کیا ضمیر کی آواز پر ووٹ دینا واقعی ممکن ہے؟



آج الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے میرے موبائل فون پر ایک پیغام موصول ہوا جس کا مفہوم کچھ یوں سمجھ میں آیا ” 25 جولائی کو اپنا ووٹ کا حق استعمال کریں۔ آپ کا ووٹ آپ کے ضمیر کی آواز ہے ‘‘۔

اپنے ضمیر کو لعنت ملامت کرتے ہوئے احساس ندامت میں ڈوبا جارہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ اگر میں نے کسی زمانے میں مشرف کے ریفرنڈم میں حصہ لیا تھا یا ق لیگ کو ووٹ دیا تھا او ر وہ بھوکی ننگی قوم کی تقدیر نہیں بدل سکے تو میں کہاں تک قصور وار ہوں؟ ہر بار عوام کے ان نمائندوں کے قوم کی تقدیر بدل ڈالنے کے وعدے پر اعتبار کرتے ہوئے، اگر میں پیپلز پارٹی یا ن لیگ کو بار بار منتخب کرا کے اپنے ملک پاکستان کی بھاگ ڈور ان کے سپرد کرتا رہا ہوں، اور وہ رہنما اسی وطن کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہے ہیں تو کیا میں بے ضمیر ہوں؟ کیا ان عوامی نمائندگان کو میں نے کہا ہے کہ تم میری نمائندگی کرو۔ میں ایک شریف آدمی ہوں میں کیسے ایک بدقماش کے حق میں رائے دے سکتا ہوں۔ میں ایک ایماندار شخص ہوں کیسے ایک خائن کو دولت کی حفاظت پر مامور کرسکتا ہوں۔ ایک چور کو کیسے کہہ سکتا ہوں کہ تم میرے گھر کی رکھوالی کر و۔

میرا ذہن ہے کہ سوالات در سوالات میں الجھتا جارہا ہے۔ یقیناً نہ تو مجھے یہ حق حاصل ہے اور نہ ہی ایک عام شہری کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ الیکشن میں کون حصہ لے سکتا ہے اور کون نہیں۔ تو پھر عوامی نمائندگی کے اس عمل میں کون یہ فیصلہ کرتا ہے کہ فلاں شخص اس قابل ہے کہ اسے نظام مملکت میں شامل کیا جاسکتا ہے یا پھر وہ اس بار امانت کو اٹھانے کے لئے نا اہل ہے؟ کتنے لوگ ایسے ہیں جنھوں نے سابقہ حکومتوں میں حسب ظرف لوٹ مار کی اور پھر بھی انھیں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی؟ اس وقت کتنے افراد یا خاندان ایسے ہیں جو گذشتہ لوٹ مار کرنے اور ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے والی حکومتوں کا اہم یا غیر اہم، کلی یا جزوی حصہ رہے اور ان کی لوٹ مار کے باوجود انھیں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت کس نے دی؟

کتنے لوگ ایسے ہیں جو دہائیوں سے مختلف حکومتوں کا حصہ رہنے کے باوجود اپنے علاقے کی ترقی کے لئے کوئی خاطر خواہ منصوبے مکمل کرنے میں ناکام رہے لیکن ایک بار پھر وہ الیکشن میں حصہ لے کر عوام سے وہی پرانے وعدے دہراتے پھر رہے ہیں؟ کتنے بے ضمیر شریک مقابلہ کو کسی پیمانے اور معیار پر پرکھ کر یہ دیکھا گیا ہو کہ آیا ان کا ضمیر زندہ ہوگیا ہے یا پھر ابھی تک وہ مردہ ضمیری کا شکار ہیں؟ ایفڈرین کے بین الاقوامی سمگلر کو کس نے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی؟ قاتلوں سمگلروں ٹیکس چوروں قبضہ مافیا کو کس نے اہل قرار دی؟ کیا کروں سوالوں کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

ایک حلقے میں بالفرض دس بدعنوان لوگ دے دیے جاتے ہیں اور عوام سے کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک بدعنوان کو منتخب کرو۔ پھر وہاں پر ضمیر کی بات نہیں ہوتی۔ وہاں پر ہر امیدوار وہ کھیل کھیلتا ہے جو اس نے عوامی نمائندہ منتخب ہونے کے بعد وسیع پیمانے پر کھیلنا ہوتا ہے۔ الیکشن کے دنوں میں وہ اس کی صرف ایک جھلک ہی دکھا سکتا ہے۔ اصل کھیل باقی ہوتا ہے۔

ہمارا معاشرہ ذہنی، اخلاقی، نفسیاتی، روحانی طور پر ایک بیمار معاشرہ ہے۔ ہم اپنے نمائندے کا انتخاب ضمیر کی آواز پر نہیں کرتے۔ کون سا نمائندہ اس کے زانی اور نشے کا دھندہ کرنے والے بیٹے کی پشت پناہی کرے گا۔ کون ٹیکس، بجلی اور گیس چوری میں اس کی مدد کرے گا۔ کون ہے جس کے دور حکومت میں مزے ہی مزے ہوں گے۔ آج آپ نے دیکھا کہ ایفڈرین کے بین لاقوامی سمگلر کو سزا سنائی گئی تو اس کے حامیوں نے عدالت کا کیا حشر کیا۔ ہم نہیں جانتے کہ ذاتی مفا د اور ملکی مفاد میں کیا فرق ہے۔ ہم میں اتنا حوصلہ نہیں کہ ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر قربان کردیں۔ جہالت اور عدم شعور نے ہمیں اس سطح پر گرا دیا ہے کہ ہمیں اپنی پستی کا احساس تک نہیں ہوتا۔

ہمیں اس ذلت کا اتنا نشہ اور سرور ہے کہ اس سے باہر آنے کا سوچتے تک نہیں۔ ہمارے لاشعور میں بیٹھی غیر عقلی شخصیت پرستی نے ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ماؤف کردیا ہوا ہے۔ ہم غلام تھے اور ہماری سوچ ابھی تک غلامانہ ہے۔ جب ہم روشنی دیکھنا بھی چاہتے ہیں تو یہ غلامانہ تقدس دو قدم سے آگے ہماری آنکھوں کو اندھا کردیتا ہے۔ ہم اپنی مد د آپ کرنے کی بجائے ہمیشہ دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں۔ ہم خواب دیکھتے ہیں۔ حقیقت کا سامنا کرنے کی بجائے جو ہمیں خواب دکھاتا ہے ہم اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں بھیڑوں کی طرح۔ ہم دوسرے بندے پر گناہگار کا فتویٰ اس لئے نہیں صادر کرتے کہ ہم پارسا ہیں بلکہ اس لئے کہ اس کے اور ہمارے گناہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اگر تمہارے اور میرے گناہوں کی نوعیت ایک ہے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم کسی معاشر تی بیماری کا شکار ہیں۔ جب تک اس بیماری کی صحیح تشخیص کرکے اس کا علاج نہیں کریں گے یہ بدعنوان عناصر یوں ہی ہم پر حکومت کرتے رہیں گے۔

ان تمام حقائق کے باوجود میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے کسی نہ کسی نمائندے کو تو ضرور ووٹ دوں گا۔ اور آپ بھی ضرور اپنا ووٹ ڈالیں۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے سالوں میں بہت سی اصلاحات ہوں گی اور مقتدر ادارے میرے حلقے میں دس بدعنوان افراد کو الیکشن کی اجازت دے کر مجھے نہیں کہیں گے کہ ان میں سے ایک کرپٹ فرد کا چناؤ کرو۔ یقیناً اگلے انتخابات میں مجرموں کا رستہ روکا جائے گا اور صرف اور صرف حقیقی صاف اور شفاف افراد کو آگے لایا جائے گا نہ کہ ان لوگوں کو جن کا ماضی ان کے کردار کے پول کھول رہا ہو۔ اگر اگلے انتخابات میں بھی داغدار عناصر کو الیکشن میں لے کر آنا ہے تو پھر ووٹ کے آخر میں ایک خانہ ضرور رکھ دیجئے گا جس پر درج ہو ” اوپر دیے گئے امیدواروں میں سے کوئی بھی نہیں ‘‘۔ تاکہ میں اپنے ضمیر کے مطابق رائے دے سکوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).