ووٹ کو عزت دیں


میرے ایک بزرگ نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کرتے گزارا۔ ان بزرگوار کی جمع پونجی لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں اک دس مرلے کا مکان جو انہوں نے اک نادارعورت کو مناسب داموں میں کرایہ پہ دیا ہوا تھا۔ بچیوں کی شادی کا مرحلہ درپیش آیا تو یہ اپنی بیوی بچے لے کر لاہور آگئے۔ دل میں وطن میں رہنے کے آدھے ادھورے سہانے خواب۔ آگے سے منظر ہی بدلا ہوا۔ کرایہ دار نے گھر خالی کرنے سے انکار کردیا۔ ان بزرگوار نے کوشش کی کسی طرح مکان خالی ہوجائے۔ کیونکہ یہی ان کی عمر بھر کی کمائی بھی اور اہل و عیال کے سر چھپانے کی جگہ بھی۔ بات تھانہ سے ہوتی ہوئی کورٹ کچہریوں تک پہنچی۔ بزرگوار کو دھمکیاں ملنے لگی۔ اس عورت کا کسی وکیل سے یارانہ تھا۔ آخر اس عورت نے مکان اونے پونے داموں قسطوں میں خریدنے کی پیشکش کی۔ جوان بیٹیوں کا بوجھ اور بگڑتی ہوئی صحت کے ہاتھوں مجبور ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ بزرگوار جب ادائیگی کی قسط لینے گئے تو وہ کرایہ دارعورت اپنے وکیل آشنا کے ساتھ حالت غیر میں تھی۔ قبل اس کے یہ بزرگوار واپس پلٹتے، عورت نے حسب ارادہ بزرگوار پہ اپنی عزت لوٹنے کا الزام لگا کر شور مچا دیا۔

بیشتر اس کہ میں مندرجہ بالا واقعہ پورا رقم کرتا، شوکت صدیقی کی پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کی تقریر آ گئی۔ اتفاق دیکھیے شوکت صدیقی اور اوپر بیان کی گئی عورت کی کہانی میں کمال مماثلت ہے۔ یہ بھی وہی کہانی ہے جس میں چوری پکڑنے جانے لگے تو الزام تراشی۔ اس پہ مستزاد آئی ایس آئی والا چورن فوراً بکتا ہے۔ کیونکہ آدھے سے زیادہ میڈیا ہاوسز اور دانشور اس راگ کو فوراً الاپتے ہیں۔

شوکت صدیقی پہ کچھ لکھنا اپنا اور قارئین کے قیمتی وقت کا ضیاع ہے۔ لیکن یہاں معاملہ میرے وطن اور اس کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظوں کا ہےتو با امر مجبوری چند حقائق قارئین کی نذر۔ شوکت صدیقی وہی آدمی ہے جس نے شہرت کی خاطر ممتاز قادری کی شہادت کو ذریعہ بنانے کو کوشش کی لیکن یہی وہ منافق ہے جس نے ممتاز قادری کے خلاف موت کی سزا برقرار رکھی۔ شوکت صدیقی ان چار پانچ ججوں کے سرخیل ہیں جنہوں نے ارسلان کے ابو کی بحالی تحریک کے فیوض و برکات خوب سمیٹے۔ اسی کے عوض ہائیکورٹ میں جج بنے۔ اس سے پہلے یہ بڑے صاحب ملک ریاض کے وکیل تھے اور اسی وکالت کی بدولت ارسلان کے ابو سے ملک صاحب کو ریلیف لے کر دیا کرتے تھے۔

کسی زمانے میں یہ نون لیگ کی بی ٹیم یعنی جماعت اسلامی یعنی ایم ایم اے کی طرف سے الیکشن بھی بری طرح ہار چکے ہیں۔ یہ وہی الیکشن ہے جس میں مشرف کے زیر سایۂ فوج براہ راست جماعت اسلامی کی پشت پناہ تھی۔ لیکن اب عزت لٹنے کا تازہ واویلا اس لیے ہے کہ جج موصوف کے خلاف تین سال پرانا ریفرنس دائر ہے۔ جس میں موصوف کے بچنے کے چانسز تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی وہ تازہ تکلیف ہے جس کی بنا پر نوحہ گری عروج پہ ہے۔ کبھی یہ صاحب قانون توہین رسالت (ص) پہ بلند بانگ دعویٰ کرکے مذہبی جذبات ابھارتے ہیں۔ کبھی ممتاز قادری کی لاش سے لپٹ کے روتے ہیں۔ لیکن اندر سے یہ بھی مولوی ڈیزل ہے۔

 پچھلے تمام وار خالی گئے تو اب نون لیگ اور ان کے حمایت میں فوج پہ الزام تراشی۔ شوکت صاحب کی ہرزہ سرائی کے کئی مقاصد تھے۔ جس میں پہلا تو فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانا۔ دوسرا نون لیگ کو مظلوم ثابت کرنا۔ تیسرا اپنے آپ کو ایمان وعظمت کا پہاڑ ثابت کرنا کہ ان کے علاوہ باقی سارے جج بکاؤ ہیں۔ ایک اور پہلو اسی دن آنے والے حنیف عباسی کے فیصلے پہ اثر انداز ہونے کی کوشش بھی تھی۔ شوکت صاحب کی ایمانداری کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ان کی اپنے عہدے کی تذلیل اور کھلے عام فوج پہ بغیر کسی ثبوت کے الزامات۔ شوکت صاحب کو بحیثیت وکیل اور جج یہ بھی معلوم ہے ثبوت و شواہد کیا ہوتے ہیں۔ لیکن شواہد کے نام پر ان کے پاس دانشوروں کی ٹویٹس ہیں۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ الیکشن کے دنوں میں مخالفیں پہ الزام تراشی کوئی نئی بات نہیں۔ تقریباً سبھی جماعتیں ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتیں ہیں۔ لیکن نون لیگ بھٹو صاحب کے ایجاد کردہ اس کھیل میں خاص مہارت رکھتی ہے۔ پہلے تو اس طرح کے اوچھے وار چل جاتے تھے لیکن اب مسئلہ سوشل میڈیا ہے۔ جہاں نئی نسل کسی بھی طرح نون لیگ کے ہاتھ نہیں آ رہی۔ عوام ان کے مکروہ فریب سے پوری طرح آشنا ہوچکی ہے۔

عمران خان پہ یہ سارے الزام لگا چکے۔ریحام خان کتاب سمیت بری طرح پٹ چکی۔ اب تھک ہار کر کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ فوج اور آئی ایس آئی پہ عمران کی امداد کے بے تکے الزامات۔ اگر افواج کی حمایت سے الیکشن جیتے جاتے تو آئی جے آئی کبھی نہ ہارتی۔ آج بھی نو ستاروں کی حکومت ہوتی۔ اس وقت تو پیپلز پارٹی بمقابلہ خلائی مخلوق تھی۔ حکومت پھر بھی بے نظیر کی بنی۔ آج کیا خلائی مخلوق اس سے بھی بڑھ کر کسی کی مدد کر رہی ہے۔ مشرف صاحب کے دور اقتدار میں جب بے نظیر اور نوازشریف صاحب منظر سے غائب تھے۔ تب لیگی کارکنان کے لیے تشدد اور قید و بند کی سزاؤں کے باوجود مشرف لیگ اکثریت نہ لے سکی۔ اسی لیے پیپلز پارٹی کے بطن سے پیٹریاٹس کو بھاری وزارتوں کے عوض جنم دلوایا گیا۔ تب تو خلائی مخلوق نون لیگ کے خلاف خود الیکشن لڑ رہی تھی۔ لیکن تمام کوششوں کے باوجود بمشکل ایک ووٹ سے میر ظفر اللہ جمالی صاحب وزیر اعظم بنے۔ اگر خلائی مخلوق کی حمایت سے الیکشن جیتے جا سکتے تو اوپر والے دونوں الیکشن کی صورتحال ابتر کیوں تھی۔

میری ناقص رائے میں پاکستان میں صرف دو زمینی طاقتیں ہیں۔ ووٹ کی اور بوٹ کی۔ بوٹ سب کچھ کر کے بھی کسی کو ووٹ نہیں دلواسکتا۔ یہ سب باتیں یقیناً میاں صاحب بھی جانتے ہیں۔ لیکن اب جب مشکل صورت حال درپیش ہے تو سوائے واویلے کے کوئی چارہ نہیں۔ الیکشن اب ان کے لیے ٹیڑھی کھیر بن چکا ہے بلکہ گلے کی ہڈی۔ اب سب ٹونے ٹوٹکے ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کے سوا کچھ نہیں۔ اگر آپ اس ملک کے خیرخواہ ہیں اور آپ کا ووٹ ہے تو اپنا ووٹ لازمی کاسٹ کریں۔ ساتھ میں اپنے دوست احباب اہل و عیال کو بھی کار خیر کے لیے قائل کریں۔ نکل کرخانقاہوں سے دھوپ ہو چھاؤں ہو ، آندھی ہو طوفان بادوباراں ہو ووٹ لازمی ڈالیں۔ میرا یہ پیغام بھی ایسے ہی آگے پہنچاتے جائیں۔ آپ کا ووٹ اس ملک و قوم کی امانت ہے۔ اس پہ نہ صرف ہماری بلکہ ہمارے آنے والی نسلوں اور ملک و ملت کے مستقبل کا انحصار ہے۔ ووٹ کی پرچی کو ہاتھ میں لے کر اللہ کو حاضر ناظر جان کر امانت میں خیانت نہیں کرنا۔ آپ کے پیش نظر کوئی دوست رشتہ دار ذات برادری نہیں بلکہ اس ملک و ملت کا مستقبل ہو۔ فوج اور آئی ایس آئی وہ کانٹا ہے جو تمام پاکستان دشمنوں کے آنکھوں میں بہت چبھتا ہے۔ ہندوستان بھی افواج پاکستان پہ الزام لگاتا ہے۔ افغانستان ، اسرائیل منظور پشتین اس کے اینٹیں بجانے والے ہمنوا سیاستدان اور شوکت صدیقی بھی۔ یا تو فوج پہ الزام لگانے والے سارے ہی غلط ہیں یا سارے ہی صحیح۔ یہی وہ فیصلہ ہے جو عوام نے الیکشن والے دن کرنا ہے۔ ووٹ کی پرچی پہ اپنا مستقبل رقم کریں۔ ووٹ کو عزت دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).