اقبال کی شاعری میں نیکی کا عسکری تصور


اقبال کے اُردو کلام سے وہ تمام اشعار الگ کیجئے جن میں اقبال نے مومن کا تذکرہ کیا ہے تو یہ دیکھ کر شاید آپ حیران رہ جائیں کہ اُن کا مردِ مومن زیادہ تر اشعار میں انسانی معاشروں کے برعکس میدانِ جنگ میں ’نیکی‘ کے جوہر دکھا رہا ہے ۔وہ انسانی بستیوں سے غائب مگر میدانِ جنگ میں ہر وقت حاضر ہے۔

کہیں وہ ’حق و باطل‘ کی اضداد میں پھنسا فولاد کی طرح بے لچک ہے اور اس کے نزدیک کسی کی ہار ہی اس کی جیت ہوسکتی ہے۔ وہ بے تیغ ہے تو ضروری نہیں کہ وہ عدم تشدد کا داعی ہو بلکہ تلوار کے بغیر بھی لڑائی میں مصروف ہے ۔ یوں اس بیچارے کے پاس اپنی نیکی اور عظمت کا کا سکہ جمانے کے لئے جنگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ۔ وہ نگاہوں سے تقدیر بھی بدلتا ہے پھر بھی ہتھیار زورِ بازو ہے ۔ کہیں وہ غازی و پُراسرار ہے تو ٹھوکروں سے صحراؤں اور دریاؤں کو ٹکڑوں میں بدل رہا ہے اور دلکش ہونے بجائے اس قدر ہیبت ناک ہے کہ پہاڑ وں کو ڈرا کر رائی کردیتا ہے ۔

ہر لحظہ ہے مومن جیسے معروف کلام میں مومن بلا شبہ ہر نئے دور کا امام دکھائی دیتا ہے ، وہ شبنم ہے جو جگر لالہ میں ٹھنڈک ڈال کر اپنے طوفانی پہلوؤں کو متوازن کرتا ہے ، کہیں بندہ خاکی کے عالمگیر ، تخلیقی و الہامی پہلوؤں کا عکاس ہے لیکن پھر بھی اُس کے میدانِ عمل کا اشارہ و کنایہ میدان معاشر ت نہیں، جنگ ہے ۔ مزید دیکھیں تو مومن دنیا کو مغلوب کرنے آیا ہے اور اگر وہ غالب نہیں پھر اس کا مومن ہونا مشکوک ہے اور غلبے کی منزل کی طرف جانے والا راستہ وہ معاشرتی کردار سے نہیں، تلوار سے بنا رہا ہے ۔ کہیں وہ دوسرے مذاہب کی عباد ت گاہوں (کلیساؤں) پر قابض ہوکر اذانیں دے رہا ہے تو کہیں تلواروں کی چھاؤں میں کلمہ پڑھ رہا ہے ۔ نسل انسانی کے لئے قضا ہے مگر اس لئے قابل ِ احترام ہے کیونکہ نماز قضا نہیں کرتا ۔

اقبال کا کیس ایک ادبی وقوعے کے طور پر کسی بڑے عصری نقاد مثال کے طور پر ڈیکلان کبرڈ ( Declan Kiberd) کے سپرد کیا جائے تو اس طرز کے کلام کو ادبِ عالیہ نہیں بلکہ ادبِ غالیہ یا پھر ’’انتہاؤں کا ادب‘‘ (literature of extremes) قرار دیں گے جس کا مقصد نسل پرستانہ غلو کی مدد سے ہماری لطیف حسیات کی آبیاری کے لئے نہیں بلکہ عسکریت پسندی کا ذوق پیدا کرنا ہوتا ہے ۔

ہم بے شک ریاستی سرپرستی میں انتہا پسندی کا ذوق پیدا کرنے والے اس تحریری مواد کو ادبِ عالیہ قرار دیں مگر ایسا ادب ہماری آنے والی نسلوں کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ اسلامی ممالک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجوہات سمجھنے کے لئے ہونے والی تحقیق میں یہ مسئلہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ انتہا پسند تحاریک نے نیکی کا عسکری تصور (militant-piety) عام کیا ہے اور یہی تصور ہمیں اقبال کی کھینچی ہوئی مردِ مومن کی تصویر میں تقریباً ہر جگہ دکھائی دیتا ہے ۔

اقبال کے اس طرزِ کلام کے سلسلے میں ہمارے ہاں مشکل یہ ہے کہ عسکریت پسند قوتوں نے اقبالیات کے نام پر ملک بھر میں قائم کئے گئے تحقیقی شعبوں کی مدد سے اقبال کے عسکری مردمومن کو فلسفیانہ رنگ دے کر لوگوں کو اس غلط فہمی کا شکار کررکھا ہے کہ اقبال کا مردِ مومن نطشے کے فوق البشر کا اسلامی ہونے کی وجہ سے منہ توڑ جواب ہے اور کلمہ گو ہونے کی وجہ سے مردِ فرنگی کے فوق البشر سے کہیں افضل اور خُدا کی آنکھ کا تارہ بھی۔

ایسا مواد چونکہ سرکاری یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے اس لئے اس بات پر یقین کرنے والے لاکھوں میں ہیں جنہیں امتحانات میں نمبروں کی خیالی قابلیت اور خاص طور پر سرکاری نوکری کے حصول کے لئے نطشے کے فوق البشر کو سمجھے بغیر اس پر اقبال کے مردِ مومن کی برتری تسلیم کرنا پڑتی ہے۔ اس لئے اگر ہم یہاں نطشے کے فوق البشر کو سمجھ لیں بے جا نہ ہوگا ۔

یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ فوق البشر کے تصور میں چھپا عمیق اور انتہائی بیش قیمت فلسفہ اس سوال کے جواب میں چھپا ہے کہ نطشے نے یہ تصور پیش کرنے کے لئے ایرانی پیغمبر زرتشت کا سہارا کیوں لیا؟

اس کا جواب نطشے نے خود دیا ۔ وہ سامی مذاہب کو غلام ساز مذاہب سمجھتا تھا جبکہ ایرانی زرتشت وہ پہلا پیغمبر تھا جس نے خیر و شر (good & evil) کا تصور پیش کیا ۔ یہاں نطشے ایک اہم اور باریک حقیقت کی رمزکشائی کرتا ہے کہ خیر و شر اور نیکی و بدی کی دو نیم اور اضداد میں منقسم حقیقت کا تصور صرف وہی دانا اور صاحبِ نظر پیش کرسکتا ہے جس نے خود خیر وشر اور دیگر اضداد کی سطحی دیواروں سے بلند ہوکر یہ دیکھ لیا یہ تقسیم محض پاتال میں پڑے لوگوں کو دکھائی دیتی ہے مگر دیوار کے اس پار دیکھنے والوں کو نہیں جو یہ راز پاچکے ہیں کہ اضداد کی یہ دیوار کہیں اور نہیں ان کے اپنے اذہان میں پڑی ایک گرہ ہے۔

اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ (نطشے کا) زرتشت کئی سال بعد پہاڑ سے اُتر کر انسانی بستی میں آکر لوگوں کو ان کی ہستی یا ہونے (being) کے امکانات کے بارے میں بتاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب تم فوق البشر بن جاؤگے تو اپنے جیون کے موجودہ ڈھنگ پر ایسے ہی ہنسو گے کہ جیسے آج تم ماضی میں بندر ہونے پر ہنستے ہو۔ تم آج اپنی موجودہ حالت پر راضی ہوکر نہ بیٹھ جاؤ۔ اس سے اوپر اٹھو۔ تم نے اس سطح سے بلند ہونے کے لئے کیا کیا ہے؟

نطشے کے فوق البشر کو بعد ازاں ہٹلر نے جنگجو بنا دیا مگر اقبال اپنے ہٹلر آپ تھے ۔ ان کا مردِ مومن ریڈی میڈ جنگجو تھا۔ اس کے برعکس نطشے کا حقیقی فوق البشر خود پسندی اور اضداد کی دلدل میں پھنسا انسان نہیں تھا کہ عمودی ارتقا (vertical-evolution) کی راہ پر چلنے والا انسان تھا ۔
یہاں پر واضح رہے کہ بندر سے انسان کا سفر انسان کا افقی ارتقا ٔ ہے جبکہ موجودہ انسان سے فوق البشر کا سفر عمودی ارتقا کیونکہ انسان کے موجودہ ذہنی ، شعوری و کر داری (Behavioural) سے بلند ہوئے بغیر بندر سے انسان کا افقی ارتقا (horizontal-evolution) بے معنی اور خطرناک ہے ۔ یوں اُس کے فوق البشر کے نزدیک اصل میدانِ عمل (میدان جنگ کے برعکس ) نفسِ انسانی ، فرد اور معاشرہ ہے اور یہی سوچ کر نطشے کا زرتشت پہاڑ سے اتر کر لوگوں میں آجاتا ہے جو ہنوز علم و حکمت کی بات سننے کے لئے تیار نہیں مگر رسی پر چلنے والے مداری کا تماشا دیکھنے میں دل چسپی رکھتے ہیں ، یعنی انسان کو ابھی تک اُس کھیل میں دل چسپی ہے جو بندر اور دیگر جانور آسانی سے کھیل لیتے ہیں ، اور ایسا ہی ایک کھیل جنگ اور فساد بھی ہے ۔ اس کے برعکس اقبال کے مردِ مومن کا میدانِ عمل (field-of-action) اس کی اپنی ذات اور معاشرہ نہیں بلکہ میدانِ جنگ (battle-field) ہے ۔


اوپر ہم نے اختصار کی پابندی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے محض چند مثالیں پیش کیں مگر اقبال کی شاعری ایسی بے شمار مثالوں سے اٹی پڑی ہے اور ہر ایک مثال دینا یہاں ممکن نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کا مردِ مومن لوگوں کے اذہان میں نیکی کے جنگی و عسکری تصور (militant-piety) کو راسخ کرکے انہیں بتاتا ہے کہ نیکی کا اصل میدان معاشرے یا انسانی ذات کی بجائے میدانِ جنگ ہے ۔ اقبال کے ہاں ملنے والی عسکریت پسند نیکی کا تصور نہ صرف خطرناک ہے بلکہ کچھ اسلامی معاشرتی اصولوں سے ٹکراتا ہے جن نیکی کا اصل میدان جنگ کے میدان کو نہیں معاشرے کو قرار دیا گیا ہے جہاں معاملات کے پلڑے میں انسان کی اخلاقی حقیقت کا میزان ہوتا ہے ۔

اقبال کے مردِ مومن کی کلمہ گوئی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگر اس کا موازانہ نطشے کے فوق البشر سے کیا جائے تو ثانی الذکر انسان کی شعوری ترقی کے لئے امرت جبکہ اول الذکر زہر دکھائی دیتا ہے ۔ ایسے میں نطشے کو مقامِ کبریا سکھلانے کی اقبالی تعلی کوئی علمی نکتہ سنجی نہیں بلکہ مولا جٹ کی بڑھک ہے کیونکہ نطشے کا فوق البشر مردِ مومن کی طرح نہ حق و باطل اور خیر وشر کی دلدل میں دھنسا ہے، نہ ہی اس کا کام کسی گروہ کی زمین یا عبادت گاہوں پر قبضہ یا غلبہ تھا ۔ فوق البشر کا فلسفہ تو انسان کو عمودی ارتقا کا راستہ دکھانے کے لئے تھا جو انسان کو ہر دور میں رہنمائی کرسکتا ہے کہ وہ موجودہ سطح سے اوپر اٹھ سکے ایسے میں کوئی اقبال کے مردِ مومن سے رہنمائی چاہتا ہے تو وہ اپنے آپ کو میدانِ جنگ کے علاوہ کہیں اور لے کر نہیں جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).