رہنماؤں نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے


جولائی 2018ء کے انتخابات کی گہما گہمی ہے؛ ہر فرد کسی نہ کسی جماعت سے اپنی وابستگی ظاہر کر رہا ہے۔ لوگ بہت سی توقعات کے ساتھ امیدواروں اور جماعتوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اپنے قائدین کو خوش آمدید کہنے اور ان کی انتخابی مہمات میں شرکت کرنے کے لیے باقاعدگی کے ساتھ اپنی مصروفیات سے وقت نکالتے ہیں۔ جھنڈے لہراتے ہیں، پرجوش نعروں اور تقاریر کا سلسلہ ہے جو جاری و ساری ہے۔ ایک دن بیٹھک میں کوئی جیتے گا اور اگلے دن دوسرے کی باری ہے۔

”فلاں کو ہلکا نہ جانوں، ارے یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو، ہمارے والے کے ساتھ پوری برادری ہے، کئی محلے اس کے ساتھ ہیں، کیسے ہارے گا؟ بھیا! وہ تو جیتا، جتایا ہے۔“

لیکن پھر فلاں، فلاں میں سے کوئی ہار جائے گا۔ کچھ دن زرا افسردگی ہو گی پھرزندگی دوبارہ سب کچھ ڈگر پہ لے آئے گی۔ ابھی جلسے جلوسوں میں شریک افراد کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے۔ چائے خانوں اور ڈھابوں پہ، گلی، کوچوں اور بازاروں میں انتخابی بازی کو مقامی افراد اپنے تجزیوں کے ذریعے جانچتے ہیں مگر اس کے پیچھے لوگوں کی وہ محرومیاں ہیں، وہ مصائب ہیں جنھیں وہ عام حالات میں جھیلتے ہیں، جب کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ انتخابات کے بعد صورت احوال میں خوش گوار تبدیلی آئے گی۔

لوگ ووٹ کی طاقت سے اپنے حقوق کی تکمیل کے لیے جمہوری فیصلہ کریں گے۔ اپنے اپنے نمایندوں کی کامیابی کے لیے بھرپور مہمات چلائی جا رہی ہیں۔ ایسے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہر جماعت اور ہر امیدوار لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے اور ان کی وفاداریاں حاصل کرنے لیے کئی وعدے اور اعلانات کرتا ہے۔ جس علاقے میں جاتا ہے، وہاں کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔ لوگ اسے حقیقی معنوں میں اپنا ہم درد سمجھتے ہیں اور چناو کے عمل کے لیے بھرپور حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔ مذہبی رسوم کے تحت باقاعدہ دعائے خیر کر کے اس شخص کو باور کرایا جاتا ہے کہ ووٹ اسی کو ملے گا۔ اس مرحلے تک سب کچھ یقینا عوامی فلاح اور ملکی بہتری کے لیے ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

لوگوں کو قائل کرنے کے لیے ہر طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، وہ تمام حربے بروئے کار لائے جاتے ہیں جن سے افراد مائل ہوں۔ بہرحال لوگوں کے مسائل چوں کہ ان کے لیے ہر روز ایک نئے امتحان کا باعث بنتے ہیں، چناں چہ وہ تبدیلی کے لیے نئے خواب بنتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ شب و روز کو بدلتا دیکھیں۔ انہیں اپنے نوجوانوں کے لیے تعلیم اور روزگار چاہیے، خواتین کو سماج میں برابری چاہیے۔ لوگ صحت کی سہولیات کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ یہ انتخابی دور ان کے لیے امید کی نئی کرن ہے۔ وہ بہتر معاشی اور معاشرتی حالات پہ حق رکھتے ہیں۔ ایک صحت مند ماحول ان کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے مطالبات میں وہی کچھ شامل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ آئے روز مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔

حقیقی معنوں میں لوگ اپنے امیدواروں کو اپنے لیے کسی نجات دہندہ کی طرح سمجھتے ہیں کہ وہ انھیں ان کی روز مرہ کی آزمایشوں سے نکلنے کا حل دے گا۔ بہت حد تک انتخابات میں حصہ لینے والے لوگ اپنے آپ کو اس طرح ظاہر بھی کرتے ہیں، چاہے اس میں حقیقت کم اور مبالغہ زیادہ ہو۔ مذہبی معاشرے میں افراد کے لیے سب سے بڑا سہارا مذہب کا ہوتا ہے، لہذا انتخابی عمل میں جماعتوں کی اکثریت اپنی انتخابی مہم میں لوگوں کے اس جذباتی عنصر کو بھی خوب استعمال کرتی ہے۔ کیوں کہ یہ ایک ایسا پہلو ہے کہ جس سے بھرپورانتخابی نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہر وہ حربہ استعمال کیا جا رہا ہے کہ جس سے ووٹ کا رخ بدلا جائے۔ ہر طرح کا داو پیچ استعمال کر کے مخالف فریق کو شکست دینے کی جدوجہد کی جا رہی ہے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جماعتوں کے پاس اس وقت عوامی پروگرام کی منصوبہ بندی نہیں ہے کہ جس کی مدد سے لوگوں کے مسائل کا حل نکالا جا سکے۔ اس لیے مخالفت کو بطور ہتھیار بنا کے میدان مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک مربوط اور ٹھوس انتخابی منشور خود بہت بڑی دلیل ہے۔ اس کی موجودگی میں امیدوار کو اپنی اچھائیاں مشتہر کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اپنے منصوبے کے ذریعے عوام کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ لیکن ابھی تک کی انتخابی کارروائی سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں کو صرف جذباتی لحاظ سے قائل کر کے ایک دفعہ ان کی ووٹ کو حاصل کرنے کا ہدف طے ہوا ہے۔

سیاسی عمل میں زیادہ تر وہی افراد حصہ لیتے ہیں جن کے معاشی حالات خاصے بہتر ہوتے ہیں۔ اس لیے انتخابی مہمات پہ بڑی مقدار میں پیسا خرچ ہوتا ہے۔ اشتہارات، نقل و حمل، جلسوں اور کھانے پینے کے اخراجات عام آدمی پورے نہیں کر سکتا۔ لہذا یہ ایک طے شدہ اور مانی ہوئی بات ہے کہ چناو کے عمل میں زیادہ تر آسودہ حال اور امرا ہی حصہ لے سکتے ہیں۔ البتہ یہ سوالات اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔

کیا ایک آسودہ حال انسان ایک محروم انسان کی نمایندگی کر سکتا ہے؟
کیا ایک امیر آدمی ایک غریب آدمی کی تکالیف کا اندازہ لگا سکتا ہے؟
نجی اسپتالوں کی بھاری بھرکم فیس دینے والے افراد، کیا سرکاری اسپتالوں کے دھکے کھانے والے افراد کے وبال کو جان سکتے ہیں؟
پبلک ٹرانسپورٹ پہ سفر کرنے والے کے تجربات کا اندازہ، ذاتی گاڑی والے کو ہو سکتا ہے؟

جن کے بچے سرکاری اسکولوں کی شکستہ عمارتوں کے فرش پہ بیٹھ کے پڑھتے ہیں، جہاں ایک استاد تین جماعتوں پہ متعین ہے۔ وہاں کی صورت احوال کا تخمینہ وہ فرد لگا سکتا ہے، جس کے بچے نجی اداروں میں پڑھتے ہیں؟ (جن کے فرشوں پہ سنگ مر مر لگا ہے اور جماعت میں اے سی نصب ہیں، ایک جماعت کو کئی استاد پڑھاتے ہیں)

ان تمام حقائق کے باوجود لوگ اپنے اعتماد کے اظہار کے لیے تیار ہیں، وہ اپنے نمایندوں پہ یقین رکھتے ہیں کہ اسمبلیوں میں جا کے وہ ان کے لیے قانون سازی کریں گے، ان کے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔ عوام کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی کو ممکن بنائیں گے۔ آیندہ بننے والی حکومت کو عوام خوش آیند قرار دیتے ہیں اور اپنے موجودہ حالات میں بہتری کی امید رکھتے ہیں۔

اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ وہ اپنی جماعت کی کامیابی کے لیے سر گرم ہیں۔ موسم کی شدت سے بے فکر یہ افراد اپنے مستقبل کے لیے اور اپنے آنے والی نسل کی کامیابیوں کے لیے متحرک ہیں۔ سیاسی سرگرمی میں لوگوں کی شمولیت دراصل شعوری ترقی کی علامت ہے۔ یہ عمل جتنا بھی سست روی کا شکار ہو مگر اسی سے بہتری آئی گی۔ جمہوری عمل سے انتقال اقتدار کی روایت کا موجود رہنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔

اس بار بھی ایک امنگ کے تحت لوگ حق رائے دہی کا استعمال کرنے جا رہے ہیں؛ جب کہ اس کے بعد وہ براستہ قسمت زندگی کے لمبے سفر پہ روانہ ہو جائیں گے۔ راستے میں جو سفری سہولیات حاصل ہوں گی، وہی دراصل موجودہ انتخاب کا تحفہ ہوگا۔ اس انعام کی نوعیت جو بھی ہوگی، مگر یہ درست ہے کہ اگلے پانچ سال اسی تحفے اور تشکر کے ساتھ گزارنے ہوں گے۔

رہنما یہ کہتے ہیں کہ آنے والا سال اچھا ہے۔ ہو سکتا ہےخبر درست ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوبارہ قسمت کی مہربانی کا انتظارکرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).