اخلاقیات سے عاری عام انتخابات 2018ء


ایسا لگتا ہے الیکشن 2018ء، اخلاقیات سے عاری الیکشن ہیں، جیسے جیسے پولنگ ڈے قریب آرہا ہے، ویسے ہی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں میں بھی تیزی دکھائی دینے لگی ہے؛ لیکن الیکشن کمپین کے دوران جو زبان استعمال کی جا رہی ہے، وہ کسی بھی لحاظ سے ایک مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی۔ حکومت بنانے کی دعوے دار جماعت کے قائد عمران خان نے سابق وزیر اعظم نوا ز شریف کی لندن سے لاہور آمد کے موقع پر اُن کے استقبال کے لیے جانے والے لیگی کارکنوں کو ”گدھے“ قرار دیا، جس کی وجہ سے اُن کو عوام کی طرف سے غیظ و غضب کا نشانہ بنایا گیا۔

اسی جماعت کے ایک رُکن پرویز خٹک، سابق وزیر اعلیٰ پختونخوا نے نوشہرہ جلسے کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے حوالے سے خاصے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ وہ جس گھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کا جھنڈا لگا دیکھتے ہیں تو وہ اُنھیں طوائف کے بچے لگتے ہیں۔ اُن کے اس بیان پر سوشل میڈیا میں اُنھیں خاصا لتاڑا گیا۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے ایک وزیر رانا ثنا اللہ نے نواز شریف کی آمد پر استقبال میں جانے والوں کو ”حج“ سے تعبیر کیا۔ جس پر مذہبی جماعتوں نے خاصا احتجاج کیا۔

اسی طرح ایاز صادق کا کہنا کہ جو پی ٹی آئی کو ووٹ دے گا، وہ ”بے غیرت“ ہوگا۔ اسی طرح سانحہ مستونگ کے شہدا کی تعزیت میں شامل ہونے والے سیاست دانوں نے وہاں بھی خوب سیاست چمکائی اور شاید وہ بھول گئے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک مرتبہ پھر الم ناک سانحہ ہو چکا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں سے سوشل میڈیا پر دوسری جماعتوں کے بارے میں تحقیر آمیز تقریریں کروانا اور جانوروں پر سیاست دانوں کے نام لکھ کر اُن کا مذاق اُڑانا ایسی بے شمار غیر اخلاقی حرکات ہیں، جس سے دوسرے ممالک میں جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔

رہی کسر ٹی وی چینلز نے پوری کر دی ہے جنہوں نے تقریباً ہر سیاستدان کی ”ڈمی“ بنا کر اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے ایسے عجیب و غریب پروگرام پیش کررہے ہیں، جو کسی بھی حوالے سے صحافت کو فروغ نہیں دے رہے۔

ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں کسی سیاسی جماعت کی طرف داری سے میڈیا کے غیر جانب دار ہونے کا تاثر تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک سیاسی جماعت دوسری کو ایسے ایسے القابات سے نوازتی ہے جو بہت سے لوگوں کے لیے تو شاید ”شغل“ ہے لیکن مستقبل میں نئی نسل پر اُس کے اثرات ہو سکتے ہیں؛ شاید اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ صورت احوال تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں سیاسی جماعتیں اس قدر پستی میں چلی گئی ہیں، جس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ہمارا مہذب معاشرے سے دور دور تک لینا دینا نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور اُن کے نمایندوں کے لیے جو قواعد و ضوبط (Code of conduct) بنائے گئے ہیں اور جن کو تمام سیاسی پارٹیوں کی مشاورت سے حتمی شکل دی گئی وہ اُن کے مطابق اپنی مہم کیوں نہیں چلاتے؟ کیا الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کیا اس طرح کے واقعات اور زبان کی اجازت دیتے ہیں اور اگر نہیں دیتے تو پھر جب اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے تو پھر اُس پر الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی سختی کیوں نہیں کی جاتی اور اُن پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی۔ حالاں کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مرتب کیے جانے والے ضابطہ اخلاق 2018ء کے موضوع ”جلسہ و جلوس“ کے آرٹیکل 44 میں درج ہے کہ ”انتخابی امیدواران، الیکشن ایجنٹ اور اُن کے حمایتی ایسی تقریروں سے اجتناب کریں جو علاقائی اور فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دیں اور صنفی، فرقہ بندی، گروہ بندی اور لسانی بنیادوں پر تنازعات کا باعث ہو۔“

جب کہ آرٹیکل 46 میں درج ہے کہ ”دیگر سیاسی جماعتوں اور مخالف امیدواروں پر تنقید کو صرف اُن کی پالیسیوں اور پروگراموں، ماضی کے رِکارڈ اور اُن کے کام تک ہی محدود رکھا جائے گا۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواران و دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماوں یا کارکنوں کی نجی زندگی کے کسی ایسے پہلو پر تنقید کرنے سے اجتناب کریں، جس کا عوامی سرگرمیوں سے کوئی تعلق ہو۔ ایسی تنقید سے پرہیز کیا جائے، جس کی بنیاد غیر مصدق الزامات یا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر ہو۔“ کیوں پیمرا کو پابند نہیں کیا جاتا کہ وہ اس طرح کے پروگراموں کو بند کرے؟ کیوں سوشل میڈیا پر پابندی نہیں لگائی جاتی کہ وہ اختلاف رائے میں اخلاقی حدوں کو پار نہ کرے؟

ہمیں دُنیا بھر کے ممالک کے انتخابات سے سیکھنا چاہیے ہر جگہ پر ہی اختلاف رائے موجود ہے۔ ہر دو سیاسی جماعتیں اپنے حریف کو زیر کرنے کے لیے پورا زور لگاتی ہیں لیکن جب ایک جماعت جیت جاتی ہے تو دوسری پارٹی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرتی ہے، لیکن بد قسمتی سے ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے اور سیاست کا جو انداز اب شور ہوا ہے اُس سے تو لگتا ہے کہ شاید کوئی بھی حکومت اپنا دور اقتدار پورا نہیں کر سکے گی۔ بہر حال یہ کہنا شاید قبل از وقت ہے۔ اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کا تمسخر اُڑانے کا جو سلسلہ ہمارے یہاں شروع ہوا ہے وہ آہستہ آہستہ نفرت، حقارت اور شدت پسندی کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

ایک اور خطرناک صورت احوال جو دیکھنے کو ملی ہے کہ ایک سیاسی پارٹی کے کارکن اپنی نفرت کا اظہار کرنے کے لیے دوسری پارٹی کے گھر تک چلے گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ایسا بیہمانہ فعل ہے کہ اگر یہ مشق عام ہو گئی تو پور ی قوم کو اس کے خاصے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

میں سمجھتا ہوں کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں فوری طور پر خاطر خواہ انتظامات کرنے کی ضرور ت ہے اور ایسے اقدامات کو فوری طور پر روکنے کے لیے موثر قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے، جس کا اطلاق فوری طور پر ہونا چاہیے۔ سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی تقاریر میں کسی دوسرے سیاست دان کی نجی زندگی سے متعلق کوئی بات نہ کریں اور نہ کوئی ایسی شر انگیز گفتگو کریں جو وقتی طور پر تو آپ کو ووٹ دلانے کا باعث بنے لیکن اُس کے دیرپا نتائج سنگین ہوں۔ کیوں کہ ملک بھر میں ہزاروں پولنگ بوتھ کو“ خطرناک“ قرار دیا جا چکا ہے جہاں پر کسی بھی قسم کا واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔ گو کہ الیکشن کو پُر امن بنانے کے لیے سیکورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ فوج کو بھی طلب کیا گیا ہے اور شاید ملکی تاریخ میں الیکشن کے موقع پر فوج کو زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں، تا کہ الیکشن کو کامیاب بنایا جا سکے۔

میرا ماننا ہے کہ الیکشن کو پراُمن بنانے کی ذمہ داری، جہاں سیکورٹی فورسز اور فوج کی ہے وہاں عوام کو بھی اس میں خاص طور پر اپنا کردا رادا کرنا ہوگا۔ کیوں کہ جہاں قومی میڈیا الیکشن کی کوریج کر رہا ہے، وہاں انٹرنیشنل میڈیا کی نظریں بھی اس پر ہیں، جو یقینا غیر جانب دارانہ کوریج کرے گا۔ گزارش ہے کہ آپ بھلے کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، آپ اپنی پارٹی کو سپورٹ ضرور کریں لیکن مخالف پارٹی کی تحقیر مت کریں۔ کھلے دل سے الیکشن کے نتائج کو قبول کریں اور جیتنے والی پارٹی کو موقع دیں کہ وہ اپنے اقتدار کی مدت مکمل کرے۔ سوشل میڈیا کو اپنی پارٹی کی تشہیر کے لئے استعمال کریں، نہ کہ اس لیے کہ دوسری جماعتوں کو از راہ تفنن بنانے کے لیے۔ ایسا کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے اور تبھی ہم اپنے آپ کو مہذب معاشرے کے مہذب شہری ثابت کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).