ہمارے خاندانی نظام کی حقیقت


“آپ کے یہاں خاندان کا ادارہ اس لئے مضبوط ہے کیونکہ آپ کے ریاستی ادارے کمزور ہیں”

یہ جملہ تین سال پہلے بین الاقوامی امور کے ماہر امریکی پروفیسر سٹیفن پی کوہن نے ایک مباحثے میں ادا کیا اور میں آج تک اس جملے کی گہرائی میں الجھا ہوا ہوں۔

دو ہزار پندرہ میں ابھرتے ہوئے پاکستانی صحافیوں کا ایک مختصر سا وفد امریکہ کے دورے پر تھا اور پاکستانی سماج ،تاریخ اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے امریکی سکالرز کے ساتھ ان کی ایک نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مذاکرے میں پاک امریکہ تعلقات پر گفتگو جاری تھی کہ ہمارے ایک ساتھی صحافی نے موضوع سے قطع نظر “تقدیس مشرق کی نثا خوانی” کا قدیم فریضہ سرانجام دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اچانک پاکستان کی “مضبوط” اور امریکہ کی کھوکھلی خاندانی اقدار کا تقابلی جائزہ پیش کر ڈالا۔

پروفیسر سٹیفن نے امریکی معاشرے میں خاندان کے ادارے کو درپیش چیلنجز پر تو کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم انہوں نے انتہائی اختصار کے ساتھ پاکستانی معاشرے میں “مضبوط خاندانی نظام” کی حقیقت پر یہ چشم کشا تجزیہ کر ڈالا۔۔

آئیے امریکی دانشور کی اس رائے کا جائزہ لیتے ہیں۔

کوئی بھی ریاست اپنے قوانین کی پاسداری کے بدلے میں شہریوں سے جن حقوق کی ادائیگی کا معاہدہ کرتی ہے ان میں جان و مال کے تحفظ سمیت انصاف ، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی سرفہرست ہے۔ وطن عزیز میں ان بنیادی حقوق کی فراہمی کی صورتحال کیا ہے اس کا جواب ہم سب جانتے ہیں۔ ہمارے ادارے ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں زیادہ تر ناکام ہی رہتے ہیں۔ تو پھر عام آدمی کس کی مدد سے روز مرہ زندگی کے ان چیلنجز کا سامنا کرتا ہے۔

جی ہاں ۔ یہاں سے کردار شروع ہوتا ہے ہمارے “مضبوط” خاندانی نظام کا۔

کسی فرد کو جان یا مال کے نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ پولیس کی بجائے اپنے عزیز واقارب سے مدد لینے کو ترجیح دیتا ہے۔ پولیس کے پاس جانے کی صورت میں یہ اندیشے اور بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

کسی کے قانونی حقوق سلب ہورہے ہوں تو چارہ جوئی یا مصالحتمیںعدالتوں کی بجائے قریبی دوست یا عزیز رشتہ دار معاون ثابت ہوتے ہیں۔

آپ بیمار پڑ جائیں تو علاج میں مدد اور تیار داری کے لیے آپ کو رشتہ داروں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ سرکاری سطح پر علاج معالجے کا ایسا کوئی فعال نظام موجود نہیں جو آپ کی صحت سے متعلق معاملات کی مکمل ذمہ داری اٹھا سکے۔

روزگار کے مسائل آ جائیں تو مدد کے لیے انہی رشتوں کو تعلق کا واسطہ دینا پڑتا ہے کہ ریاستی معیشت میں اتنی جان ہی نہیں کہ وہ آپکو پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا کر سکے۔حتی کہ تعلیم اور صلاحیت ہونے کے باوجود نوکری کے لیے کسی جاننے والے کی سفارش نہ ہو تو کام نہیں بنتا۔یوں ہمارے یہاں ریاست کی نااہلی افراد کو باہم جوڑ کر رکھتی ہے۔

تو پھر بتائیے کہ کیایہ بات درست نہیں کہ ہمارا خاندانی نظام اب باہمی محبت، رواداری اور اخوت جیسے آفاقی احساسات کی بجائے خدشات اورمجبوریوں کی بنیاد پر قائم ہے۔ کیا ہم زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے خوف سے ان بندھنوں میں نہیں بندھے رہتے جنھیں ہم فخر سے ایک مضبوط خاندانی نظام کا نام دیتے ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مغرب کی مادی ترقی کے جواب میں ہم اپنی جن اقدار کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ان کے پیچھے بھی ہماری ناکامیاں ہی کارفرما ہیں۔

لیکن ہم پاکستانی چونکہ عام طور پر حقائق کی دنیا سے بہت دورخیالی عظمت کے اونچے میناروں پر رہائش رکھتے ہیں اس لیے مجھے پوری امید ہے کہ اس تحریر کو بھی نام نہاد امریکی دانش سے مرعوب شخص کی غلام سوچ کا ایک شاخسانہ قرار دے کر سماجی بہتری کے لیے عملی اقدامات کی بجائے”مشرق “کی بے معنی ثنا خوانی کا فریضہ جاری رکھا جائے گا۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa