کمانڈو کی ڈائری



یہ ان دنو ں کی بات ہے جب ہم پنجا ب کانسٹیبلری میں تعینات تھے ۔ ٹینٹوں میں رہائش پذیر پنجاب کانسٹیبلری کو پولیس کی زبان میں پی سی کا بیڑہ کہتے ہیں ۔ بیڑہ اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ پنجاب کانسٹیبلری کے افسران و جوان ہمیشہ حالت سفر میں ہی رہتے ہیں پنجاب کانسٹیبلری کے جوان سرکاری بسوں پہ اپنے صندوق لادتے اور اتارتے ہی دکھائی دیتے ہیں ۔ کبھی الیکشن ڈیوٹی کبھی محرم ڈیوٹی ۔ کبھی دھرنہ ڈیوٹی ، اور کبھی قدرتی آفات کے سلسلے میں فوج کے شانہ بشانہ پنجاب کے ہر علاقے شہر میں اپنی خدمات سر انجام دیتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پنجاب کانسٹیبلری میں تبادلہ ہوتے ہی ہر جوان کو دو یونیفارم کے ساتھ ایک عدد آ ہنی صدوق اینٹی رائٹ کا سامان اور ایک چھڑی ۔ جاری کر دیے جاتے ہیں ۔ پھر یہ صندوق ہمیشہ سر پہ ہی رہتا ہے اینٹی رائٹ شیلڈ پچھونے کے اور شن گارد ، جیکٹ ، تکیے کے کام آتے ہیں ۔ محکمہ پولیس کا یہ شعبہ پنجاب کانسٹیبلری ہمیشہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی تمام تر ضروریات کو پورا کرتا ہے ۔

جب تک کسی بھی جگہ شہر یا علاقے میں جانے والی پی سی کی بٹالین اکھٹی رہتی ہے تب تک تو نظام کسی حد تک بہتر ہوتا ہے ۔ ہر بٹالین کے اپنے ٹینٹ ہوتے ہیں ۔ اپنی میس ہوتی ہے ۔ اپنے باربر دھوبی موچی سب ساتھ جاتے ہیں ۔ لیکن جب نفری کو ڈیوٹی کی غرض سے مختلف علاقہ جات یا پوائنٹس پہ تقیسم کیا جاتا ہے تو پھر حالات یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ نیا علاقہ نئے لوگ ، کوئی جان پہچان نہیں ہوتی ، کوئی پانی تک نہیں پوچھتا ۔ اگر ڈیوٹی ایک دو دن سے زیادہ کی ہو جائے تو پھر پی سی کے جوانوں کو سکولوں مسجدوں میں رہائش اختیار کرنا پڑتی ہے ۔ کھانے پینے کاکوئی انتظام نہیں ہوتا اپنی تنخواہ سے ہر کوئی گزارہ کرتا ہے ۔ ایک دفعہ ہم کسی جگہ ٹینٹ میں رہائش پذیر تھے سخت سردی کا موسم تھا رات کوئی ایک بجے کے لگ بھگ تیز موسلا دھار بارش اور آندھی نے ہمیں آن گھیرا وہ رات شاید میں زندگی میں کبھی بھی نہ بھول سکوں جنگل کا علاقہ تھا نہ لائٹ نہ دور دور تک کوئی مدد کی امید ہم چار لوگ تھے ۔ تیز سرد ہوا کے ساتھ بارش کے قطروں کے تھپیڑے بے لگام منہ زور گھوڑے کی طرح بے ہنگم رفتار سے ہمارے ٹینٹ میں داخل ہوئے اور ہمارے تمام سامان کپڑوں کمبل ہر چیز کو بھگو گئے ہمارے بستر وں سے پانی ایسے نُچڑ رہا تھا جیسے رس گلے سے شیرا ۔ ہم نے ٹینٹ کے درمیان میں لگے بانس کو زور سے پکڑ رکھا تھا کہ کہیں ہمارا ٹینٹ ہوا کے زور سے اکھڑ نہ جائے لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ۔ آندھی اس قدر تیز تھی کہ ہمارے ٹینٹ کے چاروں رسے ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے اور ہمارا ٹینٹ ہوا کے دوش پہ اڑکر آناََ فاناََ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا بے شک اگلے دن وہ ٹینٹ ہمیں ساتھ ہی قدرتی طور پہ بنے ایک بہت بڑے پانی کے تالاب سے ملا لیکن فی الحال ہمارا ٹینٹ ہمیں بے یارو مدد گار چھوڑ کر فضاﺅں کے دو ش پہ محو پرواز ہوگیا ۔ بارش اور آندھی کے تھپیڑوں نے اس رات ہمیں بڑے بڑے سبق سکھا دیے ۔ جب کبھی میں کسی ایسے علاقے سے گزرتا ہوں جہاں بڑے بڑے آفیسر اور ججز کی رہائش گاہیں ہوتی ہیں ۔ اور ان کے بنگلوں کے باہر لگی ٹینٹوں میں رہائش پذیر پولیس کی گاردات دیکھتا ہوں تو مجھے پھر وہ رات یاد آنے لگتی ہے ۔

اسی طرح ایک بار جب پاکستان میں سارک کانفرنس کا انعقاد ہوا تو ہمیں راولپنڈی پولیس لائن بھیج دیا گیا ۔ جس دن کانفرنس ہونی تھی اس سے ایک دن پہلے شام کو تقریباََ سات بجے ہمیں راولپنڈی شہر کے مختلف مقامات پر بلڈنگز پر کھڑا کر دیا گیا ۔ سخت سردی کا موسم تھا لیکن ڈیوٹی بھی انتہائی اہم تھی ۔ بدقسمتی سے مجھے جس پوائنٹ پہ کھڑا کیا گیا وہ کچہری چوک میں ایک زیر تعمیر پلازہ تھا ۔ مجھے حکم ہوا کہ میں پلازہ کی چھت پہ چلا جاﺅں ارد گرد علاقے پہ نظر رکھوں اور بیٹھنا یا کسی بھی قسم کی سستی ہر گز قابل قبول نہ ہوگی میرے یونیفارم کے ساتھ سرکاری جیکٹ پہنے جی تھری رائفل اور گولیوں سے بھرا بنڈوریل اٹھائے میں اپنے پوائنٹ پہ پہنچا ۔ مجھے راولپنڈی کے موسم کا بالکل تجربہ نہ تھا ہوا میں نمی کا تناسب پنجاب کے دوسرے شہروں سے قدرے زیادہ تھا ۔ ہیلی کاپٹر فضائی نگرانی میں مصروف تھے ۔ زمینی نگرانی پہ کوئی بھی افسر ایس پی رینک سے چھوٹا نہ تھا ۔ کبھی روڈ سے کوئی سرکاری گاڑی ہیوی سرچ لائٹ سے چیک کرتی اور کبھی ڈب ڈب کر تا ہیلی کاپٹر اوپر سے لائٹ کر کے دیکھتا کہ جوان سست تو نہیں یا بیٹھ تو نہیں گیا ۔ سردی نے مجھے آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا رائفل ٹھنڈی ہو کر کسی برف کے بلاک کی طرح ہو گئی رائفل کو کبھی میں دائیں ہاتھ میں پکڑتا اور کبھی بائیں ہاتھ میں چند کلو وزن کی رائفل آج مجھے ہزاروں من وزن سے بھاری لگنے لگی ۔جس زیر تعمیر پلازے کی چھت پہ میں کھڑا تھا اس پلازے میں مزدوری کرنے والے مزدور وں کی قسمت پہ رشک کر نے کو دل کر رہا تھا کہ کس قدر مقدر والے ہیں یہ مزدور جو گرم گرم بستر میں سو رہے ہوں گے ناجانے میں کیسے کیسے خیالات کے جال ادھیڑ بن رہا تھا ۔ میرے پاﺅں میں چمڑے کے لانگ شوز سکڑ کا اپنے اصلی حجم سے کافی چھوٹے اور تنگ ہوگئے تھے میرے جبڑے میرے کنڑول سے باہر ہوچکے تھے عجیب سی کپکپی مجھ پہ طاری ہوگئی جبڑوں کی آپس کی جنگ اور ایک تسلسل سے ٹکراﺅ کو روکنا میرے بس سے باہر ہو چکا تھا ۔ میری حالت ایسے ننگ دھڑنگ لاوارث بچے کی طرح تھی جسے اس کی ماں غربت بھوک اور حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر بے یارو مدد گار کسی ویرانے میں پھینک گئی ہو ۔

رات کا ایک بج چکا تھا ۔ ہر دس منٹ بعد کسی نہ کسی ملک کے صدر یا وزیر کی فلائٹ آجاتی اور یہ پروازیں آنے کا سلسلہ تھمنے کی کوئی امید بھی نہ تھی ۔ آخر کار دور سے پید ل آتا ہوا ایک آدمی دکھائی دیا جو سگریٹ سلگائے جانے کن خیالات میں گم رات کے اس پہر آہستہ آہستہ چلا آرہا تھا اس کی سگریٹ کی چنگاری دیکھ کر میرے دل میں بھی ایک امید کی کرن جاگی حالانکہ چھت پہ نہ کوئی لکڑی تھی نہ کوئی ایسی چیز کہ جسے جلا کر سردی کی شدت کو کم کیا جاسکے لیکن ناجانے کیوں میں نے اس کے قریب آنے پہ اس آدمی کو آواز دی او ر اس سے ماچس طلب کی بھلا ہو اس آدمی کا جس نے ماچس مجھے اوپر پہنچا دی میری حالت دیکھ کر وہ بیچارہ بھی کافی پریشان ہو گیا کافی دیر میرے ہاتھوں کو پکڑ کر وہ بھلا آدمی میرے ہاتھ مسلتا رہا اور گرم کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ پلازے کے درو دیوار کو لگائے اور ادھر اُدھر کھڑے پانی نے ٹھنڈ میں مزید اضافہ کر رکھا تھا ۔ اس آدمی نے پلازہ گھوم پھر کر ایک خالی تھیلا سیمنٹ کا ڈھونڈ نکالا اور مجھے دیا میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس آدمی کو جلدی ہی روانہ کردیا کیوں کہ ڈیوٹی حساس تھی اور کسی اجنبی کا میرے پاس ہونا میرے لیے خطرہ بن سکتا تھا وہ آدمی میری مدد کرنا چاہتا تھا لیکن میری ڈیوٹی آج کافی حساس نوعیت کی تھی ۔ اس کے جانے کے بعد میں نے کانپتے ہاتھوں بڑی مشکل سے اس تھیلے کو آگ لگائی مگر وہ تھیلا تو پانچ منٹ بھی میرے بدن کو نہ گرما سکا اور خاک کا ڈھیر ہوگیا ۔ اب کیا کیا جائے میں نے اپنے شوز کھولے ان کے تسمے نکالے ان کو آگ لگائی وہ بھی پلک جھپکتے ہی میرے ارمانوں کی چِتا کی خاک بن گئے پھر میں نے اپنی جرابیں اتاریں ان کو جلایا مگر رات طویل تھی اور جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا رات کا مسافر چاند اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا سردی کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا میرے اعصاب مکمل طور پہ ناکارہ ہو چکے تھے ۔ مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا جب میں مایوس اور حسرت بھری نگاہوں ستاروں کے جھرمٹ میں چہکتے اور روشن چاند کو دیکھتا ہوں تو وہ بھی اپنی بے بسی چھپانے کے لیے بادلوں کی اوٹ میں منہ چھپا لیتا ہے ۔ کبھی کبھی انسان کی زندگی میں ایسے حالات پیدا ء ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے بنانے والے اپنے پیداء کرنے والے کو اپنے بہت قریب دیکھنا چاہتا ہے آ ج میں بھی اپنے ماں باپ اور اللہ کو اپنے پاس دیکھنا چاہتا تھا موبائل کا دور نہیں تھا کہ میں امی ابو کو فون کرتا اور بادلوں میں آسمان کی طرف صرف تاریکی اور اندھیرا تھا ۔

بغیر جرابوں کے ٹھنڈے چمڑے کے لانگ شوز میرے پیروں کو کاٹ رہے تھے ۔ میں نے بھیگی پلکوں سے آسمان کی طرف دیکھا لیکن خاموشی تاریکی کے علاوہ کچھ بھی نظر نہ آیا ۔ چاروں طرف رقصاں ناامیدی کے گہرے بادل مجھے مایوسیوں کی گہری دلدل میں دھکیل رہے تھے ۔ الیکشن ، محرم اور اس طرح کی اہم ڈیوٹیز پہ غفلت لاپرواہی سے نوکری جانے کے امکانات بڑ ھ جاتے ہیں افسران کچھ سننا گوارا ہی نہیں کرتے اور مجھے تو ناجانے کتنی مَنتوں دعاﺅں سے پولیس کی نوکری ملی تھی ۔ میرے گھر کے حالات مجھے بالکل اجازت نہیں دے رہے تھے کہ میں نوکری چھوڑ کے چلا جاﺅں ویسے بھی ابھی میں نیا نیا پولیس میں بھرتی ہوا تھا مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ پولیس میں معطلی بحالی کا کیا طریقہ کار ہے ۔ میں ایک فرض شناس پولیس افسر بننا چاہتا تھا ۔ پولیس افسر کی نا اہلی کی صورت میں معطلی میری نظر میں ایک لعنت ہے ۔ اور میں یہ لعنت کا تمغہ اپنے گلے میں ہرگز ہرگز نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ گھڑی نے رات کے ساڑھے تین بجائے تقریباََ ایک گھنٹے سے نہ کوئی پرواز آئی تھی اور نہ ہی ہیلی کاپٹر کی آواز نے چوکنا کیا روڈ گشت والے افسران بھی شاید کہیں چائے کافی پینے میں مصروف ہو گئے تھے اس دوران کسی نے بھی چیک نہ کیا تھا ۔میں نے بھی بلڈنگ سے اترنے کا فیصلہ کیا میرے قدم سردی اور چیکنگ کے خوف سے میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے بہر حال میں نیچے اترنے کا حتمی فیصلہ کر چکا تھا ۔

میں ٹھٹھرتا کانپتا مردہ خانے سے فرار ٹھنڈی لاش کی طرح سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا ایک انجانا سا خوف مجھے پریشان کیے ہوئے تھا مگر میں نے فیصلہ کر لیا کہ جو بھی ہو اب میں نیچے اتر جاﺅں گا ۔ اگر زندگی نہ رہی تو نوکری کس کام کی آج تو سیڑھیاں بھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں خیر اللہ اللہ کر کے میں نیچے اترا اور اجنبی شہر میں کسی جنگل میں بھٹکی گائے کی طرح حسرت بھری نگاہوں سے کوئی ایسی جگہ ڈھونڈنے لگا جہاں پناہ لے کر میں اپنے کانپتے سکڑتے اعصاب کو ٹکور کر سکوں ۔ کہتے ہیں کہ انسان کے کندھوں پہ اللہ نے فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے جو انسان کے اعمال لکھتے ہیں ۔دائیں کندھے پہ نیکیاں شمار کرنے والے فرشتے اور بائیں کندھے پہ گناہ لکھنے والے فرشتے میں نے بھی آج اپنی قسمت کا فیصلہ ان فرشتوں پہ چھوڑ دیا اور نیکیاں شمار کرنے والے فرشتوں پہ بھروسہ کرکے دائیں جانب چلنا شروع کردیا ۔ تھوڑی دور جانے کے بعد ایک چھپر ہوٹل نظر آیا جسے اس کا مالک بند کر کے گھر چا چکا تھا ۔میں نے چھپر کے نیچے پڑی پٹھے کے بان کی بنی الانی چارپائی پہ لیٹ کر خود کو سمیٹنے کی کوشش کی رائفل کو ٹانگوں میں دبا لیا اور گولیوں سے بھرے بنڈوریل کو تکیہ بنا کر سر کے نیچے رکھ لیا اپنی سانسوں کی ٹکور سے ہاتھ گرمانے لگا مگر قیامت ڈھاتی سردی کسی بے رحم جلاد کی طرح پے درپے میرے میرے ٹھٹھر تے بدن پہ جبر کے کوڑے برسانے میں مصروف تھی ۔ رات ابھی کسی ساحرہ کی طرح اپنے جادوئی پر پھیلائے پورے جوبن پہ تھی میں ایک بار پھر اٹھا ادھر اُدھر دیکھا اور مجھے تنور نظر آیا میں تنور کے پاس گیا دیکھا تو بجھا ہوا تنور کسی ماں کی گود کی طرح ہلکا ہلکا گرم تھا میں نے ایک پل بھی انتظار کیے بغیر تنور میں اتر جانے میں عافیت سمجھی اور تنور میں بیٹھ گیا ۔ آہستہ آہستہ میرے اوسان بحال ہونا شروع ہوگئے اور پھر ناجانے کب نیند کے طلسم نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).