آبائی مخلوق اور چکوال میں منصوبۂ دھاندلی


آبائی علاقہ چکوال ہے۔ مغرب سے کچھ پہلے کا وقت رہا ہو گا جب وہاں پہنچے ہلکی پھلکی خنکی شروع ہو چکی تھی۔ لڑکپن کی ابتداء تھی گھر سے سینکڑوں میل دوری پر تھوڑی بہت اداسی تو مجبوری تھی۔ نام پتہ ولدیت اندراج ہوا زادِ راہ پہلے ہی سب نے ایک جانب جمع کروا دیا تھا ہلکی ہلکی بارش شروع ہو ئی تو خنکی نے یخ بستگی کا لبادہ اوڑھا۔ لاہور کی گرمی سے یہاں پہنچے تھے احساسِ ٹھنڈک احساسِ ندامت کی مانند گھیرنے لگا چند لمحوں میں اندھیرا آن پہنچا کھانا کھانے کا حکم ہوا۔ کمال خوبصورت وسیع و عریض ڈائینگ ہال، دائیں بائیں خدمت میں پیش پیش خدام، شاندار خوان حاضر۔

بمشکل چند ہی نوالے زہر مار ہوئے تھے کہ چنگھاڑتی آواز آئی ”جینٹلمین الحمدللہ“ سب باہر نکل کر لان میں کھڑے ہو جائیں۔ بارش میں پینٹ کوٹ ٹائی سب گیلے کچھ دیر عجب انداز مہمان نوازی رہا۔ بارش میں ہی لاتعداد اٹھک بیٹھک الٹ بازیاں کروانے کے بعد چند احکامات سنائے گئے اچانک ایک میزبان بولے جن جن کا آبائی علاقہ چکوال ہے ذرا ایک طرف ہو جائیں۔ ہم فخر سمجھ کر فوراً گروہ بے زباناں سے باہر نکلے چند اور بھی ہمراہی ہوئے ایک جانب ہم سب کھڑے ہوئے تو وہی میزبان آئے اور انداز بے اعتنائی سے پوچھا تو آپ سب ہیں جو ’یونائیٹڈ اسٹیٹ آف چکوال“ سے آئے ہیں؟ ہم خوشی سے پھولے کہ ہمارے ساتھ اعزازی سلوک ہو گا پر جو ہوا وہ کمال کا امتیازی سلوک تھا اور ایسا امتیازی سلوک جو آج بھی یاد آتا ہے تو کمر سیدھی کر کے ہڈی توڑ انگڑائی لینے کو من چاہتا ہے۔

یہ تھی آج سے تیس سال قبل ہماری پی ایم اے کاکول میں افسر بننے کے شوقِ جنون کی پہلی رات کی رواداد۔ پھر چند ماہ و سال ”ٹی بریک“ لیتے ہوئے گزرے۔ آج میرا اور نواز شریف کا دکھ اور سوال مشترکہ ہی ہے ”ہمیں کیوں نکالا“؟

قائرین کرام! ضلع چکوال فوجی اعتبار سے پوری دنیا میں ایک منفرد مقام کا حامل مقام ہے جس کے ہر گاؤں میں ایک سپاہی سے لے کر جرنیل تک موجود ہے جس کی ہر ڈھوک ہر پہاڑی ہر قصبے کے قبرستان میں سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے جس کے صرف ایک چھوٹے گاؤں میں 1965ء سے لے کر آج تک 18 شہید علامتِ فخر موجود ہیں جن میں سپاہی سے لے کر جرنیل تک شہید ہیں۔ چکوال کی بہت بڑی آبائی مخلوق کا تعلق خلائی مخلوق سے ہے۔ وہ خلائی مخلوق جس کے دیے گئے بچوں میں سے چند سیاست دان اب اس کی ناخلف و نا فرمان اولاد کا روپ دھار چکے ہیں۔ جن کا ہنگامہ کیوں ایک مخصوص سمت میں ہی بڑھ رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے اس کے لیے اندرونی حالات سے زیادہ بین الاقوامی ماحول اور سازشوں کو سمجھنے اور لکھنے کی ضرورت ہے۔ اس پر قلم کشائی موخر سہی۔

فی الحال بات کو آمدہ الیکشن اور آبائی مخلوق کی اس میں دخل اندازی برائے دھاندلی پر گمان سے گیان کی طرف آتے ہیں۔ شوروغوغا کو اب جوار بھاٹے میں تبدیل کرنے کی کوشش جاری ہے کہ خلائی مخلوق الیکشن میں دھاندلی کر رہی ہے اور پولنگ والے دن چونکہ سب کچھ ان کے زیر پہرہ ہے اس لیے بہت بڑی دھاندلی کی جائے گی۔ ما بدولت کو خود چند سال سیاست میں بطور امیدوار الیکشن لڑنے سے لے کر بھرپور متحرک رہنے کا تجربہ ہے۔ بعد میں اس شجر ممنوعہ کی سمجھ آئی تو توبہ النصوع نصیب ہوئی۔

مگر یہ سوال کئی سنجیدہ اور صاحبِ حال دوستوں سے بھی پوچھا کہ دوران پولنگ ہر پارٹی کا ایجینٹ ہر بوتھ میں تمام وقت موجود رہتا ہے، ہر امیدوار اپنے حلقے کے تمام ایجنٹس سے تمام فارم لے کر تمام شماریات انجام دے سکتا ہے۔ اب ایک ہی صورت بچتی ہے اور وہ ہے سر عام بدمعاشی کی، جو کہ سوشل و دیگر میڈیا کے ہوتے ہوے ذرا قدرے مشکل ٹھہری ہے یا پھر الیکشن کے بعد الیکشن کے نتائج یکسر ہی تبدیل کر دیے جائیں۔ ایسا بھی ہو تو امیدوار میڈیا کے سامنے یا عدالت جا سکتا ہے اور جاتا بھی ہے۔

ایک شنید یہ رہی کہ امیدواروں کو الیکشن سے پہلے مختلف حربوں سے وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا اور عدالتیں بھی صرف موافق کیس ہی سنتی ہیں۔ مٹی ماں سے وفا نہیں تو بھلا کون سی وفاداریاں۔ خیر دوبارہ چکوال کی طرف آتے ہیں کہا جا رہا تھا کہ سردار عباس کو نواز لیگ سے ہٹا کر تحریک انصاف میں شامل کیا گیا تاکہ چکوال کی چھ کی چھ سیٹیں جو ن لیگ کی ہیں سب شاید فارغ ہو جائیں۔ اگر سردار عباس رہتے تو بہت مختلف صورت حال ہو بھی سکتی تھی مگر اسی عدالت سے سردار عباس ایک ایسے جرم کی پاداش میں ساری عمر کے لیے نا اہل ہو گیے کہ سب انگشتِ بدنداں ہیں۔

پورے ضلع میں دوبارہ ن لیگ کی پوزیشن بحال ہو گئی۔ چکوال میں ن لیگ کے تمام سابقے لاحقے امیدوار آج بھی ن لیگ پر ہی بھرپور الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ایک بھی امیدوار یا بڑا دھڑا نہیں ٹوٹا الٹا تحریک انصاف یہاں خاصے اندرونی اختلافات کا شکار نظر آتی ہے اب خدا جانے یہ کیفیت کس خلائی مخلوق نے پیدا کی ہے، میجر طاہر اقبال خلائی مخلوق میں سے ہی ہیں مگر ڈٹ کر ن لیگ پر قائم و شاداب الیکشن لڑ رہے ہیں جب کہ صاف پانی جیسا بڑا کیس بھی کھلا ہوا ہے۔

تنویر اسلم بارہا ن لیگ کے اہم ترین تعمیراتی وزیر رہے ہیں اور نیب میں کیس چل رہا ہے مگر کھل کر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ حیدر سلطان بظاہر صاف الیکشن جیتتے ہوے نظر آ رہے ہیں۔ پرویز الہی کا پلڑا فی لحال بھاری ہے مگر اس کی وجہ صرف ن لیگ کی اندرونی پالیسی ہے جس نے آخری لمحات میں ممتاز ٹمن کو فارغ کر کے فیض ٹمن کو ٹکٹ جاری کر دیا۔ شہر یار اعوان مظبوط پوزیشن اختیار کرتے جا رہے ہیں یہ سب لوگ ن لیگ کے امیدوار ہیں۔ کسی میڈیا یا عوام کے پاس کوئی رپورٹ نہیں ان میں سے کسی کو بھی زیر دباؤ لایا گیا ہے یا ان کے مخالفین کی مدد کی گئی ہے ہاں البتہ اس کے برعکس کچھ نشاندہیاں موجود ہیں۔ کسی قسم کی کسی سرکاری دخل اندازی کا ایک معمولی سا واقع رپورٹ یا منظر عام پر نہیں آیا۔

کسی مخلوق کے جو معاملات زیر تنقید ہیں وہ مخلوق ماضی میں کسی نا کسی صورت میں سیاست دانوں اور عوام کی مرضی سے درمیان میں بار بار نازل ضرور ہوتی رہی ہے یہ اسی دفعہ کوئی نئی بات نہیں۔

کاش ہم عوام موقوف الفطرت قوتوں کے غیر مرئی ہاتھوں میں کھیلنے سے محفوظ رہیں اور خلائی مخلوق کو زمین پر اترنے پر ایک بس پھر مجبور نا کریں کیوں کہ اگر ہم گزشتہ صدی پر غور کریں تو دین سے لے کر معاشی و حکمرانی کے نظاموں کو تلپٹ کرنے کی بد ترین سازش میں ایک کامیاب ترین ہتھیار یہ بھی رہا ہے کہ قوموں میں، ممالک میں، مذاہب میں ایسے معاملے پر بحث شروع کرا دی جائے جو آگے جا کر بد ترین تفریق کا باعث بنے۔ خدا ہمیں دشمنانِ وقت کی اس خطرناک ”دھاندلی“ سے محفوظ رکھے اور بصیرت عطا کرے کہ میں ہم سب اور ہمارے سب ادارے اس وطن پاک کی آبائی مخلوق ہی رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).