدس کے طور پر منانے کو ترجیح دیں گے اور جی ٹی روڈ پر بخشی گئی عزت کی لاج رکھیں گے۔

آپ ہمیں پیچھے نہ پائیں گے اور واقعی 99 میں پیچھے کسی کو نہ پاکر میں نے ہمالیہ سے رونے کی امید رکھنے کے بجائے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے مشکل راستے کا انتخاب کیا لیکن اس بار میرا جینا مرنا عوام کے ساتھ ہوگا۔

نواز شریف بِلا قلمِ خود


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).