جبران ناصر ایک خلائی مخلوق ہے


پاکستان میں ہر عام انتخابات کے موسم میں سیاستدان اور ریاستی و غیر ریاستی فاعل عجیب و غریب قسم کی اصطلاحات دیتے ہیں جو کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہر عام و خاص کی زبان پر مقبول ہو جاتے ہیں۔ اس بار بھی انتخابی عمل کے آغاز کے ساتھ ہی ’فرشتے‘ اور ’خلائی مخلوق‘ کی اصطلاحات منظرِعام پر آئی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو پاکستانی سیاست کے سب ایکٹرز ’فرشتے‘ ہی نظر آتے ہیں سوائے جبران ناصر کے۔ جبران ایک واحد بندہ ہے جو ’خلائی مخلوق‘ لگتا ہے۔ بظاہر تو جبران ناصر کا انتخابی نعرہ ہے ’ہم میں سے ایک‘ لیکن یقین کیجیے ایسی کوئی بات نہیں وہ ہرگز ہم میں سے ایک نہیں ہے۔

مندرجہ ذیل حقائق پر غور کریں تو یہ بات یقینی نظر آئے گی:

اوّل۔ جس ملک کی سیاست میں بد کلامی کرنا اور گالی دینا صرف قابلِ قبول نہیں بلکہ لازمی جزو بن گیا ہو۔ جہاں سیاست دان نہ صرف ایک دوسرے پر بلکہ قومی و عوامی اداروں کے لیے بھی نا معقول اور لغو زبان استعمال کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ جہاں سیاست دان اپنی عوام کے لیے ’گدھا‘، اور ’مردہ‘ کے علاوہ بھی کئی نا قابلِ اشاعت الفاظ سے نوازتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جہاں عوام احمدیوں کو گالی دینا ایمان کا تقاضاسمجھتی ہو۔ وہاںعوام کے ’پر زور اصرار‘ پر بھی جبران ناصر احمدیوں کو گالی نہ دے تو ایسے بندے کو خلائی مخلوق نہیں تو اور کیا کہنا چاہئیے۔

دوئم۔ جس سماج میں عوام کے منتخب نمائندے منتخب ہونے کے بعد گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہو جائیں۔ آئندہ انتخابات کے انعقاد کے اعلان ہونے کے بعد لوگوں سے پا نچ سال پہلے انتقال کی تعزیت کرتے پھریں۔ جہاں سابقہ ارکانِ اسمبلی کے آگے پیچھے درجن در درجن بندوں کی قطاریں ہوں جو صاحب کی گاڑی کا دروازہ کھولنے، بند کرنے، گاڑی کو صاف کرنے، عوام کو صاحب سے دور دکھنے پر فائز ہوں۔ ایسے سماج میں جبران ناصر اپنے وڈیو پیغام میں اپنا مائیک خود پکڑنے، اپنی کارنر میٹنگ خود منعقد کرنے، ٹینٹ خود لگانے اور کرسیاں بھی خود لگانے کی بات کرتا ہے تو آپ ہی بتائیں کہ ایسے بندے کو خلائی مخلوق نہیں تو اور کیا کہنا چاہیئے۔

سوئم۔ جس ملک کی عوام معیاری صحت، مساوی تعلیم، صفائی و ستھرائی، سماجی انصاف، عزت والی زندگی گزارنے کاعین مقصد ہی کھو بیٹھی ہو۔ جہاںکی عوام اپنے حقوق کی پامالی کو اپنا نصیب اورحقوق غصب کرنے والوں کو اپنا مسیحا سمجھتی ہو۔ جو عوام سماجی نابرابری کو مشیّتِ ایزدی سمجھ کر قبول کر بیٹھی ہو۔ ایسے سماج میں جبران ناصر جب اپنے انتخابی منشور میں قانون کی حکمرانی، قانون سب کے لیے، قانون کے سامنے سب برابر ہونے کا دعویٰ کرے تو آپ ہی بتائیں ایسے بندے کو خلائی مخلوق نہیں تو اور کیا کہنا چاہیئے۔

چہارم۔ جس سماج میں ایک نام نہاد سینیٹر ٹی وی پروگرام میں ایک خاتون کو شلوار اتارنے کی دھمکی دے۔ جہاں اسمبلی میں خاتون کو ’ چیمبر میں لے جا کر بات سمجھائی جانے کا مشورہ دیا جائے‘۔ جہاں اسمبلی کے اجلاس کے دوران خواتین کو ’ٹریکٹر ٹرالی‘ کے القابات سے نوازا جائے۔ اس ملک میں جبران ناصر عورت کی برابری، عورتوں کی حقِ رائے دہندگی کی اہمیت، خواتین کی دیگر حقوق کی یقین دہی دلائے تو آپ ہی بتائیں ایسے بندے کو خلائی مخلوق نہیں تو اور کیا کہنا چاہیئے

۔ جہاں پر خواجہ سرا پیدا ہونا ایک نا قابلِ معافی جرم ہو۔ وہاں جبران کے انتخابی منشور میں خواجہ سراﺅں کے حقوق کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔

پنجم۔ جس ملک میں ایک صنعت کار کا بیٹا صرف اور صرف اپنے باپ کی دولت کے بل بوتے پر کسی نوجوان کے قتل کا مرتکب ہو اور قانون اسے قاتل کی طرح نہیں بلکہ ریاستی مہمان کا سا سلوک کرے اور ایسے حضرات کو دیت کا قانون بنا کر سہولت دی گئی۔ جو کہ اس ملک میں عام عوام اور خواص کا فرق واضح کرتا ہے۔ کیا اگر کسی غریب آدمی سے کسی امیر کے بیٹے کا قتل ہو جائے تو کیا اس کہ لیے بھی یہ قانون ہو گا؟ یقینا نہیں۔ اس معاشرے میں جہاں قانون کی نظر میں بھی سب برابر نہیں وہاں جبران ناصر ایسے کیس کوچیلینج کر تا ہے تو ظاہر ہے یہ شخص خلائی مخلوق نہیں تو اور کیا ہے؟

ششم۔ جہاں سابق صدرِ مملکت اپنے بیان میں ایک وردی والے قاتل کو ’میرا بہادر بچہ‘ کہہ کر بلاتے ہیں اور اسی بہادر بچے کو جبران ناصر ماورائے عدالت قتل کے کیس میں عدالت میں لانے اور مقتول کے ورثاءکو انصاف دلانے کی کوشش میں اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے۔ صرف اور صرف اس لیے کہ اس ملک کی عوام کو قانون کی حکمرانی میں یقین بحال ہو۔ اب آپ خود فیصلہ کریں جو شخص پاکستان میں یہ سب کام کرے وہ ہم میں سے کیسے ہو سکتا ہے۔ ایسا انسان تو خلائی مخلوق ہی ہو سکتا ہے لیکن ہم میں سے ہر گز نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).