تحریک انصاف: دل اس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا


دھرنے کی طوالت نے نواز حکومت کو اپنے قدم جمانے کا موقع دے دیا۔ دوسری طرف جس طرح دھرنے میں عصمت اللہ جونیجو جیسے شریف افسر کی پٹائی کی گئی اور ٹیلی وژن پر حملہ کیا گیا، اس کے بعد ہم عمران خان سے مایوس ہونے لگے۔ ان کی دانش پر شدید سوالات پیدا ہو چکے تھے۔ اب نواز حکومت اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ اس نے دھرنے کو لفٹ کروانا چھوڑ دیا تھا۔ اب تحریک انصاف کی حالت اس ناراض بہو کی تھی جسے سسرال سے کوئی منانے نہ پہنچا تو وہ تنگ آ کر اپنی سسرالی بھینس کی دم پکڑ کر واپس پہنچنے پر تیار تھی کہ ”میں تو نہیں آ رہی تھی، یہی بھینس زبردستی لے آئی“۔ عمران خان کو دھرنا ختم کرنے کا یہ موقعہ آرمی پبلک سکول کے سانحے نے فراہم کیا۔

اب ایک ابتدائی جذبایت سے باہر آ کر ہم نے عمران خان میں مسیحا دیکھنا ترک کر دیا تھا۔ ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ پختونخوا میں عمران خان کیا انقلاب لے کر آئے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے بہت با اختیار ہو چکے ہیں۔ تعلیم، صحت اور دوسرے بہت سے معاملات میں ان کے پاس بہت اختیار بھی ہے اور پیسہ بھی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کیا کیا؟ کیا ادھر بورڈ میں سرکاری سکول پوزیشن لے رہے ہیں یا تحریک انصاف کے ایک لیڈر کا پرائیویٹ سکول؟ کیا ادھر سرکاری شعبے میں شوکت خانم کی ٹکر کا کوئی ایک بھی کینسر ہسپتال بنایا گیا ہے یا ادھر صرف عمران خان نے اپنا نجی کینسر ہسپتال ہی بنایا ہے؟

عمران خان کے کچھ اقدامات قابل تعریف ہیں۔ درختوں والا منصوبہ بہت اچھا ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی ہمیں شہباز شریف کی پنجاب حکومت، پرویز خٹک کی پختونخوا حکومت سے بہتر لگی ہے۔ تحریک انصاف کے دفاع میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ”شہباز شریف تو تیس سال سے حکومت کر رہا ہے، ہمیں پانچ سال ہوئے ہیں تو ہمارا اس سے تقابل کرنا غلط ہے“۔ اگر حکمران تبدیلی لانے والا ہو تو شیر شاہ سوری کی طرح آج سے پانچ سو برس قبل بنگال سے خیبر تک ایک بڑی سڑک بنا کر اس کے ہر دو کوس کے فاصلے پر آرام گاہیں بنوا سکتا ہے۔ طیب ایردوان کی طرح اپنے عوام کی زندگی میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ اور کام نہ کرنے والا ہو تو تیس برس بعد بھی یہ دلیل دے گا کہ ”انہیں تو ساٹھ برس ہو چکے ہیں، ہمارے تیس برس کا ان سے تقابل کرنا نا انصافی ہے“۔

کرپشن وغیرہ ہمارے ہاں ایک سیاسی سٹنٹ کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ سیاسی حریفوں کو کرپشن کے ذریعے ہٹانے کی سب سے پہلی مہم 1949 کے پروڈا قانون کے تحت چلائی گئی تھی۔ اس کے بعد ایوب کے ایبڈو، بعد کے تمام ڈکٹیٹروں اور 258 ٹو بی کی طاقت کے صدور نے اپنے سیاسی حریفوں سے جان چھڑانے کے لئے یہی بہانہ بنایا۔ جہاں تک ”دشمن سے تعلقات“ اور غداری کی بات ہے تو جس قوم کی مادرِ ملت ہی غدار اور دشمن ملک کی ایجنٹ قرار دی جا چکی ہوں، اس کو اس بارے میں مزید کیا کہیں۔

سیاست دان دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں، مگر ان پر کرپشن کے الزام میں پکڑ کرتے وقت صرف انہی کو پکڑا جاتا ہے جو مقتدر قوتوں کی مرضی پر چلنے کو تیار نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ 2002 کے انتخابات کے فوراً فیصل صالح حیات وغیرہ شدید کرپٹ تھے لیکن جیسے ہی انہوں نے مشرف کی ق لیگ کی حمایت کی تو وہ پاک صاف قرار پا گئے۔

قوم کرپشن کو برداشت کر لیتی ہے۔ ایک کرپٹ ترین حکمران بھی پانچ سال بعد تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکا جا سکتا ہے۔ لیکن قوم کے لئے اس کے منتخب کردہ شخص کو حکومت نہ دینا سولہ دسمبر 1971 کا دن دکھا دیتا ہے۔

عمران خان کو اب ہم سیاست میں ایک نہایت منفی کردار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے قول و فعل کا تفاوت پریشان کن ہے۔ جو معیار وہ دوسروں کے لئے سیٹ کرتے ہیں خود اس پر پورے نہیں اترتے۔ لیکن سب سے بڑھ کر ان کی سو خوبیوں پر ان کی ایک خامی بھاری ہے۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے پاکستان کی سیاست کو اس موڑ پر کھڑا کر دیا ہے کہ شہری اب سیاسی اختلاف کی بنا پر ایک دوسرے سے رشتے اور دوستیاں توڑنے لگے ہیں۔ بھٹو اور اینٹی بھٹو سیاست کے دنوں میں بھِی دونوں کیمپوں کے حامی ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوتے تھے۔

اب دونوں خنجر بکف کھڑے ہیں اور دوسرے کے خون کے پیاسے بنے کھڑے ہیں۔ جو جوتا نواز شریف پر چلا ہے، جو گولی احسن اقبال پر چلی ہے، کیا وہ پلٹ کر تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو نشانہ نہیں بنائیں گے؟ عمران خان نے اس زہر کا ایک ہلکا سا ذائقہ کراچی میں چکھ لیا ہے۔ کیا وہ اس روش کو جاری رکھیں گے یا قوم کو نفرت کی بجائے محبت سے معاملات طے کرنے کی طرف لے جائیں گے؟ دعا تو یہی ہے مگر امید نہیں ہے۔

چلیں بری بری باتیں چھوڑتے ہیں۔ ایک سدا بہار نغمے کا لطف اٹھاتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar