نوازشریف کے ساتھ اسلام آباد ایئرپورٹ پر تذلیل آمیز سلوک اور سخت برتاﺅ کیا گیا


اطلاعات کے مطابق 13 جولائی کی رات جب نواز شریف اور ان کی صاحبزادی لاہور سے اسلا م آباد ایئرپورٹ پہنچے تو نواز شریف کے ساتھ بہت برا سلوک اور سخت برتاﺅ کیا گیا۔ سابق وزیر اعظم کو ذاتی معالج اور دوائیاں بھی ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

روزنامہ جنگ کے مطابق، اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ان کی آمد کے بعد تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی ان کی بیٹی کے سامنے تذلیل کی گئی اور ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا۔ اخباری ذرائع کے مطابق نواز شریف اور ان کی بیٹی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ جیسے ہی نواز شریف اور ان کی بیٹی خصوصی چارٹرڈ طیارے سے باہر آئے انہیں بلند آواز میں احکامات دیئے گئے کہ ”وہیں رک جاﺅ‘ہلنا مت“۔ دونوں باپ بیٹی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ متعدد کیمروں کی لائٹیں ان پر پڑ رہی تھیں۔ مریم نواز نے سوال کیا کہ میڈیا یہاں کیسے آیا؟ بعد میں انہیں علم ہوا کہ جو لوگ متعدد رخ سے ان کی تصاویر بنا رہے تھے وہ کسی میڈیا کےنمائندے نہیں تھے۔

وہاں دو علیحدہ علیحدہ ایس یو وی ان کا انتظار کر رہی تھیں۔ نواز شریف نے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مریم کو ان کے ساتھ  ایک ہی کار میں بٹھایا جائے۔ تاہم ان کی یہ درخواست سختی سے مسترد کردی گئی اور انہیں بتایا گیا کہ یہ صرف لاجسٹک انتظامات ہیں، آپ دونوں کو ایک ہی جگہ لے کر جائیں گے۔ نیب حکام جو کاریں لائے تھے انہیں ایس یو ویز سے آخری لمحات میں تبدیل کردیا گیا۔ تاہم نواز شریف کے لیے سب سے پریشان کن لمحہ وہ تھا جب انہیں اس بات کا علم ہوا کہ چیف کمشنر اسلام آباد نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جس کے مطابق مریم نواز کو سہالہ ریسٹ ہاﺅس لے کر جائیں گے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ مریم نوا زکو ان کے ساتھ ہی اڈیالہ جیل کر جائیں، تاہم حکام اس بات پر بضد تھے کہ مریم نواز کو سہالہ ریسٹ ہاﺅس ہی لے کر جائیں گے۔ تاہم جب یہ مسئلہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیا تو اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا۔

یہ بدسلوکی یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔ نواز شریف سے ایس یو وی کے درمیان بیٹھنے کا کہا گیا۔ انہیں دو صحت مند آدمیوں کے درمیان سینڈوچ بنا دیا گیا اور بتایا گیا کہ ایسا سیکوریٹی وجوہات کے سبب ضروری ہے۔ ایک 68 برس کے شخص کے ساتھ اڈیالہ جیل تک 50 کلومیٹر کے فاصلے کے لیے یہ بہت مشکل تھا۔ جیل جاتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے ان سے کہا کہ انہیں ان کی بیٹی سے ایک مرتبہ ملادیا جائے۔ انہیں یقین تھا کہ ان کی درخواست قبول کرلی جائے گی۔ انہوں نے یہی درخواست بعد میں دو مرتبہ پھر کی۔ بالآخر انہوں نے ایک عہدیدار سے وعدہ لیا کہ وہ ان کی ملاقات مریم نواز سے کرائیں گے۔ یہ وعدہ جلد ہی وفا ہوگیا جب عہدیدار دونوں کو میڈیکل چیک اپ کے لیے لے کر گئے۔

اخبار کے مطابق، اس علیحدگی پر مریم نواز بھی پریشان ہوگئی تھیں ، تاہم جیسے ہی انہوں نے نواز شریف کو دیکھا ان کی مسکراہٹ لوٹ آئی۔ باپ بیٹی کا مضبوط رشتہ سب کو نظر آرہا تھا۔ جب کہ سابق وزیر اعظم کے مشیر خاص عرفان صدیقی نے یو اے ای حکام کے لندن کے بعد پہلے اسٹاپ پر ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا سے متعلق بتایا۔ ان کے مطابق، وہ جیسے ہی لندن کے بعد پہلے سٹاپ پہنچے سابق وزیر اعظم نوا زشریف اور ان کی بیٹی مریم نوا ز کو وی آئی پی پروٹوکول افسران نے اپنے حصار میں لے لیا اور انہیں ایئرپورٹ کے وی آئی پی لاﺅنج میں لے آئے۔عرفان صدیقی نے بتایا کہ ہماری اچھی طرح سے نگرانی کی جا رہی تھی۔ وہاں درجنوں قومی اور بین الاقوامی میڈیا نمائندگان موجود تھے جو نواز شریف سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن کسی کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہاں تک کے نواز شریف کو بھی یہ غیر معمولی نگرانی محسوس ہوئی اور انہوں نے پروٹوکول چیف سے اس بارے میں دریافت کیا۔ تاہم پروٹوکول افسر نے ان سے کہا یہ انہیں اوپر سے احکامات آئے ہیں۔ ہمارے پاسپورٹس اور بورڈنگ پاسز لندن سے پہلے سٹاپ کے پروٹوکول اسٹاف نے اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔ سابق مشیر خاص کے مطابق، نواز شریف کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ ایئرپورٹ کے باہر اپنے حامیوں سے گفتگو کریں گےاور اپنی ماں کو سلام کریں گے، جس کے بعد صبح سویرے وہ اپنے آپ کو نیب لاہور کے حوالے کردیں گے۔ تاہم جہاز کے باہر آتے ہی منظر بالکل مختلف تھا۔جہاز کو رینجرز، اے ایس ایف اور ایلیٹ فورس کے جوانوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔

عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ تقریباً 15 منٹ بعد کچھ مرد اور خواتین یونیفارم پہنے جہاز میں داخل ہوئے۔ نواز شریف نے انہیں بتایا کہ وہ گرفتاری دینے ہی یہاں آئے ہیں ، تو پھر ملک کو میدان جنگ کیوں بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے اپنے ذاتی ملازم عابد اللہ اور ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کو ہدایات دیں کہ وہ ان کے ساتھ رہیں تاہم انہیں اجازت نہیں دی گئی۔عرفان صدیقی کے مطابق، نواز شریف نے بھی اپنے ذاتی معالج کو ساتھ رکھنے کی اجازت مانگی مگر پھر بھی انہیں اجازت نہیں دی گئی۔ یہاں تک کے انہیں اپنی دوائیاں تک ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔اگلے روز حسین نواز نے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر شکایت کی کہ ان کے والد کو گدّا بھی نہیں دیا گیا اور ان کا واش روم اتنا گندا تھا کہ وہ پوری رات سو بھی نہیں سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).