انتخابی مہم کے دوران لاہور کی ایک رات


یہ شہر شیر کا ہے وہی راج کرے گا۔

بلے کا جھرلو نہ پھر جائے، شیر اسے کھا جائے گا۔

دونوں کا بڑا زور ہے 25 جولائی کو سامنے آ جائے گا۔

پی ٹی آئی الیکشن ڈے کو سپرائز دے گی۔

لاہور کا مقابلہ پنجاب کے نتائج بتادے گا۔

الیکشن کیسے ہورہے ہیں، رات شہر کے مختلف حلقوں میں انتخابی گہماگہمی دیکھنے کیلئے چکر لگایا، لوگ کیا سوچ رہے ہیں،کسے ووٹ دے رہے ہیں، انہیں کس کی جیت دکھائی دے رہی ہے اور اس کی کیا وجہ ہے۔ کس نے کس کی حمایت چھوڑ دی اور کس کا پلڑا بھاری کر دیا، کیا پیسے کا استعمال زیادہ ہونا جیت کی وجہ ہے، اس سوال پر بھی بات ہوئی،

پان سگریٹ، کھانے پینے کی دکانیں، ریسٹورنٹس، چوراہوں میں گپ شپ لگاتے بڑے بوڑھے اور خصوصاً نوجوانوں کی رائے لی، ان کے علاوہ رکشے والوں اور ریڑھی بانوں سے بھی ہلکی پھلکی بات ہوئی،

چند دنوں کی بات رہ گئی سیاسی جماعتوں نے جتنی انتخابی مہم چلانا تھی وہ اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے، 23 جولائی کی رات یہ بھی ختم ہوجائے گی، لیکن اس مرتبہ الیکشن کے موقع پر روایتی ہلہ گلہ اور جوش وخروش کچھ کم نظر آیا، حالانکہ وقت گزرنے کے ساتھ میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر وسائل پہلے سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ مسلم لیگ ن آخری وقت تک شش وپنج یا ایک ابہام کی کیفیت میں رہی، وجہ صاف ہے۔ ان کے کارکن اور ہمدرد بھی اسی کیفیت سے دوچار رہے بلکہ اب بھی ہیں۔

2018 کے الیکشن کچھ مختلف اس طرح ہیں کہ ان میں ایک بڑی اور سابق حکمران جماعت کی قیادت نااہل ہوکر مقدمات کے بعد پابندسلاسل ہے اور کچھ حالات بھی اس انداز سے آگے پیچھے وقوع پذیر ہوئے کہ ان کی نوعیت منفرد حیثیت اختیار کرگئی ہے۔

لاہور میں سب سے زیادہ گہماگہمی این اے 129 میں دیکھی جارہی ہے، بڑی وجہ پی ٹی آئی کے امیدوار عبدالعلیم خان کی بھرپور انتخابی مہم ہے، جسے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں، یہاں پیسہ کھلا لگ رہا ہے اور یہ علیم خان کی روایت بھی ہے۔

صدر بازار میں جگہ جگہ بیٹھے لوگوں سے بات کی وہ پانچ سال پہلے سے مختلف بات کرتے دکھائی دیئے، حتیٰ کہ بھٹو کے ایک دل جلے جیالے نے اندر کی بات کہہ ڈالی، کیا کریں اب ہماری پارٹی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں اس لیے مخالف کو چت کرنے کیلئے پی ٹی آئی کی کشتی پر سوار ہونا پڑا۔

جب ایک لیگی سے پوچھا کہ اسے مخالف کی شکست کا کیسے یقین ہے، اس کا جواب دوٹوک تھا۔

ہماری قیادت نے لاہور کو بدل کر رکھ دیا، اتنے کام کرائے کہ کوئی لاہوری کم ازکم کسی اور کو ووٹ نہیں دے سکتا، یہ اس متوالے کی دلیل تھی، جسے قریب بیٹھے ایک کھلاڑی نے مسترد کردیا کہ 2008 میں ق لیگ نے بہت کام کئے تھے، لیکن لاہوریوں نے مسترد کردیا، متوالے نے کہا وہ ن لیگ تھی جس نے مسترد کیا۔ کھلاڑی کا کہنا تھا کیا ہم لوگ باہر سے آئے ہیں، ہمیں کام بھی نظر آرہا ہے اور آپ کی قیادت کے سارے “کام” بھی۔

وہاں سے نوازشریف کے حلقے این اے 125 میں گئے جہاں 2013 سے اب تک ایک خاتون تیسری بار بازاروں گلیوں اورمحلوں میں اتنی تفصیل سے مہم چلاچکی ہے کہ کئی جگہ پر ہمدردی کا عنصر بھی دکھائی دیا کہ وہ ووٹ کی حق دار ہے۔ یہ حلقہ کسی کی میراث نہیں حالانکہ یہ تقریباً وہی حلقہ ہے جسے کبھی این اے 95 بھی کہا جاتا تھا پھر این اے 120 ہوا۔ یعنی سابق وزیراعظم کا حلقہ۔

مزنگ میں بھی صدر کی طرح کسی دور میں پیپلزپارٹی ہوتی تھی اب وہ ن لیگ کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے، وہاں گفتگو کچھ ملتی جلتی تھی۔

ن لیگ نوں ایس واری لگ پتہ جائے گا۔

پی ٹی آئی کا جھرلو نہ چلا تو شیر لے دے جائے گا

نون لیگ کم ازکم اس حلقے سے نہیں ہارے گی، باقی شہر کا کچھ کہہ نہیں سکتے۔

یہ سب دعوے، قیاس آرائیاں اور خواہشات پر مبنی گفتگو اور تبصرے ہوسکتے ہیں، لیکن جیسے فضا بن چکی ہے یا بنادی گئی ہے، اس میں چہروں پر پائے جانے والے اعتماد میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔

ن لیگ کسی بھی ممکنہ شکست یا جسے دھاندلی کا پیشگی نام دے دیا گیا ہے اس کیلئے ذھنی طور پر تیار ہے، اس میں کس قدر شدید ردعمل سامنے آسکتا ہے اس کی پیش گوئی بھی 13 جولائی کے استقبال کے بعد نہیں کی جاسکتی۔

نون لیگ کے کارکن جیل میں قید اپنے قائد کی صلاحیتوں کے معترف پائے گئے، انہیں شہباز شریف سے کسی بڑے ایجی ٹیشن کی امید نہیں۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ پارٹی کی تاریخ بہت زیادہ ایسی سیاست سے دور ہی دکھائی دی ہے۔

یہ رات کچھ اشارے بتا گئی کہ سنجیدہ لوگ دونوں جانب کے رقیق حملوں اور ذاتی نوعیت کی لفظی گولہ باری کو شدید ناپسند کرتے ہیں، انہوں نے اس ضمن میں بلاول بھٹو کو بہتر سیاست کا علمبردار پایا، انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ کم تجربہ اور نوعمری کے باوجود اس کی سوچ میں زیادہ پختگی دکھائی دی۔

سب سے بڑی اور اہم بات لاہور دونوں جماعتوں کی مقبولیت اور کامیابی کے لیے ایک بڑا ٹیسٹ کیس ثابت ہوگا۔ لگتا ہے اصل مقابلہ پنجاب سے بھی زیادہ لاہور کا ہے اگرچہ تجزیہ کاروں کی اکثریت اب بھی ن لیگ کو لاہور میں واضح طور پر آگے اور بہتر پوزیشن میں بتاتی ہے۔ لیکن کئی ایک کی رائے میں کسی بڑے اپ سیٹ کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ لاہور بڑی تبدیلیوں کا بیرومیٹر تصور کیا جاتا رہا ہے۔ سندھ کے ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی بھی اسی شہر میں اپنی مہم کا اختتام کرتے تھے، انہیں کے نقش قدم پر چلتے کپتان بھی آخری دن یہاں گزارنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

اب دیکھنا ہے یہ شہر کس کے حق میں فیصلہ دیتا ہے اور ملک کی باگ ڈور کون سنبھالتا ہے۔ شہباز کی پرواز یا عمران کی اُڑان،

کون کس کو دیتا ہے مات۔

تاریخ لگائے بیٹھی ہے گھات۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar