بے شعور ووٹ کی کوئی توقیر نہیں


الیکشن کے دن جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں ہر شخص ،ہر فرد اور ہر ادارے نے جان توڑ کوشش کر رکھی ہے کہ جس طرح سے ممکن ہو سکے اپنے اختیار، اپنی اہلیت اور اپنی طاقت کی طاقت کو جس حد تک ممکن ہو سکے استعمال کر لے۔ اگر کوئی صحافی یا لکھاری ہے تو دھڑا دھڑ اپنی پسندیدہ جماعت اور شخصیت کی جیت کی پیشن گوئیاں کیے چلا جا رہا اور اس کوشش میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی بات کے زیر اثر آ کر اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔ کوئی تجزیہ کار یا اینکر ہے تو دھڑا دھڑ لوگوں اور عوام کے بیان پر بیان جاری کیے جا رہا ہے۔ تیر کا حامی پانچ سو جیالے لیے پروگرام پر پروگرام پھینک رہا ہے۔ نون لیگی متوالوں کا ہجوم لے کر ایڑھی چوٹی کا زور لگائے بیٹھا ہے اور کھلاڑیوں کے اسپورٹر اعداد و شمار اور حساب کتاب لگا کر ہر سمت سے پی ٹی آئی کی جیت کی قسمیں کھا رہے ہیں۔

غرض یہ کہ کوئی فرد ہے کہ ادارہ، چینل ہے یا پرنٹ میڈیا ہر کوئی اپنی طاقت اپنا زور آزمائے بیٹھا ہے۔ ان الیکشنز پر جس قدر ممکن ہو سکے اثر انداز ہونے کا بڑے سے بڑے صحافی سے لے کر اداروں کے مالکین تک، بیانات سے لے کر انٹرویوز اور مضامین تک، لفافے جیبوں میں ڈالنے والوں سے لے کر سچ کے علم برداروں تک؛ کون ہے جو نہیں چاہتا کہ عوام اس کی بات پر یقین کریں۔ اس کے اثر میں آئیں۔ تو پھر اگر کیمرے والے ہاتھوں سے لے کر قلم اور زبان والے اشخاص تک، بریانی کی پلیٹوں سے لے کر کیک کے وعدوں تک، معافیوں سے لے کر مستقبل کے واسطوں تک، خشک سالی سے لے کر منرل واٹر کی نہروں تک؛ ہر کیٹگری کے افراد اپنے اثر رسوخ کے جادو کا چراغ رگڑنے بیٹھے ہی ہیں تو ان میں اگر ایک جادو کی چھڑی فوج کی بھی چل پڑے تو آخر اس میں ہرج ہی کیا ہے، کہ ان کے پاوں میں بوٹ بھی ہیں۔ سروں پر سخت اکڑے ٹوپ بھی؛ جسموں پر وردی بھی اور ہاتھوں میں چھڑی بھی؛ تو ان کی طاقت اور اختیار کا بھی مطالبہ ہے کہ اس اثر رسوخ میں اپنا حصہ ڈالیں۔ پھر اگر ہر کسی کی طرح وہ بھی اک چھڑی گھما دیں تو مضائقہ ہی کیا ہے۔

شاید واویلا بھی اسی کا ہے کہ باقی سب اشخاص و اداروں کی نسبت ان کی طاقت بھی زیادہ ہے، اختیار بھی، اثر بھی، رسوخ بھی اور سب سے بڑھ کر وثوق بھی۔ تو اب عجیب سی ہوا چل رہی ہے کہ وہ فوج جو مقابلے میں ہے ہی نہیں ہر ایک پر بھاری ہے، اور ہر ہر بہانے سے، دائیں یا بائیں سے ہو کر، اس کا یا اس کا نام لے کر، نون لیگ کے ہارنے کی کہانی سے پی ٹی آئی کی جیت تک، ڈراماٹسٹ سے لے کر تجزیہ کار کے کالم تک، ایک ہی موضوع چل رہا ہے، ہر کوی گھما گھما کر ایک ہی طبلہ پیٹ رہا ہے، یوں لگتا ہے کہ اس بار جیت فوج ہی کی ہے۔ یعنی منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔

آج جو لوگ دھڑا دھڑ ووٹ کی عزت کو رو رہے ہیں تب کن سرنگوں میں دبکے خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں جب بریانی کی ایک پلیٹ پر پورا پورا قبیلہ بک جاتا ہے، جب برادری کے نام پر پورا شہر اک نااہل، بے ایمان اور کرپٹ افراد کو ووٹ دے آتا ہے، وہ سوڈو انٹیلکیچوئلز کہاں مست تھے جب ایک روٹی کپڑے اور مکان کے نعرے پر تین تین نسلیں کھیر کھا جاتی ہیں۔ جب ایک موٹر وے دکھا کر ساری قوم کے پاوں کے نیچے سے زمین کھینچ لی جاتی ہے۔ پاوں کے نیچے سے ووٹ نکالنے والے تب کہاں ہوتے ہیں جب تھر کے صحرا میں سیکڑوں بچے بھوک پیاس سے مر جاتے ہیں، اور جب قوم کی مائیں سڑکوں پر عوام کے بیچ میں بچے جنم دینے لگتی ہیں تو قوم کی بیٹی مریم نواز شریف کے نعرے لگانے والے کون سا نشہ لبوں سے جوڑے رام رام کرتے ہیں۔

جب ہزاروں لاکھوں قوم کی بیٹیاں اور بیٹے جو لاہور کراچی سے پرے جنوبی پنچا ب یا شمالی سندھ میں، اچھی تعلیم، اور روزگار کو ترستے ہیں کہ جن تک کوئی اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر، کوئی معیاری اسپتال، کوئی قابل استاد، کوئی محفوظ روزگار تک نہیں پہنچتا، ملک کے وہ تاریک گوشے جہاں کی خبر لینے کوئی ٹی وی چینل، کوئی اخبار تک نہیں پہنچتا۔ آخر کیوں ہر پڑھ لکھ کر قلم تھامنے والا استحصال کے خلاف لکھنے کی بجائے استحصال کا ساتھ دینے والوں میں شریک ہو جاتا ہے؟

فوج کی مداخلت کو گالی بنا دینے والوں سے میرا سوال ہے کہ تب آپ کیوں نہیں بولتے، جب سویلین حکومت ملک کے خزانے کو ذاتی زنبیلوں میں بھر لیتی ہے، جب رشوت سفارش اور اقربا پروری سے ملکی ادارے بنانے کی بجائے تباہ و بر باد کر دیے جاتے ہیں، جب آپ کے بچوں کے حق کی بہترین تعلیم چند اشرافیہ کے بچوں تک محدود کر دی جاتی ہے اور آپ کے حصے کا مفت معیاری علاج چند حکمرانوں کے خاندانوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ کیا اس لیے کہ آپ کی جیبوں میں اس کا معاوضہ ڈال دیا جاتا ہے یا اس لیے کہ آپ کو ہر معیاری سہولت تھالی میں رکھے پیش کر دی جاتی ہے۔

کار میں بیٹھے ہر شخص کو اس بات سے غرض نہیں کہ سائکل والا اور پیدل کیسے کیسے غلیظ پانی سے گزر کر زندگی کی شاہ راہ کو پار کر رہا ہے۔ ہمیں غرض صرف اس چیز سے ہے کہ فوج سیاست دانوں سے بریانی کی پلیٹ کا، عوام کو گدھا بنا کر ان کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کا، اور ان کے ڈنڈے کو انہیں کے سر مارنے کا حق نہ چھینے۔ دراصل یہ عوام کے حقوق کی جنگ نہیں سیاست دانوں کو استحصال کی اجازت دلوانے کی جنگ ہے۔ عوام یہ سمجھ رہی ہیں کہ اس حمام میں جتنے بھی نعرے فوج کے خلاف لگ رہے ہیں، یہ سب گلے سڑے کرپٹ سیاست دانوں کو بچانے کی مہم کا اک حصہ ہیں اور کچھ نہیں۔

فوج کی کرپشن، بد عنوانیاں، فلاں کر نیل، فلانا جرنیل، ضرور بات کیجیے کرپٹ افراد کو چاہے وہ جنرل ہو کہ سیاست دان، مگر چند افراد کے نام پر پورے ادارے کو بدنام مت کیجئے؛ اسی ادارے نے ہزاروں لاکھوں شہید بھی پیدا کیے جن کا نام بھی اکثر لوگ یاد نہیں رکھتے، چند کرپٹ جرنیلوں کے نیچے ہزاروں لاکھوں محنتی، مخلص محب وطن لوگوں کی فوج کو جو ہر وقت اپنی جان ہتھیلی پر لئے پھرتی ہے، آپ چند لوگوں کے اعمال کی سزا نہیں دے سکتے۔ دوسری طرف سیاست دانوں میں بڑے سے بڑے سیاست دان سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے کونسلر تک کی اکثریت بدعنوان، بے ایمان اور ضمیر فروش ان پڑھ سیاست دانوں سے بھری ہے۔

کیا پاکستان کی تقدیر میں یہ کاٹھ کباڑ ہی رہے گا؟ کیا پاکستان کی مٹی نے اہل، با ایمان باشعور تعلیم یافتہ لوگ پیدا کرنے بند کر دیے ہیں؛ تعلیمی ادارے ڈاکٹر، انجینئرز اور پروفیسرز پیدا کر کر کے ڈھیر لگا رہے اور حکمرانی کی ہما بیٹھ جاتی ہے۔ جعلی ڈگری ہولڈر کے سر پر، یہ کیسا ظلم ہے! ایمان دار افراد سڑکوں پر دھکے کھاتے مر مرا جاتے ہیں اور بے ایمان بیٹھے ہیں ایسی ایسی ایمان داری کی متقاضی کرسیوں پر۔ کیا یہ اس غریب قوم کے ساتھ اشرافیہ اور انٹیلیجینشیا کا مذاق نہیں؟

اگر صرف پچھلے تیس سال حکمرانی کرنے والی جماعتوں ہی نے اس قوم سے سب کچھ لوٹ کر صرف ان کو اچھی تعلیم ہی دے دی ہوتی، تو آج یہ قوم با شعور اور تعلیم یافتہ ہوتی،رٹا سبق یاد کرنے کی بجائے دماغ سے سوچتی، نعرے یاد کرنے کی بجائے مقاصد پر دھیان دیتی، اپنے حقوق و فرائض پہچانتی، اپنی نظروں سے حکمرانوں کا احتساب کرتی، تو آج ضرور اس عوام کے ووٹ کی کوئی عزت ہوتی۔ عزت اس ووٹ کی مانگیے جس کے پیچھے دماغوں کی سوچ اور شعور ہو۔ اس ووٹ کی کوئی عزت نہی جو بریانی کی پلیٹ دے کر، سال گرہ کا کیک کھلا کر، آنکھوں پر پٹی باندھ کر، زبانوں پر تالے لگا کر اور ان پڑھوں کے انگوٹھے لگوا کر حاصل کیا جائے۔

پھر چاہے یہ سیاست دان کے ہاتھ سے ڈلوایا جائے کہ وردی کے زور پر۔ خدارا ان بے شعور عوام کا مزید استحصال بند کیا جائے اور اس کے لئے اگر چھڑی کی بجائے بوٹ بھی چلانا پڑے تو چلا ہی دیا جائے کہ آخر کب تک یہ ظلمت کی شب نہ کٹ سکے گی؟ آخر کب تک قلم سے سچ کے نام پر لوگ جھوٹ لکھتے رہیں گے،کب تک حق کے نام پر حکمران بھیک میں بھی صرف دھوکا ہی دیتے رہیں گے؟

ایک گزارش آنے والی نئی حکومت سے بھی، اس قوم کو حکمرانوں کو سونے کے چمچے سے کھلانے اور خود پیٹ پر پتھر باندھنے کی عادت ہے، یہ خود ننگی زمین پر بیٹھ کر آپ کو مخمل پر بٹھا دے گی، اور سارے خزانے آپ کی جھولی میں ڈال کر بھی خود مفلسی کی چکی پیسے گی پھر بھی ووٹ آپ کا، بس ایک احسان کر دیجیے اس قوم پر،اس قوم کو خدارا علم دے جائیے، معیاری تعلیم دے جائیے، باقی چاہے سب لوٹ لے جائیں کہ اس قوم کی تقدیر تب تک نہیں بدل سکے گی، جب تک اس کے ہر فرد کے پاس تعلیم اور دماغ میں سوچ نہیں ہو گی۔

اس قوم کے فرد کے ووٹ کا کوئی معیار اور کوئی وقار نہیں جب تک اس کے پیچھے بریانی کی پلیٹیں ہوں گی۔جس دن یہ فیصلہ تعلیم اور شعور کی بنیاد پر ہونے لگا ووٹ کو عزت بھی ملے گی، وقار بھی اور عزت بھی، اور کسی کی مجال بھی نہ ہو گی کہ اس ووٹ پر اپنا بوٹ رکھ سکے۔ ہے کوئی ایسا لیڈر پاکستان کی زمین پر جو اس قوم کے کشکول میں تعلیم ڈال دے اور اس کے ووٹ میں یہ تاثیر ڈال دے۔ کوئی سیاست دان، کوئی جرنیل جو اس قوم پر یہ احسان کر دے کہ اسے سچ اور جھوٹ کا، صحیح اور غلط کا شعور دے دے۔ کوئی جو ان بے نور آنکھوں میں نور بھر دے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).