زمین زادے کا خواب


میدان خالی تھا۔ نہ کوئی پر تھا اور نہ کوئی پرندہ۔ مگر اب سب کے سب پرندے پرواز تیاگ کر نیچے کی طرف بہہ رہے ہیں۔ جیسے کوئی دودھ کی آبشار سنگلاخ میدان پر گرے اور سست رو ہوجائے۔ جیسے پہاڑ سے کوئی دیو سفید رنگ کا ریشم کا لاوا پگھلا کر انڈیل رہا ہو۔ لیکن یہ کیسے ہوا کہ پگھلے ہوئے سفید ریشم کا پانی بہنے کی بجائے مارچ کرنے لگا؟

ایک بار پھر منظر بدل گیا ہے۔ پیچھے سفید ریشم کی آبشار ہے تو آگے پتھریلی زمین پر اترنے والا ہر پرندہ صفیں بنائے، پر بھینچے، پیر سے پیر ملائے لفٹ رائٹ کہتا آگے بڑھ رہا ہے۔ لاکھوں پرندے زمین پر اتر آئے ہیں اور سب کی گردن ایک جانب مڑی ہے۔ ایسے مڑی ہے کہ متبادل سمت اگر موڑ دی جائے تو شاید ٹوٹ جائے۔ گردن نہیں مڑ سکتی مگر دوسری جانب بھی کچھ موجود ہے۔
دوسری جانب جنگل ہے۔ سر سبز گھنا جنگل جس کے کنارے خس کی جھونپڑی کے ٹوٹے ہوئے دروازے سے ایک بڑھیا بیٹھی ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ چاند پہ سوت کا ت کر ابھی زمین زمین پر اتری ہے۔ بڑھیا ننگ دھڑنگ بچوں میں چاول بانٹ رہی ہے لیکن جنگل کے دوسرے کنارے سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ کسی گدھ کے پروں سے ایسی چنگاریاں نکلی ہیں کہ جنگل میں آگ لگ گئی ہے۔

پرندوں کی آبشار اور فضا میں ان کی اڑان کا شور ہے تو بڑھیا کی بوری خالی ہوتی چلی جارہی ہے۔ پرندوں کے پروں کی آواز میں آندھی کا سا شور ہے، لال آندھی کا شور جو صرف اُس وقت چلتی ہے جب کسی کا ناحق خون ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کوئی ملک الموت کے لہجے میں بول رہا ہے یا پھر یہ زمین پر پانی کے گرنے کی آواز ہے جو چھت کو چھوتے ہی پرندہ بن جاتا ہے۔ میکانکی پرندہ۔ پرندے قریب آتے آتے صاف دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہ کبوتر کے دھڑ اور اُلو کے سر والے پرندے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ان کے سر کسی فیکٹری میں لگائے گئے ہیں۔ یہ سب کون کررہا ہے؟ پرندے ایسے کیوں چل رہے ہیں؟ پرندے مشینوں کی طرح تو نہیں چلتے۔ ان پرندوں کو چابی کون دے رہا ہے؟

اب پروں کا سیلاب سیڑھیوں سے اتر کر گلی میں آگیا ہے۔ پیچھے اترنے والے پرندوں کی آبشار ہے تو آگے ٹڈی دل فوج مارچ کرتے کرتے گلی میں آگئی ہے۔ گلی ایک شاہراہ ہے۔ ایک بہت بڑی شاہراہ جس میں ہزاروں تنگ و تاریک گلیاں ہیں۔ گلیاں اس قدر تنگ ہیں کہ ہر آدرش یہاں سر جھکا کر گزرتا ہے یا پھر اپنا سر کٹا لیتا ہے۔ شاید یہ گلیاں کٹے ہوئے سروں کے پہاڑ کی سرنگیں ہیں۔ اگر کوئی ان سے گزر سکتا ہے تو صرف وہ جس نے اُلو کا سر پہن رکھا ہو۔

مارچ کرتے پرندے ان گلیوں میں گھس رہے ہیں جیسے چیونٹیاں بلوں میں داخل ہوتی ہیں۔ گلیوں، ہزاروں گلیوں کے دوسرے سرے پر ایک کھلا میدان ہے۔ میدانِ حشر جیسا کھلا میدان جس میں لال رنگ کا بہت مائع قالین بچھا ہے اور قالین گاڑھے منجمد خون کی طرح چمک رہا ہے۔

غضب کی سرانڈ ہے کوئی صاف دماغ اگر یہاں قدم رکھے تو اس کا دماغ نیچے بچھے سرخ مائع قالین پر تیرتا ہوا دھبہ بن جائے۔ میدان میں پرندوں کے بھاری بوٹوں کی آواز ان سے پہلے پہنچ رہی ہے۔ پرندے ابھی غار میں ہیں مگر۔ رن کانپ رہا ہے۔ میدان میں لاکھوں ستون گڑھے ہیں، ہر ستون پر ایک گدھ براجمان ہے، ہر ستون پر ایک نعرہ درج ہے اور پرندوں نے ان ستونوں پر پہردہ دینا ہے۔
ستون ختم مستقیم پر گاڑھے گئے ہیں جن کے آخری میں ایک صراط ہے مگر پُل نما نہیں اور پھر ایک بڑا چبوترہ۔ چبوترے کے پیچھے ایک بہت بڑی فیکٹری ہے جہاں سیال علامتوں کو پتھرانے کا مقدس کام جارہی ہے۔ فیکٹری سے لال رنگ کا دھواں نکل رہا ہے۔ آسمان کا رنگ بھی نیچے بچھے قالین جیسا لال ہے یا پھر تھوڑی دیر پہلے چلنے والی آندھی نے سارا خون آسمان کے دامن پر تھوک دیا ہے۔ سب سے بڑا گدھ اس ستون پر بیٹھا چلا رہا ہے ’آسمان کا دامن اجلا ہے ‘۔

چبوترے پر لاتعداد بچے لائے جارہے ہیں۔ یہ سب بچے بڑھیا سے چاولوں کی خیرات لے کر پہنچے ہیں۔ بچوں کے چہروں پر نہ کوئی تاثر ہے اور نہ آنکھوں میں کوئی چمک۔ لگتا ہے یہ سب فاقوں کی نذر ہوگیا۔ گدکھ ان کی آنکھوں سے نوچ کر خوابوں کے ریشے چبا رہے ہیں۔ آنکھوں کے بعد بچوں کی جھولیوں میں چھیدکیے جارہے ہیں جن سے رزق چھن چھن نیچے کررہا ہے۔ پرندے چگنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ جنگل میں آگ لگ چکی ہے اور آگ کی حدت سے آسمان کے دامن پر جما خون پگھل کر نیچے قالین کو مزید گف دار کررہا ہے۔

آسمان کا رنگ صاف ہونے لگا ہے اور اس پر سفید بدلیاں تیرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ جیسے گہرے نیلے پانیوں پر تیرنے والے برف کے تودے۔ بچوں کے چہروں پر تازگی آرہی ہے اور گدھوں کے رنگ اڑنے لگے ہیں۔ پھر اچانک شور اٹھتا ہے۔ آسمان کو زمین کا خون چاہیے۔ آسمان بھوکا ہے۔ دیکھا نہیں۔ اس کا سُرخ رنگ، خون سے چمکتا دمکتا رنگ نیلا پڑ رہا ہے۔ گدھ لاؤڈ سپیکرز پر اعلان کررہے ہیں کہ سورِ سرافیل پھونکا جارہا ہے۔

آسمان کو خون چاہیے۔ پرندے رُک گئے ہیں اور ان کی گردنوں میں جھکاؤ آگیا ہے۔ سپیکرز پر آسمان زادے چلارہے ہیں۔ ”زمین کا آقا پیاسا ہے۔ اُسے خون چاہیے ‘‘۔ زمین زادوں کے گلے پر چھری چلائی جارہی ہے اور اس میدان سے باہر، جلتے جنگل، سلگتے کھیتوں کے کنارے بیٹھی بڑھیا بین کررہی ہے۔

آسمان زادے میرے بچے کھا گئے۔
ایک بار پھر میدان خالی ہے۔ نہ کوئی پر ہے نہ پرندہ۔ لیکن اس بار نہ جنگل ہے، نہ بڑھیا اور نہ کھیت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).