ترک صدر نے جرمنی کو فٹبال کا عالمی چیمپئین بننے سے روک دیا


میسوت اوزل اور الکائے گندوگان نے ترک صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ تصاویر کیوں بنائیں اور اگر بنا بھی لیں تو انہیں میڈیا میں کیوں شائع کیا۔

عالمی کپ فٹبال سے قبل، مقابلوں کے دوران اور پہلے مرحلے میں جرمن فٹبال ٹیم کی عالمی کپ کے مقابلوں میں پے در پے شکاروں اور پہلے مرحلے میں غیر متوقع اخراج کے موقع پر یہ سوال ملک بھر خصوصا جرمن میڈیا میں زیر بحث رہا۔

جرمنی میں عالمی کپ فٹبال کے دوران قریبا ہر ٹاک شو میں فٹبال سر فہرست رہا اور بدقسمتی سے میسوت اوزل اور الکائے گندوگان کے کھیل سے زیادہ تبصرہ ان دونوں کھلاڑیوں کی تصاویر پر ہوتا رہا۔ ٹاک شوز کا آغاز جرمن فٹبال کے سنہرے دنوں سے شروع ہوتا اور پھر یہ بتایا جاتا کہ کس طرح ان کے سورماؤں نے دنیائے فٹبال کے بڑے ناموں کی موجودگی کو چار بار عالمی چیمپئین بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے جرمن فٹبال ٹیم پر انیس سو پچاس کے عالمی مقابلوں میں شر کٹ پر پابندی کے باوجود بھی ان کی ٹیم انیس سو چون میں عالمی چمپئین بن گئی۔

دوسری جانب جب بھی ٹیم کی خراب کارکردگی کا ذکر ہوتا تو کھلاڑیوں اور فیڈریشن کی خراب کارکردگی کو چھوڑ کر تان اوزل اور گندوگان کی تصاویر پر آکر ختم ہوجاتی کہ ان کھلاڑیوں نے ترک صدر سے پہلے ملاقات اور پھر تصاویر شائع کرکے پورے ملک میں ہیجان کی صورتحال پیدا کردی جس سے ٹیم کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔ یعنی سوال چنا تو جواب گندم۔ جب یہ سلسلہ بہت زیادہ طول پکڑنے لگا تو الکائے گندوگان نے ایک وضاحتی بیان دے کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی۔

دوسری جانب اوزل نے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ وہ اس سے قبل بھی یہی کرتا رہا۔ جب بھی اوزل کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جاتے تو وہ خاموش رہ کر اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرتا۔ اس سے قبل پر اوزل پر ٹیم کے ساتھ میچ سے قبل قومی ترانہ نہ پڑھنے پر تنقید ہوتی رہی۔ بہت زیادہ اصرار پر وہ صرف یہ کہتا کہ وہ ایک کھلاڑی ہے لہذا وہ میڈیا اور سیاست بازی سے گریز کرکے اپنے پر کی جانے والی تنقید کا جواب اپنی کاکردگی سے دیتا ہے۔

مگر اتوار 22 جولائی کو بالآخر انہوں نے بھی خاموشی آخر توڑ ڈالی اور جرمنی کی قومی فٹبال سے آئندہ نہ کھیلنے کا اعلان کرتے ہوئے جرمن فٹبال ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں پر نسل پرستی کا الزام عائد کردیا۔ ٹوئٹر پر جاری اپنے وضاحتی بیان اوزل نے جرمن ٹیم کے کوچ اور مینیجر کے روئیے کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ اس کا ساتھ دیا تاہم فیڈریشن کے ذمہ دار اسے قربانی کا بکرا بنا کر ٹیم کی خراب کاکردگی سے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔

گالف، ٹینس، باکسنگ اور انفرادی طور پر کھیلے جانے والے مقابلوں کے برعکس فٹبال ایک ٹیم کے طور پر کھیلا جانے والا کھیل ہے، ٹیم کی شکست پر پوری ٹیم انتظامیہ سمیت ذمہ دار ہوتی ہے۔ مگر عالمی کپ میں جرمنی کی شکست پر یہی دو کھلاڑی تنقید کی زد میں تھے۔ بلکہ یہاں یہ لطیفہ بھی مشہور ہوگیا تھا کہ اگر اوزل ترک صدر کے ساتھ تصویر بناکر شائع نہ کرتا تو جرمنی ایک بار پھر عالمی چیمپئین بن جاتا۔ یہی تصویر آڑے آئی جو پہلے میکسیکو اور پھر جنوبی کوریا جیسی نسبتا کمزور ٹیموں سے شکست کا سبب بنا۔ چار بار کی عالمی چیمپئین کو اسی سال بعد عالمی کپ مقابلوں کے پہلے مرحلے سے باہر ہونا پڑا اور اگر میسوت اوزل تصویر بنا کر شائع نہ کرتا تو شاید یہ اسی سال مزید طویل ہر کر ایک صدی سے تجاوز کرجاتے۔

اوزل نے وضاحتی بیان میں اپنے ترک ہونے پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ماں انہیں اکثر کہتی تھی اپنے ماضی اور اجداد کو کبھی نہ بھولنا۔ اس ناطے ترک صدر سے ملنا کیوں کر معیوب ہے۔ اور ویسے بھی یہ ان کی پہلی ملاقات نہیں ہے۔ ان سے جب بھی ملاقات ہوئی گفتگو کا محور سیاست نہیں بلکہ ہمیشہ فٹبال رہا کیونکہ ترک صدر نوجوانی میں فٹبال کھیلتے رہے ہیں۔

ترک قوم کا جرمنی سے تعلق نیا نہیں۔ اس کی کڑیاں بہت دور جاکر ملتی ہیں تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں دیگر اقوام کی طرح ترک قوم سے تعلق رکھنے افراد کی بڑی تعداد نے بھی جرمنی کا رخ کرلیا تھا اور وہ یہاں تعمیر نو جیسے منصوبوں اور دیگر کاموں سے جت گئے۔ ان افراد کی اب دوسری اور تیسری نسل پروان چڑھ گئی ہے۔ نئی نسل کی پیدائش اور تعلیم جرمنی میں ہونے کے باعث وہ مکمل طور پر جرمن معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں تاہم والدین اور اس سے آگے کی نسلوں کا تعلق اب بھی ترکی سے جڑا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں نئی نسل جرمن ہونے کے ساتھ ترکی سے بھی جڑی ہوئی ہے اور دونوں ممالک کی شہریت بیک وقت رکھنے کے قانون کی وجہ سے ان کا تعلق تاحال قائم ہے۔ اوزل اور گندوگان اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).