انتخابی مہم میں سیاسی قیادت کو اپنی حفاظت سے غافل نہیں ہونا چاہیے


مستونگ میں ہونے والی سنگدلانہ دھشت گردی کی واردات نے ہر پاکستانی کا دل دہلا دیا۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی۔ حال ہی میں اسلام آباد میں پاکستان، روس، ایران اور چین کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے سربراہان کی میٹنگ ہوئی۔ 12 جولائی کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق، میٹنگ کا ایجنڈا افغانستان میں طاقت پکڑتی داعش کی کارروائیوں سے متعلق تھا۔ یہ ایک بہت غیر معمولی ملاقات تھی، روس کے صدر پیوٹن کئی مرتبہ لوکل اور بین الاقوامی فورمز پر اسلامک اسٹیٹ اور امریکہ کے روابط پر کھل کر بول چکے ہیں وہ ریکارڈ پر ہیں کہ افغانستان کی شمالی سرحدوں پر امریکی سی آئی اے کے ہیلی کاپٹروں پر اسلامک اسٹیٹ کے لوگوں کی نقل و حرکت دیکھی گئی اور یہ ہی ان کی تشویش کا باعث ہے کہ ان کے ملک کی سرحد بھی عبور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ چیچنیا کا تجربہ حال ہی کا ہےاور بسلان کے سکول میں ہونے والی دبشت گردی کا واقعہ 1ستمبر 2004 کی بات ہے جس میں بچوں کے ایک سکول کو دھشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا اس ظالمانہ کارروائی میں 186 بچوں سمیت 334 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ایران، اب ٹرمپ کے امریکہ کا کھلا ہدف ہے، چین کی امریکہ سے مختلف اہداف پر پہلے سےجاری کشمکش کے پس منظر میں ایران،افغانستان اور پاکستان میں ہونے والی متوقع بدامنی سے چین براہ راست متاثر ہوتا ہے۔

اسلامک اسٹیٹ یا داعش کا ابھرتا خطرہ اتنا بڑا اور حقیقی ہے کہ اس نے ان تمام ممالک کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ اس ملاقات کے لیے اسلام آباد کا انتخاب بھی عجیب اتفاق ہے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ کا دفاعی مرکز اسلام آباد ہوگا۔ یہ جنگ سایوں کے جنگ ہے تو اس میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کردار روایتی اہمیت سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے اور اس اہم میٹنگ پر ہماری محفلوں میں اتنی گفتگو شاید نہ ہو سکی جتنی توجہ اسے ملنا چاہیئے تھی۔ ظاہر ہے انتخابی موسم ہو تو خبروں کا رخ عام ڈگر سے کچھ ہٹا ہوتا ہے۔ مگر اب مستونگ نے ہر کسی کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے اور اس واقعے کو دنیا بھر کے میڈیا نے بہت غور سے دیکھا اور دکھایا ہے۔ ویسے تو 2008 کی انتخابی مہم کا خون ابھی تازہ ہے، اور اس انتخابات سے قبل ہونے والے بھیانک دھشت گردی کے واقعات بھی گویا کل ہی کی بات ہے لیکن تیز رفتاری سے حرکت کرتی ہوئی دنیا میں آج کی خبر کا مطلب بھی صرف پانچ منٹ ہوتا ہے جس کی وجہ سے دس سال پرانے واقعات پر نظر واپس لے جانا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اب ضرورت ہے کہ دھشت گردی کے ابھرتے خطرے کی حقیقت کو تسلیم کیا جائے۔

دھشت گردوں کا پہلا ہدف انتشار ہوتا ہے، دھشت گردی شوقیہ طور پر نہیں کی جاتی بلکہ اس سے کچھ نتیجہ نکالنا ہوتا ہے، اس کا مقصد ہوتا ہے۔ اس ناچیز کے نزدیک وہ انتشار ہے، اسی سے بد امنی پھوٹتی ہے جس ریاست دباؤ کا شکار ہوتی اور ظاہر ہے کہ عدم استحکام کا شکار ہو جاتی ہے۔ 2008 کی انتخابی مہم اور موجودہ حالات دیکھ کر سب سے پہلے جو منحوس اندیشہ سر اٹھاتا ہے وہ کسی بڑی سیاسی شخصیت کی جان کو لاحق شدید خطرہ ہے۔ ہمیں بطور شہری اپنی حکومت سے امید رکھنی چاہئے اور ضرورت پڑنے پر ہر ممکن دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ اہم سیاسی شخصیات خصوصاَ سیا سی جماعتوں کے  سربراہان کی کڑی حفاظت یقینی بنائیں۔ دھشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد کی بدلی صورت حال میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ ابھی جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں جناب حامد سے پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے گویا گلہ سا کیا کہ ان کی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو بہت سے مقامات پر سیکیورٹی کے نام پر جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی جس پر برادر حامد میر نے بتایا کہ سیکیورٹی اداروں کی وارننگز عمران خان کو بھی آتی ہیں مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔

حامد میر صاحب کی خبر پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ لہذا پی ٹی آئی کے دوستوں سے گزارش ہے کہ اپنے لیڈر پر جتنا ممکن ہو دباؤ ڈالیں کہ بہادری کا مطلب یہ نہیں کہ چونکہ نواز شریف واپس جیل آ چکا ہے تو اس سے زیادہ بہادر بن کر دکھانا ضروری ہے جس کے لئے لازمی ہے کہ سیکیورٹی اداروں کی وارننگز کو نظر انداز کیا جائے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کو بھی سیکیورٹی اداروں نے متعدد بار خبردار کیا اور انہیں آخری وارننگ اسی جلسے میں جانے سے روکنے کے لئے تھی اور چند گھنٹوں پہلے ہی دی گئی تھی کہ وہ اس جلسہ کو منسوخ کر دیں یا کم از کم خود وہاں نہ جائیں۔ بے نظیر بھٹو نے کراچی میں ہونے والے سانحہ کارساز کے بعد ایک انٹرویو میں تفصیل بتاتے ہوئے یہ بھی بتایا تھا کہ انہیں کہا گیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھائیں اور اپنے گھر یا دفتر سے جلسوں سے خطاب کر لیا کریں مگر انہوں نے اس بات کو نہیں مانا۔

سہیل وڑائچ صاحب نے بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی سے قبل لندن میں ایک انٹرویو کے دوران سوال کیا کہ آپ جانتی ہیں کہ آپ کی زندگی کو خطرہ ہے آپ واپس کیوں جا رہی ہیں، ان کا جواب تھا کہ یہ دھشت گرد مجھے ڈرا نہیں سکتے میں اپنے لوگوں میں جاؤں گی۔ اس حوصلے اس ہمت کو ہزار سلام لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ کسی باقاعدہ ریاست یا حکومت سے لڑائی مختلف بات ہے، آپ گرفتار ہوں گے، مقدمہ چلے گا جیل ہو گی، پھانسی اور کوڑوں کی سزا بھی ہو سکتی یے لیکن کوئی پروسیجر تو ہوتا ہے۔ خلائی مخلوق جس کو نام دیا جاتا ہے ان کے دفاتراور لوگ بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمارے ہی بھائی بیٹے دوست اور ہم وطن ہوتے ہیں۔ ان سے یا ان کی افسر شاھی سے دوستی اور اختلاف قطعی اور بات ہے، دھشت گردوں کا مقابلہ بالکل اور بات۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کیا اگر بے نظیر بھٹو آخری یا اس سے پہلے کی وارننگز کو سنجیدہ لیتیں، اس جلسے میں نہ جاتیں اور آج زندہ ہوتیں تو ہمارے اوران کے لیے بہتر ہوتا یا آج ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک پاگل آدمی ہے اور اس کا پاگل پن ہماری توجہ یا عدم توجہ کا محتاج نہیں۔

 رواں سال کے پہلے دن اس نے پاکستان پر دھشت گردی کا الزام لگا تھا۔ اسے امریکہ میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کی فکر ہے اگلے الیکشن کی تیاری اسے کرنی ہے۔ ملا فضل اللہ کے خاتمے کے بعد اب ان کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ دھشت گردی کی مبینہ نیٹ ورک ختم کریں۔ ان ابھرتے خطرات میں خود کو ہجوم کے سامنے نہتا پیش کرنا دلیری نہیں، اس دھشت گردی کا مقابلہ کرنا دلیری ہے جس کے لئے بہرحال جذبے کے ساتھ ساتھ حکومت اور ریاست کی طاقت بھی چاہیے۔ اس طرح کی بہادری میں اگر خاک بدہن کوئی بڑا انسان جاتا ہے تو وہ اکیلا نہیں جاتا بہت سی جانیں، بے شمار امکانات اپنے ساتھ لے جاتا اور اپنے پیچھے نہایت پیچیدہ صورتحال چھوڑ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).