ہارن کھیڈ فقیرا


جتن جتن ہر کوئی کھیڈے، ہارن کھیڈ فقیرا

جتن دا مُل کوڈی پیندا، ہارن دا مُل ہیرا

میاں محمد بخش کا شعر ہمارے بڑے محترم بھائی سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں لکھا اور یہ حقیقت بھی بیان کردی کہ انسان کی فطرت ہے وہ کامیابی اور جیت کیلئے میدان میں اترتا ہے کسی بھی کام میں ناکامی یا کوئی ایسا کام جس میں کوئی فائدہ نہ ہو، اس میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ کیا ناکامی اور شکست کا سامنا کرنے والوں کا موقف، سوچ اور عمل درست نہیں ہوتا؟ ان کا ساتھ دینا یا حمایت کرنا غلط بات ہے؟

انسان محض جیت کے نشے میں کیوں رہتا ہے، اسے زندگی میں بارہا شکست دیکھنے کو ملتی ہے پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارتا اور کامیابی کیلئے نئے سرے سے جتن یعنی کوششیں کرتا ہے اس شکست میں چھپے سبق وہی سمجھ سکتا ہے جس نے ہار کا بھرپور مزہ لیا ہو، اس نے دل سے اسے قبول کیا ہو، وہ جانتا ہو کہاں اس نے قدم غلط اٹھایا اور اب کے باری اسے دھرانا نہیں۔

اپنی سوچ کو مزید بہتر انداز میں استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھنا اور حقیقی کامیابی حاصل کرنا ہے۔

یہ بات محض الیکشن، ووٹ، امیدوار کی جیت ہار،حکومت بنانے اور اقتدار ملنے تک ہی نہیں، زندگی کے کسی بھی شعبے پر پوری طرح سے لاگو ہوتی ہے۔ اگر ہم جیت کی خاطر کوئی بھی ان فیئر مینز یعنی ناجائز ذرائع استعمال کریں جس کے ہم زیادہ تر عادی بھی ہوچکے ہیں،اس کے دوررس اثرات مرتب نہیں ہوتے ہماری یہ جیت یا کامیابی ہمارا زیادہ دور تک ساتھ نہیں دے پاتی، کیونکہ ہم اس کے کسی حد تک اہل بھی نہیں ہوتے۔

شکست اور ہار کے اندر جس بات کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے وہ مدمقابل کا آپ پر اعتبار اور بھروسہ ہے، وہ کس قدر آپ کو اپنا حریف خیال کرتا ہے، وہ مقابلے میں کون سے حربے استعمال کرتا ہے آیا اس نے بھی ناجائز ہتھکنڈے سنبھالے ہیں۔ تو پھر جان لیں، وہ بھی ویسی ہی غلطی کرے گا، جس کے نتیجے میں آپ کو منہ کی کھانا پڑتی ہے۔اگر وہ ایسا نہیں کررہا اور بڑے صحیح قدم اٹھاتا ہے پھر مقابلہ نہ صرف سخت ہوسکتا ہے بلکہ آئندہ کیلئے بھی مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حلیف اور دوستوں کی تعداد کبھی کم نہیں ہونے دیں۔ اگر اعتماد میں آکر اکیلے یا اپنے بازوں پر بھروسہ کرکے میدان میں اتریں گے تو جنگ نہیں جیت پائیں گے۔

جہاں جیت کو برقرار رکھنا مشکل ہے وہاں ہار کو قبول کرنا بھی اتنا ہی تکلیف دہ کام ہے۔ بزرگوں نے اس لیے کہا ہے اپنی ہار کو دل سے قبول کرو مگر دل سے نہ لگاؤ اس میں اپنی اگلی جیت کے راستے تلاش کرو۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم اکثر جیتنے والے کے پیچھے ہوتے ہیں، اگر آپ اس کے ہم خیال ہیں تو ایسا کرنا درست ہے لیکن اس کی کامیابی آپ کو کھینچ رہی ہے، پھر یہ غور طلب بات ہے، اپنی سوچ اور فکر کا تھوڑا سا جائزہ لینا ہوگا، آپ کا ہم خیال میدان میں بہت پیچھے ہے، اس کے لیے نہ صرف اپنے جذبات برقرار رکھیں بلکہ اس کا ساتھ بھرپور طریقے سے دیں۔

یہ بات کوئی خیالی نہیں صرف اصولی ہے اور زندگی میں یہ اصول ہی انسان کے مضبوط فیصلوں کا باعث بنتا ہے۔

ریاستی ادارے، جماعتیں، گروپ، تنظیمیں کبھی ناکامی کا سوچ نہیں سکتیں، انہیں ہمیشہ اپنی کامیابی عزیز ہوتی ہے۔ یہ لوگ زندگی کے اکثر مقاصد میں ہارے ہوتے ہیں۔ انہیں جیت کی خواہش ہوتی ہے۔ اسے قومی جذبے کا نام دیا جاتا ہے۔ فتح مند کو کندھوں پر اٹھاتے اور شکست خوردہ پر پتھر اچھالتے ہیں۔

ہم اپنی ہار پر منہ چھپاتے ہیں، کیا یہ کوئی انوکھی بات ہے، ہارنے والے کا خیرمقدم کیوں نہیں کیا جاتا اس کا حوصلہ بڑھانے کو آگے کیوں نہیں آتے، تبدیلی کی باتیں سب کرتے ہیں مگر خود کو تبدیل کم ہی کرتے ہیں۔ شکست کا خوف دل میں رکھ کر میدان میں اترنے والے کھلاڑی کمزور ہوتے ہیں۔ یہ خوف نہیں حقیقت ہے جس کا بہادری سے سامنا صرف درویش کرتے ہیں، انہیں جیت کی کوئی فکر بھی نہیں ہوتی اسی لیے کہہ گئے۔

 جتن جتن ہر کوئی کھیڈے، ہارن کھیڈ فقیرا

جتن دا مُل کوڈی پیندا، ہارن دا مُل ہیرا

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar