حوالدار حکم داد اور ایوب دربدر ایک ہی یونٹ کے سپاہی ہیں


یہ انتخابات 2018 سے پہلے آخری کالم ہے۔ کہر آلود چوٹیوں اور دھند میں لپٹی گھاٹیوں سے گزرتے ہوئے ہم ملکی تاریخ کے گیارہویں عام انتخابات تک آ پہنچے ہیں۔ روایت کے مطابق بنی اسرائیل دو ہزار برس تک صحرا میں بھٹکتے رہے تھے۔ ہماری آزمائش کا آٹھواں عشرہ شروع ہو چکا ہے۔ بنی اسرائیل کو دعوی تھا کہ انہیں خالق کائنات نے چنیدہ گروہ قرار دیا ہے۔ ہمارے امتحان کی کوئی الوہی وجہ معلوم نہیں سوائے اس کے کہ آسمان سے اترنے والی ہر آفت خانہ انوری کا پتہ پوچھتی نمودار ہوتی ہے۔ یہ طے ہے کہ آئندہ بدھ کو ہونے والی انتخابی مشق متنازع ہو چکی ہے۔

وہ لباس جو ابھی پہنا ہی نہیں گیا، اس کے دامن کا چاک گریباں کے چاک تک جا پہنچا ہے۔ ابھی حوادث کے موسم ہیں۔ بارش بھی ہونا ہے۔ سوزن کاروں اور خیمہ دوزوں نے کوئی سائبان کھڑا نہیں کیا، کسی بادبان کی بخیہ گری نہیں کی۔ سوال مگر آج کی مشکلات اور اندیشوں کا نہیں، اکیس کروڑ کے اس قافلے کو بالاخر اس وادی میں پہنچنا ہے جہاں ہری گھاس پر دھوپ کا میلہ سجے گا۔ آج کے اندیشوں کے حصار میں لکھنے والے کے اس اعتماد کی کیا بنیاد ہو سکتی ہے؟

1907ء میں برطانوی راج کے کارندے حسرت موہانی کو گرفتار کرنے آئے تو انہوں نے زمین پر لیٹ کر گھاس کو انگلیوں میں جکڑ لیا۔ زبردستی اٹھایا گیا تو دونوں مٹھیوں میں گھاس کی کچھ پتیاں بھی چلی آئیں۔ حسرت موہانی کی مٹھیوں میں گھاس کی یہ پتیاں استعارہ تھیں کہ اس دھرتی پر رہنے والے زور آور کے جبروت کو پرکاہ کے برابر حیثیت نہیں دیتے۔ امریکی تاریخ میں انسانی عظمت، مساوات اور آزادی کے گیت گانے والا ایک شاعر والٹ وٹمن گزرا ہے۔ 1892 میں مرنے والے والٹ وٹمن کا شعری مجموعہ ’گھاس کی پتیاں‘ کے نام سے شائع ہوا۔ والٹ وٹمن کے شعر میں گھاس کی پتیاں امریکی قوم کی عظمت کا اشارہ دیتی ہیں تو ہم حسرت موہانی کی مشت گیاہ سے مایوس کیوں ہوں؟

1919ءمیں ہمارے بوڑھوں اور بچوں کے خون آلود لاشوں سے جلیانوالہ باغ کا کنواں اٹ گیا تھا۔ ہماری آزادی کے ایک رہنما نے 1930ءمیں ڈانڈی کے مقام پر ساحل سمندر سے نمک کی ایک چٹکی اٹھا کر برطانوی راج کو للکارا تھا۔ عدم تشدد کا پرچم اٹھانے والے ہمارے پرکھوں نے قصہ خوانی کی گلیوں کو رنگین کیا تھا۔ لاہور کے شاہی قلعے کا ایک پرانا اہلکار سینہ پھلا کر جے پرکاش نرائن اور آزادی کے دوسرے متوالوں پر اپنے ماہرانہ تشدد کی کہانیاں سنایا کرتا تھا۔ ہماری چار نسلوں نے نوے برس تک آزادی کی لڑائی اس لیے نہیں لڑی کہ کسی کی کم نگاہی کا خراج سمجھ کر اس سے دستبردار ہو جائیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان کی مملکت یہاں پر رہنے والوں کی رائے سے چلائی جائے گی۔ ہماری قوم کے بانی نے ہمیں بتایا تھا کہ جمہوریت، مساوات، انصاف اور امن کے لیے سینہ سپر ہوں گے تو دنیا کی کوئی ایسی ترقی نہیں جو ہماری دسترس سے دور ہو۔ ہم نے بابڑہ سے ڈھاکہ تک، لیاقت باغ سے کھچی پھاٹک تک، بلوچستان کے قلی کیمپ سے حیدر آباد کے پکا قلعہ تک، ٹیکسٹائل کالونی ملتان سے کراچی کے کارساز تک لہو کا تاوان اس لیے نہیں دیا کہ ہوا کے دوش پر تیرتی افواہوں سے خائف ہو کر صحافی اپنا قلم رکھ دے اور سیاسی کارکن اپنی دلیل سپرانداز کر دے۔

ہم نے لیاقت علی خان اور بھٹو کا لہو اس لیے ارزاں نہیں کیا کہ دستور سازوں کی منشا سے منہ موڑ لیں۔ ہم نے حسن ناصر، اسد مینگل، نذیر عباسی، حمید بلوچ اور عثمان طوطی کے جوان لاشے اس لیے نہیں ڈھوئے کہ اندھیرے سے خوفزدہ ہو کر پسپا ہو جائیں۔ پاکستان ہمارا وطن ہے، ہمارے وطن کی معیشت کی حالت اچھی نہیں، علم میں ہم کوتاہ رہ گئے ہیں، انصاف کے میزان میں ہم سبک پائے گئے لیکن ان سب حقیقتوں سے بڑا سچ یہ ہے کہ ہم نے غربت کو اپنا مقدر تسلیم نہیں کیا۔ ہم نے آوازہ جہل کی تائید نہیں کی۔ ہم نے ناانصافی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی۔

ہم نے جنوری پینسٹھ میں صدارتی انتخاب ہارا، جمہوریت کی لڑائی نہیں ہاری۔ دسمبر 1970 کے انتخاب میں بندوق کی گولی کاغذ کے ووٹ پر غالب نہیں آ سکی۔ ہم نے جولائی 77ءمیں ووٹ کی حرمت رہن نہیں رکھی۔ ہم نے اگست 90میں ہونے والی ناانصافی کا 2012 تک تعاقب کیا۔ ہم نے نوے کے عشرہ زیاں میں بھی آئینی ترمیم کے ذریعے اٹھاون ٹو (بی) ختم کیا۔ ہم نے سولہ برس تک شہریوں کے بیچ بلا تفریق مساوات کے لیے مخلوط انتخابات کا مطالبہ زندہ رکھا۔ ہم نے صوبائی خود مختاری کے لیے سینتیس برس تک جدوجہد کر کے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ مقصد حاصل کیا۔ لاطینی امریکہ سے لے کر افریقہ اور ایشیا تک کوئی دوسری قوم ایسی نہیں جس نے پرامن سیاسی مکالمے کے ذریعے بندوق بردار جنتا سے چار لڑائیاں جیتی ہوں۔

ہم نے استبداد کے جھکڑوں کا جمہوری ارتقا کی موج نسیم سے مقابلہ کیا ہے۔ بہت دفعہ ایسا محسوس ہوا کہ شاید اب کوئی امید باقی نہیں لیکن پاکستان میں دیانت دار، ذہین اور جفاکش لوگوں کی کوئی کمی نہیں۔ ہم اپنی اجتماعی فراست سے کسی بھی آفت کا منہ پھیر سکتے ہیں۔ تاریخ عدالت سے لیا گیا فیصلہ نہیں، بلکہ بنتے بگڑتے رنگوں سے ترتیب پاتی وہ تصویر ہے جس کے دوام کی گواہی آئندہ نسلوں سے لی جاتی ہے۔ 2018ءکے انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی ہو، اس ملک میں آئین کی بالادستی، عوام کی رائے کے احترام اور معیشت کی ترقی کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔

تین سو ارب روپے کی بدعنوانی اور سوئس بینکوں سے چھ کروڑ ڈالر واپس لانے والے ایک جسٹس اینڈ ٹروتھ کمیشن کے ذریعے اس مالی، تمدنی، علمی اور سیاسی نقصان کا تخمینہ لگا دیں جو ہمیں ستر سال میں لولی لنگڑی جمہوریت کے صرف پچیس برس دے سکا۔ جس کھیت میں وقفے وقفے سے جمہوریت کی پنیری برباد کی جاتی ہے، وہاں سے قومی ترقی کا طرحدار پرندہ رخصت ہو جاتا ہے۔

پچیس جولائی اب دور نہیں۔ لوگ اپنے ووٹ سے بتائیں گے کہ انہوں نے قومی ریاست کے اندر ناجائز مفادات کے جزیروں کی نشاندہی کر لی ہے یا نہیں؟ مجھے نارائن گنج کے بینک سے پینتیس کروڑ روپے لوٹنے والے کا نام یاد رکھنے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی، میرا رکھوالا تو بوگرہ محاذ کے مورچے میں بیٹھا حوالدار حکم داد تھا۔ جو حکم ملنے کے باوجود ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں تھا کیونکہ اس کے پاس ابھی گولیوں کے دو میگزین باقی تھے۔ حوالدار حکم داد اور لاہور میں جمہوریت کا کارکن ایوب دربدر ایک ہی یونٹ کے سپاہی ہیں کیونکہ دونوں پاکستان کا پرچم بلند رکھنا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).