لولی لنگڑی جمہوریت کس پل پر بنتی اور ٹوٹتی ہے ؟


بے نظیر بھٹو ایک بار پھر بیرون ملک تشریف لے گئیں اور بین الاقوامی یقین دہانیوں کے بعد وطن واپس تشریف لے آئیں اور این۔ آر۔ او کے خاتمے کا علان کیا۔ اس دوران جنرل پرویز مشرف عدالت عظمی کی اجازت اور پیپلز پارٹی کے غیر اعلانیہ تعاون کے باعث وردی میں قومی اسمبلی سے صدر منتخب ہوچکے تھے۔ الیکشن کمیشن جنرل پرویز مشرف کی صدارت کے نوٹیفیکیشن کے اجراء میں تاخیر کررہا تھا، اس لیے تین نومبر کو جنرل پرویز مشرف نے وطن عزیز میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ سیاسی جماعتیں اور ذرائع ابلاغ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف صف آراء ہوچکے تھے اور جنرل پرویز مشرف کی حکومت مشکلات کا شکار تھی۔ لیکن ایک دفعہ پھر بے نظیر بھٹو پر انتخابی جلسے کے اختتام پر قاتلانہ حملہ ہوا، اس دفعہ بے نظیر بھٹوپر حملہ کامیاب ہوا اور دشمن ان کی جان لینے میں کامیاب ہوگئے۔

سوگ کی فضامیں فرو ری 2008 ء میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی میں سبقت حاصل کی اور میثاق جمہوریت کے تحت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے وفاق اور پنجاب میں مخلوط حکومتیں قائم کیں۔ مخلوط حکومت حلیف جماعتوں میں اختلافات کے باعث زیادہ عرصے نہ چل سکی کیونکہ میاں نوز شریف، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سابقہ عہدے پر بحالی کے خواہاں تھے، جب کہ صدر مملکت آصف علی زرداری میاں صاحب کی اس خواہش کی پروا نہیں کررہے تھے۔ لہذا، ایک دفعہ پھر جنرل ایوب خان کے بنائے پل پر فیصلہ ہوا، کہ چیف جسٹس کی بحالی کے لے لانگ مارچ کیا جائے۔ میاں صاحب نے لانگ مارچ کی قیادت کی اور طے شدہ منصوبے کے مطابق آرمی چیف کی یقین دہانی کے بعد افتخار محمد چوہدری اپنے عہدے پر فائز ہوگئے۔

میاں صاحب، اس وقت کیونکہ نظریاتی نہیں ہوئے تھے، اس لیے منتخب حکومت کے خلاف کالا کوٹ پہن کر عدالت عظمی جا پہنچے اور میمو گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات میں تعاون کرنے لگے۔ عدالت عظمی نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر سوئس حکومت کو رقم کی واپسی کے لیے خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا اور عدالت طلب کیا تو، میاں صاحب نے منتخب وزیراعظم کو استعفی دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ لیکن پانامہ کیس میں جب خود عدالت میں پیش ہوئے تو، استعفی دینے سے چوک گئے اور نا اہلی کا سامنا کرنے پر مجبور ہوئے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے تو جیسے تیسے اپنی حکومتی مدت پوری کرلی۔ لیکن میاں صاحب سیاسی و مفاہمتی پل پر پورے پانچ سال ڈٹے رہے، کہ کسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت مدت پوری نہ کرپائے۔ 2013 ء کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو بھی سیاسی و مفاہمتی پل پر بلالیا گیا، یوں پل کی رونق میں مزید اضافہ ہوا۔ عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن ) کامیاب ہوئی کیونکہ میاں صاحب کامیابی کے ساتھ سیاسی و مفاہمتی پل پر پورے پانچ سال موجود رہے۔

حسب معمول دھاندلی کا شور اٹھا اور عمران خان نے اپنے سیاسی کزن کے ساتھ میاں صاحب کی حکومت کے خلاف دھرنا دے دیا۔ دھرنا جب طول پکڑنے لگا تو، منتخب وزیراعظم نے آرمی چیف راحیل شریف سے درخواست کی، کہ وہ اپنے اثر و رسوخ سے دھرنے کے خاتمے میں مدد دیں، لیکن پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے احتجاج کرنے پر مکر گئے، کہ میں نے ایسی کوئی درخواست آرمی چیف سے کی ہے۔ بہرحال عمران خان کی اس وقت کی خوشی دیدنی تھی، جب وہ سیاسی و مفاہمتی پل پر آرمی چیف راحیل شریف سے ملاقات کے لیے روانہ ہورہے تھے۔

دھرنا تو خیر سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ختم کر دیا گیا اور دھرنے کے خاتمے کے بعد دھاندلی کی تحقیقات ایک اعلی عدالتی کمیشن نے کی، لیکن منظم دھاندلی کے ثبوت نہ ملے۔ مسلم لیگ (ن ) کی حکومت نے سکون کا سانس لیا ہی تھا، کہ میاں صاحب نے حسب عادت پھر سے بے قابو بیل سے سینگھ لڑا لیے، اپنے وزیروں اور مشیروں کی قربانی دینے کے بعد ڈان لیکس سے تو جان چھڑالی لیکن اب پانامہ لیکس ان کا منتظر تھا۔

اس دفعہ بھی میاں صاحب نے پانامہ لیکس کا مسئلہ پارلیمان میں حل کرنے کی بجائے، عدالت میں حل کرنے کی ٹھانی اور تیسری دفعہ وزیراعظم کی حیثیت مدت پوری نہ کرنے کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔ میاں صاحب کے نا اہل ہونے کے بعد اور متوقع عام انتخابات جو 25 جولائی کو منعقد ہونے ہیں، ( محکمہ زراعت کے وہ لو ٹے جو پیپلز پارٹی نے (ق) لیگ سے مستعار لیے تھے اور جو محکمہ زراعت نے 2013 ء کے عام انتخابات سے مسلم لیگ (ن ) کو منتقل کردیے تھے، اب تحریک انصاف کی زینت بن چکے ہیں۔ )

تو عزیز ہم وطنو، یہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی لولی لنگڑی کی جمہوریتوں کی مختصر داستان ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین جب تک جنرل ایوب خان کے بنائے گئے سیاسی و مفاہمتی پل پر اقتدار کی خاطر مقتدر حلقوں سے مفاہمت کرتے رہیں گے، اور ایک دوسرے کی حکومت گرانے کے بعد مٹھائیاں تقسیم کرتے رہیں گے تو، عزیز ہم وطنو، تمہارا مقدر ایسی ہی لولی اور لنگڑی جمہوریتیں ہیں۔ متوقع عام انتخابات کی زیادہ خوشیاں منانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ بظاہر یہی نظر آرہاہے، کہ نئے چہرے کے ساتھ ایک اور لولی لنگڑی جمہوریت تمہارے سر منڈھی جارہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین سے یہی درخواست ہے، کہ جمہوریت کے لیے کامل قربانی دیں۔ جب تک بکرے کی ایک ران سیاسی و مفاہمتی پل پر ٹنگی رہے گی، جمہوریت کا خواب پورا ہونا ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2