وزیر اعظم عمران خان: مگر کس قیمت پر؟


دہشتگردی کے متعدد واقعات خوف میں اضافہ کرچکے ہیں اور متعدد انتہا پسند تنظیمیں اور ان کے رہنما کسی نہ کسی نام سے انتخاب میں شان و شوکت سے شریک ہورہے ہیں۔ اور جب ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے وفد نے الیکشن کمشنر آف پاکستان جسٹس (ر) سردار محمد رضا خان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ کئی کالعدم انتہا پسندتنظیموں کے لیڈر انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں تو انہوں نے وفد سے استفسار کیا کہ ’ مجھے تو یہ بتائیے کہ کیا کوئی کالعدم تنظیم متحرک ہے‘۔

الیکشن کمیشن کی بے بسی تو اس بات سے بھی عیاں ہے لاہور ہائی کورٹ نے اپنے اشتہاروں پر آرمی چیف اور چیف جسٹس کی تصویریں لگانے والے تحریک انصاف کے صوبائی اسمبلی کے امید وار کو انتخاب میں حصہ لینے کا حق دے دیا ہے حالانکہ الیکشن کمیشن نے اس حرکت کو انتخابی قواعد کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس شخص کو انتخاب میں حصہ لینے کا نااہل قرار دیا تھا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ تحریک انصاف ہی کے سیکرٹری اطلاعات فواد چوہدری کی اہلیت کے بارے میں اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت مرحمت کرچکی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے البتہ آج نواز شریف، مریم نواز اور صفدر نواز کی احتساب عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپیلوں کی سماعت انتخابات کے بعد تک ملتوی کردی ہے۔ ان اپیلوں میں احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان تینوں کی ضمانت قبول کرنے کی استدعا کی گئی تھی لیکن ہائی کورٹ کو ابھی اس معاملہ کو نمٹانے کی جلدی نہیں ہے حالانکہ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر 6 جولائی کے فیصلہ میں نااہل ہونے سے قبل قومی اسمبلی کے حلقوں سے انتخاب میں حصہ لے رہے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ احتساب عدالت کے فیصلہ کو معطل کرتے ہوئے انہیں انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دے سکتی تھی لیکن اسے مناسب نہیں سمجھا گیا۔ اس فیصلہ کے قانونی پہلوؤں سےقطع نظر اس کے سیاسی مضمرات کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ ہائی کورٹ پر بد نیتی کا شبہ کئے بغیر یہ کہنا ضروری ہے کہ اگر شریف خاندان کو ریلیف دے دیا جاتا تو اس تاثر کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی تھی کہ عدالتیں مسلم لیگ (ن) کو دیوار سے لگانے کے لئے اسٹبلشمنٹ کا ہتھیار بنی ہوئی ہیں۔

ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کے بعد اگلے ہفتے ہونے والے انتخابات کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کمیشن کے مطابق یہ انتخابات نہایت غلیظ ہوں گے اور انہیں مائیکرو مینیج کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ کالعدم انتہا پسند تنظیموں کے لیڈر کھلے عام انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں ، انتخابی ریلیوں پر متعدد دہشتگرد حملے ہوچکے ہیں اور میڈیا کو دبانے کے لئے خفیہ ایجنسیاں متحرک ہیں۔ تحریک انصاف کے علاوہ ملک کی کم و بیش ہر سیاسی پارٹی بھی انتخابات سے پہلےسامنے آنے والے اقدامات کو انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش قرار دے رہی ہے۔ ہیومن رائیٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت توڑنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

ان الزامات اور اندیشوں کے باوجود عمران خان کو یقین ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں وہ وزیر اعظم بنیں گے۔ اب متعدد تجزیہ نگار بھی ان کی رائے سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان کو ابھی سے سوچنا چاہئے کہ ان حالات میں اور ایسے مشکوک انتخابات کے نتیجہ میں وزیر اعظم بن کر وہ کیا مقاصد حاصل کرپائیں گے۔ وہ اپنی بدکلامی سے ایک ایسا سیاسی ماحول بناچکے ہیں جو شرافت اور تہذیب کے تمام اصولوں سے متصادم ہے۔ ملک میں سیاسی اختلافات ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ عمرا ن خان جس لب و لہجہ میں نواز شریف اور آصف زرداری کا ذکر کرتے ہیں ، اس سے سیاسی تقسیم میں ذاتی نفرت کا جذبہ بطور خاص شامل ہوچکا ہے۔ یہ طریقہ کار معاشرے میں جو مزاج تشکیل دے رہا ہے، مستقبل میں حکومت سنبھالنے والے کسی بھی شخص کے لئے اس سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا۔

انتخابات میں دھاندلی اور مداخلت پر شور و غل بپا ہونے کے باوجود ان اداروں کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ہے جو اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ اس طرح اس پیغام کو عام کرنے کا کوشش کی گئی ہے کہ اختلاف یا تنقید سے ’ریاست‘ کے مفاد کے نقطہ نظر سے ہونے والا کام روکا نہیں جا سکتا۔ اسٹبلشمنٹ اس وقت سب سے اہم انتخابی طاقت کی حیثیت حاصل کرچکی ہے۔ تجزیہ نگار اسٹبلشمنٹ کے اس کردار کی روشنی میں ہی عمران خان کے وزیر اعظم بننے کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ لیکن طاقت کے اس مظاہرے اور تبصروں میں یہ فراموش کیا جارہا ہے کہ ان ہتھکنڈوں سے اسٹبلشمنٹ کے خلاف رائے بھی اسی تیزی سے مستحکم اور مضبوط ہورہی ہے۔ ملک میں ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہؤا ہے جو سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کو مسترد کرتے ہیں یا ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ صورت حال انتخابی نتائج پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے لیکن اگر اس کا قابل ذکر اظہار 25 جولائی کےانتخاب میں دکھائی نہ دیا تو بھی ملک کے مسلمہ نظام کے خلاف عوام کا بڑھتا ہؤا غم و غصہ چند ہفتوں بعد بننے والے وزیر اعظم اور اسٹبلشمنٹ کے لئے نئی مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اس تصادم میں پاکستان کے مفادات متاثر ہوں گے اور عوام کے مسائل میں اضافہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali