کیا نواز شریف اور مریم خود کو مظلوم پیش کر کے ہمدردی بٹور پائیں گے؟


احتساب عدالت سے سزا سنائے جانے کے بعد میاں نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی سے متعلق بہت سارے شکوک و شبہات پیدا کیے جارہے تھے۔ بہت سی باتیں بہت سے حلقوں میں موضوع بحث تھیں۔

سیاسی، سماجی، اور عوامی حلقوں میں یہی بات زیر بحث تھی اور یہی سوال مختلف ذہنوں میں پیدا ہو رہا تھا کہ اب کیا میاں نواز شریف واپس آنے کا فیصلہ کریں گے یا پھر لندن میں ہی دل کے عارضے میں مبتلا دوڑتے پھرتے عدالتوں سے مفرور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے کلاس فیلو بن کر وہیں پہ ہی کھلی فضاؤں میں چائے پینے اور گپ شپ کرنے کو ترجیح دیتے؟ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پہ بھی یہی بات قابل ذکر تھی کہ کیا میاں نواز شریف سزا سننے کے بعد واپس آئیں گے؟ سوشل میڈیا پر تمام دوستوں کی ہر نئی پوسٹ پہ یہی دیکھنے کو ملتا تھا کہ میاں نواز اب واپس نہیں آئے گا۔ مخالف نظریہ رکھنے والے کا اس پوسٹ یہی کمنٹ ہوتا تھا ”نہیں جی! میاں صاحب ضرور واپس آئیں گے۔ “سب سے بڑھ کر کہ میاں صاحب کی اپنی پارٹی مسلم لیگ ن کے بھی زیادہ تر عہدے داران اسی کشمکش میں تھے کہ میاں صاحب اب کیا فیصلہ کریں گے؟ تمام تر قیاس آرائیوں اور پیشین گوئیوں نے اس وقت دم توڑا جب میاں صاحب نے خود ہی اپنی بیٹی کے ساتھ باقاعدہ طور پر اعلانیہ واپسی کا فیصلہ کیا۔ مشکل حالات کٹھن وقت کافی دنوں سے وینٹی لیٹر پر موجود کلثوم نواز نے نہ چند سیکنڈز کے لئے آنکھیں کھولی تھیں۔

ان تمام حالات کے باوجود میاں صاحب کی واپسی کافیصلہ ہماری نظروں میں ایک سیاست دان کا سیاسی اور دلیرانہ فیصلہ تھا جبکہ نیب یہاں پرآتے ہی ائرپورٹ سے ہی میاں صاحب کو گرفتار کرنے کا پلان بنا چکی تھی۔ میاں صاحب اگر واپسی کافیصلہ نہ کرتے تو شاید مسلم لیگ ن کو اس بار اس قدر نقصان ہوتا شاید ہی اس سے پہلے کبھی ہوا ہو۔
میاں صاحب کی طرف سے 13 جولائی کی شام 6 بجے لاہور پہنچنے کا اعلان کیا گیا۔

واپسی کافیصلہ اُن کے لئے یا پھر اُن کی پارٹی کے لئے کس قدرسودمند یا پھرنقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ میاں صاحب کی واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی اپنی پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ نیب اور نگران حکومت کی بھی دوڑیں لگوادیں۔ نیب کی ٹیم نے میاں صاحب کوگرفتار کرنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ اس قدر بے چینی نیب کو میاں صاحب پرکیسز چلاتے وقت بھی نہیں ہوئی ہو گی جس قدر میاں صاحب کو گرفتار کرنے کے لئے نیب کو پریشان دیکھا گیا۔ ایمرجنسی میٹنگز مختلف فیصلے نیب کی طرف سے سننے کوملے۔ ائرپورٹ کے اندر سے ہی گرفتاری کی باتیں تو کبھی ائر پورٹ کے باہر سے حراست میں لینے کے فیصلے نیب کی پریشانی کو صاف ظاہر کررہے تھے۔ کبھی اسلام آباد ائر پورٹ پہ اپنی ٹیم بھیجنے کا فیصلہ تو کبھی چکلالہ (نور خان) ائر بیس پرمیاں صاحب کا انتظار کرنے کے مشورے۔

ادھر سے مسلم لیگ ن نے ائر پورٹ پر ہی میاں صاحب کا تاریخی استقبال کرنے کی منصوبہ بندی بھی شروع کردی۔ اس استقبال کوبہتر سے بہترین بنانے کے لئے بڑے بڑے سیاسی عہدے داران کی ایک استقبالیہ کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی۔ جس کے ذمہ میاں صاحب کے استقبال سے متعلق پلان وضع کرنا تھا۔ ان ساری تیاریوں کے ساتھ اس وقت جو سب سے کڑا امتحان تھا وہ تھا بیچاری نگران حکومت کے لیے پورے شہر کی سڑکوں پہ ٹریفک سے زیادہ کنٹینرز کھڑے کرد ئیے گئے۔ جگہ جگہ رکاوٹوں کے انبار لگادیے گئے۔ اختیارات نہیں تھے یا پھر ناتجربہ کاری ؟ جو کچھ بھی تھا، نگران حکومت کے لیے ان حالات کو کنٹرول کرنا دشوار لگ رہاتھا۔ ادھر سے پورے ملک میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو لاہور پہنچ کر اپنے قائد کا استقبال کرنے کی کال بھی دے دی گئی۔

میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز شریف کے ساتھ 13 جولائی کو شام 8 بجے لاہور ائیرپورٹ پہنچ گئے۔ جہاں اُن دونوں کو نیب کی طرف سے طیارے کے اندر سے ہی حراست میں لے لیاگیا۔ وہیں سے ہی پاسپورٹ ضبط کرلیے گئے۔ اور گاڑی میں بٹھا کر ائر پورٹ میں کھڑے دوسرے طیارے کے ذریعے اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کر دیا گیا۔ مریم نواز کو پہلے سہالہ ریسٹ ہاؤس میں رکھنے کافیصلہ کیا گیا۔ بعد میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اُن کو بھی اڈیالہ میں خواتین بیرکس میں رکھنے کو ترجیح دی گئی۔ میاں صاحب اور اُن کی صاحبزادی پاکستان آکر اڈیالہ تو پہنچ گئے لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے عمل سے میاں صاحب اور اُن کی پارٹی کو فائدہ ہوا یا نقصان؟

مسلم لیگ ن کی حریف جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چئیر مین عمران خان کی طرف سے ہر عوامی جلسے میں یہ بات کہ میاں صاحب اب نیلسن منڈیلا بننے کی کوشش نہ کریں، صاف ظاہر کرتی ہیں کہ اُن کوشاید میاں صاحب کی واپسی کے فیصلہ نے زیادہ خوش نہیں کیا۔ کیونکہ اگر میاں صاحب واپس نہ آتے تو تحریک انصاف کو الیکشن کمپین میں ہر جگہ بات کرنے کا ایک اچھاموقع مل جاتا کہ پاکستان کے عوام دیکھ لیں سزا یافتہ شخص پاکستان نہیں آرہاور اس ٹاپک کو ہی بنیاد بنا کر تحریک انصاف اپنے لیے ووٹ مانگتی رہتی۔ عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید کوبھی اپنی پشین گوئیاں کرنے کا اور موقع مل جاتا۔ میاں صاحب کی واپسی کے فیصلے سے اگر کوئی خوش ہوا ہے تو وہ ہے مسلم لیگ ن کاورکر۔ میاں صاحب کے واپس آنے کے بعد سے ہی مسلم لیگ ن کے تمام عہدے داران نے اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے باقاعدہ طور پر بھرپور الیکشن کمپین کا آغاز کردیاہے۔

کیا اب جیل پہنچنے کے بعد میاں صاحب خودکو مظلوم ثابت کرتے ہوئے اپنی پارٹی کو کوئی سیاسی فائدہ دے پائیں گے؟ مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو ائرپورٹ پہنچنے سے روکاگیا بہت سارے کارکنوں کو پولیس کے ہاتھوں ڈنڈے بھی کھانے پڑے۔ ن لیگ کے قائد کو اپنے کارکنوں سے خطاب کرنا تو درکنار دیکھنے کا موقع بھی نہیں دیاگیا۔ بہت سارے کارکنوں کی سیاسی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔ بہت سارے کارکنوں کو گھروں میں ہی نظر بند کر دیا گیا۔ کیا یہ سب باتیں مسلم لیگ ن اپنے انتخابی بیانیے میں مظلوم ظاہر کر کے لوگوں کی ہمدردیاں لینے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار اتنے بڑے لیڈر اور اورتین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کو اُن کی بیٹی کے ساتھ ہی ائرپورٹ سے ہی سیدھا جیل منتقل کیے جانے کو مسلم لیگ ن انتخابی عمل میں کس قدر بیانیہ جاری کرتے ہوئے خود کو سیاسی یتیم ظاہر کرکے لوگوں کے جذبات کوکیش کرپائے گی؟

کیا لندن میں ایون فیلڈ ہاؤس کے سامنے کھڑے ہوکر لوگوں کی طرف سے نواز شریف اوراُن کے خاندان پر گالیاں بکنے مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر پرنوجوانوں کی طرف سے فقرے کسنے کو مسلم لیگ ن مظلومیت کابیانیہ بنا پائے گی؟ جیل میں پہلے روزہی میاں صاحب کو تو بی کلاس مہیا کردی گئی، مگر اُن کی بیٹی نے بی کلاس کے لئے درخواست دینے سے انکار کرتے ہوئے عام قیدیوں کی بیرکس میں رہنے کافیصلہ کیا ہے۔ کیا یہ فیصلہ خود کو مظلوم پیش کرکے لوگوں کی ہمدردیاں لیتے ہوئے سیاسی یتیم ظاہر کرپائے گا؟ کیا ان تمام تر مسائل کا سامنا کرنے کے بعد مسلم لیگ ن مظلوم اور سیاسی طور پر ایک ہی جماعت کوٹارگٹ کیے جانے کے بیانیے سے ہی اپنی الیکشن کمپین آگے بڑھائے گی؟ اس ملک میں آج تک کام کو بنیاد بنا کر مذہب، رنگ، نسل یا قوم کی بنیاد پر ووٹ مانگ کرکسی سیاسی جماعت کو اتنا فائدہ نہیں ہو اجتنا فائدہ خودکو سیاسی طور پرمظلوم ظاہر کرکے ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).