الیکشن کے متعلق سہیل وڑائچ کے چند تجزیے


مختلف نیوز چینلز پر سیاسی مبصرین اور انتخابی سیاست کے ماہرین پچیس جولائی دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے حوالے سے پیشن گوئیاں کرتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کے معروف صحافی اور انتخابی سیاست کے ماہر سہیل وڑائچ کا ایک نجی ٹی وی پروگرام میں کہنا تھا کہ پاکستان میں الیکشن میں صرف چند روز رہ گئے ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے دہشت گردی کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے، ان کا کہنا تھا مستونگ واقعے میں سیاسی فیکٹر بظاہر تو نظر نہیں آرہا ہے، لیکن اس واقعے سے سینکڑوں افراد مارے گئے۔ ایسے لگتا ہے کہ مستونگ میں سرحد پار سے حملہ آور نازل ہوا ہوگا۔ سہیل وڑائچ کے مطابق ایک طرف اگر الیکشن سے پہلے دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں تو دورسری طرف الیکشن سے پہلے سیاسی مداخلت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔

سہیل وڑائچ صاحب سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ان کے مطابق پچیس جولائی کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ پورے پاکستان میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کو مواقع نہیں دیے جارہے، لیکن اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی پر نوازشوں کی بھرمار ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ ن کے لیڈر نوازشریف اور ان کی بیٹی جیل میں ہیں۔ ان کا ٹرائل کیا جارہا ہے۔ شہباز شریف ائیر پورٹ پر اپنے بھائی کے ریسیپشن تک نہیں جاسکے۔ اس سے عوام کو یہ واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو اب وہ سہولتیں حاصل نہیں ہیں جو ایک زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ ان کا کہنا تھا مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ پی پی پی بھی دباؤ میں نظر آرہی ہے۔ اس لئے سارے سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو واضح نظر آرہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کی ہوا بنائی جارہی ہے۔ الیکٹیبلز کو بھی ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر پی ٹی آئی کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اب تک کی سیاسی صورتحال یہی ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو سنٹرل اسٹیج سے ہٹا کر کارنر کردیا گیا ہے۔

ان کے مطابق بظاہر پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت بننے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اس وقت پی ٹی آئی کو ریاستی حمایت حاصل ہے۔ طاقتور قوتوں کا ہمیشہ کوئی نہ کوئی لاڈلا ہوتا ہے، ماضی میں بھی لاڈلے رہے ہیں، اس الیکشن میں بھی ایک لاڈلا ہے۔ لاڈلہ تو پھر لاڈلا ہی ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیاست میں لاڈلہ پن ختم ہونا چاہیے۔ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ کس سیاستدان کو لاڈلا بناتے ہیں۔ نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ نوازشریف اور آصف علی زرداری اپنی مرضی سے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اب عمران خان استعمال ہورہے ہیں۔ عمران بھی اگر الیکشن جیتنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی توقعات پر پورا نہ اترے تو انہیں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کچھ سیاسی مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کیونکہ ماضی میں بھارت سے تعلقات، فارن پالیسی اور طالبان پالیسی کے حوالے عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں، ا سلئے خدشہ ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی بہت جلد اختلافات پیدا ہوجائیں گے۔ معروف سیاسی تجزیہ کار رضا رومی کے مطابق الیکشن دو ہزار اٹھارہ پر بہت سے سوالات ابھر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ سوالات حقیقت پر مبنی ہیں اور کچھ سوالات افسانوی ہیں۔ ایسی فضا بنا دی گئی ہے جس سے لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے الیکشن جیتنے کے چانسز بہت کم ہو گئے ہیں۔ الیکشن میں شفافیت کا عنصر ختم ہورہا ہے۔ ایک طرف میڈیا پر دباؤ بھی بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف میڈیا سیلف سنسر شپ کا شکار ہے۔

شفاف الیکشن آزاد میڈیا کے بغیر ممکن نہیں، لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے اس وقت میڈیا آزاد نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مختلف نیوز چینلزکے سینئیر اینکر پرسنز یہ شکوہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ ان کے شوز نہیں چلائے جارہے، اس حوالے سے میڈیا کو خود سوچنا ہوگا اور اپنے اوپر سے سیلف سنسر شپ ختم کرنی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایکشن کمپین کے دوران شفافیت کا ماحول پیدا نہیں ہوگا تو الیکشن کے بعد انتشار کی سی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ رضا رومی کے مطابق میڈیا پر جوپابندیاں لگائی جارہی ہیں، وہ پابندیاں زیادہ عرصہ چل نہیں سکتی کیونکہ اب نیو میڈیا کا زمانہ ہے، سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ رضا رومی کا کہنا ہے کہ یہ دوہرا معیار ہے کہ ایک طرف کالعدم تنظیموں کو فورت شیڈول سے ہٹا کر الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی ہے اور وہ تنظیمیں آزادی سے الیکشن کمپین کررہی ہیں۔ لیکن خالص سیاسی جماعتوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔

سہیل وڑائچ کے مطابق شہباز شریف کا مسئلہ یہ کہ وہ مخمصے کا شکار ہیں۔ ایک طرف وہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی دوستی کی فضا چاہتے ہیں اور دوسری طرف وہ بھائی کا ساتھ بھی دینا چاہتے ہیں۔ جس طرح وہ نوازشریف کے استقبال کے لئے ائیر پورٹ نہیں جاسکے، اس سے تو یہی نظر آیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ یا انتظامیہ کے ساتھ خفیہ ڈیل کر چکے تھے۔ سہیل وڑائچ کے مطابق شہباز شریف اگر اس دن ائیر پورٹ پر پہنچ جاتے اور مزاحمتی سیاست کا آغاز کردیتے تو اس سے مسلم لیگ ن کو بہت فائدہ ہوجانا تھا۔ شہباز شریف کو انتخابی سیاست کی بجائے مزاحمتی سیاست کرنی چاہیے۔

بنیادی طور پر نوازشریف اور ان کی بیٹی مزاحمتی سیاست کے رستے پر ہیں اور شہباز شریف کسی اور راستے پر، اسی وجہ سے مسلم لیگ ن کا ووٹر پریشان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوازاور مریم کے جیل جانے سے ہمدردی کا عنصر ایک دم پیدا نہیں ہوگا۔ ہمدردی پیدا ہونے میں وقت لگے گا۔ پاکستان میں لوگ اس سیاسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں جس کا اقتدار میں آنے کا امکان ہوتا ہے۔ شہباز شریف کا مزاحمتی سیاست کا راستہ اختیار نہ کرنے کا فائدہ تحریک انصاف کو ہورہا ہے۔ شہباز شریف نے مزاحمتی سیاست کی بجائے انتخابی سیاست کا مشکل راستہ چنا ہے۔

سہیل وڑائچ کے مطابق پہلے انہیں یہ لگتا تھا کہ کمزور حکومت بنے گی اور پی ٹی آئی سو کا ہندسہ کراس نہیں کر پائے گی، لیکن اب انہیں یہ واضح نظر آرہا ہے کہ پی ٹی آئی سو سے زائد سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ سہیل وڑائچ کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ ن اکثریت تو حاصل کر لے گی لیکن حکومت پی ٹی آئی کی بنے گی جس میں منحرف گروپ اہم کردار ادا کرے گا۔ ان کے مطابق انہیں نہیں لگتا کہ وفاق میں مخلوط حکومت بنے گی۔ وفاق میں پی ٹی آئی کی ہی حکومت ہوگی۔ سہیل وڑائچ کے مطابق اس وقت بیس فیصد ووٹرز باونڈری پر بیٹھے ہیں جو آخری وقت میں مزاحمتی پارٹی کا ساتھ نہیں دیں گے بلکہ ان کو ووٹ دیں گے جن کے بارے میں یہ ہوا بن چکی ہوگی کہ حکومت ان کی ہی ہوگی۔

سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی۔ کیونکہ الیکشن کے بعد دوسری سیاسی پارٹیاں آرام سے نہیں بیٹھیں گی۔ عوام کی توقعات عمران نے پوری نہ کی تو اس سے مایوسی بڑھے گی۔ جادو کی چھڑی تو عمران کے پاس نہیں کہ وہ پاکستان کو جنت بنادیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن نوجوانوں کا الیکشن ہے جس میں 9 کڑور سے زائد نوجوان ووٹ ڈالیں گے۔ نوجوان جس قدر جوشیلا ہوتا ہے وہ جلدی سے مایوس بھی ہوجاتا ہے۔ سہیل وڑائچ کے مطابق پاکستان کے ہر حلقے میں تحریک لبیک کا ووٹ ہے۔ یہ مذہبی جماعت شاید ایک سیٹ بھی حاصل نہیں کرسکے گی۔ لیکن یہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں کے ووٹ کو متاثر کرے گی اور بطور ایک پریشر گروپ مظبوط ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).