خدمت خلق کمیٹی اور نواز شریف


خدمت خلق کا لفظ پڑھتے ہی ذہن میں غریب مسکین مجبور معذور افراد ہی ذہن میں آجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا خیال رکھنے والی قوم ہی اپنے اخلاق کی وجہ سے زندہ قوم کہلانے کی مستحق بھی ہوتی ہے۔ یہ اچھا خاصہ پرانا واقعہ ہے جب میں انٹر آرٹس میں پڑھ رہی تھی۔ کلاس میں اسلامک کلچر والی مس نے آکر خدمت خلق پر لیکچر دینا شروع کیا تھا۔ لیکچر کا آغاز ہی اتنا اثر انگیز تھا کہ چلبلی لڑکیاں بھی خاموش ہو کر یکسوئی سے سننے لگی تھیں۔ مس کی اونچی نیچی ہوتی آواز اور الفاظ نے جیسے سماں باندھ دیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ ساری کلاس ہی سحر زدہ ہوچکی تھی۔ پون گھنٹے کے اس لیکچر کے بعد ہم سب لڑکیاں اس خیال کی ہوچکی تھیں کہ خدمت خلق کرنا چاہیے۔

خدمت خلق کا آسان طریقہ تو حال فی حال یہی سمجھ میں آرہا تھا کہ کسی اندھے کو راستہ پار کروایا جائے۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ ساٹھ سے پینسٹھ لڑکیاں سب کی سب یہی خدمت خلق کرنا چاہ رہی تھیں۔ ہم سب اگر یہ خیال لے کر سڑک کے کنارے جا کھڑی ہوتیں تو ممکن ہے ہمیں ایک ایسا بندہ مل ہی جاتا پر ضرورت والا عدد ملنے کا نہیں تھا۔ تو ہم لوگ آخر کیا کرکے جنت میں اپنی بکنگ کرواتیں۔ یہ سوچ سب کے ذہن میں تھی۔ یہی بات سوچتی ہوئی چھٹی ہونے پر گھر آن پہنچی تھی میں نے اپنی نقاب والی چادر اتار کر کہیں پھینکی۔ اماں سے بات کرتے ہوئے اعلان کیا کہ میں آج سے خدمت خلق کا کام شروع کرنے جارہی ہوں۔

یہ سن کر امی مزاحیہ انداز میں مسکرائیں اور کہا خدمت خلق کی ابتداء ہمیشہ اپنے گھر سے ہی کرنی چاہیے۔ یہ سن کر عجیب لگا مس نے تو اپنے گھر والی ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔ میں تو خیالوں میں جو خدمت کررہی تھی وہ سین تو نرس بن کر مریض کو دوائی پلانے والا ہی تھا۔ تھوڑی دیر میں ہی اماں نے اپنا مدعا بیان کیا انہوں نے بتایا کہ اپنی روٹی پکانے والی مائی نے چھٹی کرلی ہے اگر تم ہم گھر والوں کو روٹیاں بنا کر دو تو یہ بھی خدمت خلق میں شمار ہوگا۔ اماں نے یہ مسکراتے ہوئے کہا اور بھابھی بھی ہنسی میں ساتھ دینے لگیں۔ یہ سن کر تو مجھے بہت ہی غصہ آرہا تھا۔ میں اپنے جال میں ہی پھنس گئی تھی۔ خیر میں نے خاموشی سے روٹیاں بنائیں جو پچاس کے قریب تھیں پر ہوا کچھ یوں تھا کہ رات بارہ بجے تک سب گھر والوں سے مختلف بہانوں پر لڑتی رہی۔

ایک دفعہ جب نوازشریف کی حکومت چل رہی تھی انہوں نے مقامی سطح پر خدمت خلق کمیٹیاں تشکیل دی تھیں تاکہ نچلی سطح پر عوام کے مسئلے وہیں سلجھا دیے جائیں۔ بابا کی نیک نامی کی وجہ سے بابا کو بھی خدمت خلق کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔ خدمت خلق کمیٹی کے چیئرمین کے لئے اچھی ریپوٹیشن رکھنا ضروری قرار پایا تھا۔ اب جو بابا یہ کام کررہے تھے وہ اس سے پہلے ہی کرتے آرہے تھے۔ فرق اتنا پڑا تھا کہ انہوں نے یہ چیئرمین والا پیڈ چھپوا لیا تھا۔ جہاں پرچی پر کام ہونا ہوتا وہ پرچی پر ہی لکھ دیا کرتے تھے۔ خط لکھنے والا کام کم ہی کرتے تھے میں نے اکثر دیکھا تھا کہ جو بندہ کوئی کام لے آتا تو وہ اپنے ساتھ جیپ میں بٹھا کر ساتھ لے جاتے اور متعلقہ آفیس یا کوئی اور جھگڑا ختم کروا آتے۔

ان کی شخصیت میں کوئی ایسی بات تھی کہ سامنے والے ان کو بہت عزت دیتے کوئی ان کا کہا نہیں ٹالتا تھا۔ ایک دفعہ وزیر اعظم نوازشریف نے خدمت خلق کمیٹی کے چیئرمینوں کی میٹنگ اسلام آباد رکھی تھی۔ یہ دیکھ کے تو بابا بہت پریشان ہوئے کہ صحت ایسی نہیں تھی کہ وہ اتنی دور جاتے۔ جب بھی ان کو فیکس کروانا ہوتا وہ یہ کام مجھ سے کرواتے جو میں آفس جاتے ہوئے یا آتے ہوئے کروا لیتی تھی۔

وزیر اعظم کو یہ فیکس کروایا کہ خدمت خلق کمیٹی کی اسلام آباد میں رکھی ہوئی میٹنگ کینسل کی جائے۔ ظاہر ہے کچھ اور لوگوں نے بھی یہ فیکس کیے ہوں گے جو پہنچ نہیں پارہے تھے۔ وزیر اعظم ہاؤس سے ایک دم ریسپانس ملا اور میٹنگ کینسل ہوگئی تھی اور بابا مطمئن ہوگئے۔ کچھ عرصے کے بعد وزیر اعظم نوازشریف نے ہمارے شہر میرپورخاص کا دورہ کیا تھا۔

دورے میں سول ہسپتال کا وزٹ بھی رکھا گیا تھا سول ہسپتال میں ان دنوں میڈیکل سوشل ورک پروجیکٹ پہ کام کررہی تھی میرے علاوہ جو میری ڈاکٹر دوست تھیں سب وزیر اعظم کی ایک جھلک دیکھنا چاہتی تھیں پر اس دن تو سب کو کرسیوں سے باندھ کے بٹھا دیا گیا تھا۔ پر کسی کسی نے گلابی رنگ والے کو دور سے دیکھا بھی۔

بعد میں پتا چلا وزیر اعظم کو میل سرجیکل وارڈ کا وزٹ کروا کے دل نئے وارڈ کا وزٹ کروایا گیا تھا۔ سرجیکل وارڈ انگریزوں کے زمانے کا بنا ہوا مضبوط اور ہوا دار تھا۔ سول ہسپتال کے بعد نوازشریف نے خدمت خلق کمیٹیوں کے چیئرمینوں سے میٹنگ کی تھی۔ بابا شام کو ہی گھر آئے تھے اور نوازشریف کے حسن کی بہت تعریف کررہے تھے۔ وہ ذاتی طور پر نوازشریف کو پسند کرتے تھے۔ بابا ان کو پسند کرتے تھے تو ٹھیک ہی کرتے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).