ووٹ کی عزت یا توہین


اس دفعہ میں پاکستان اپنی خوشی سے نہیں آیا۔ لیکن میرے ادارے کا اصرار تھا کہ میں پاکستان کا بھیدی ہوں۔ انتخابات کے موقع پر تمہارا وہاں موجود ہونا ہماری خبروں کو گہرائی، حقیقت اور اعتبار دے گا۔ نوکری پھر نوکری ہوتی ہے۔ لہذا نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اس ملک میں آنا پڑا۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں کچھ نہیں بدلتا۔ یہاں ایسی سیاسی پارٹیاں بھی ہیں جو قیامِ پاکستان کی شدید مخالف تھیں اور ہیں۔ لیکن اس وقت وہ بڑی پردھان اور مقتدرہ کی قریبی سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں جمعیت علمائے ہند کی جانشین، جمعیت علمائے پاکستان کے ساتھ ساتھ جماعتِ اسلامی

بھی شامل ہیں۔ اسی ڈور کے دوسرے کنارے پر باچا خان کی اولاد کی ایک سیاسی جماعت ہے۔ خان عبدالغفار خان، پشتون سماج سدھارنے کی خدمات کے لیے ہمیشہ ہمارے دلوں میں محترم  رہیں گے۔  تاہم گاندھی جی کے شدید متعقد ہونے کی بنا پر سماجی طور پر کافی رجعت پسند سوچ کے نمائندہ تھے۔  پاکستان کی مخالفت ایک بونس ہے۔ اس نیک دل پٹھان نے خواہ مخواہ پاکستان کو پشتون مخالف قرار دے کر زندگی گزار دی۔ مرحوم کے بیٹے خان عبدالولی خان عملی سیاست میں زیرک اور پاکستان کے حق میں تھے۔ لیکن ان کی پارٹی کو بیٹے کے دور میں کے پی کے کی وزارت ملی تو ایک مرتبہ پھر ثابت ہوا کہ ایک بار دشمنی ہو جائے تو پھر دشمن کا کچھ نہیں چھوڑنا۔ ورنہ ریلوے اور صوبے کا حال ایسا نہ ہوتا۔

خدا جانے کس بنا پر پی پی پی اور یہ جماعت پاکستان میں لیفٹ یعنی بائیں بازو کی کہلاتی ہیں! حالانکہ ان کی طبقاتی حیثیت اور سیاسی تاریخ دیکھتے ہوئے انہیں محض اس وقت بائیں بازو کی کہنا چاہیے اگر وہاں موجود لوگوں میں سے زیادہ کھبو ہیں۔ پی پی پی پچھلے انتخابات تک پاکستان کی دوسری بڑی جماعت تھی۔ تاہم اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں اس نے اپنا یہ حال کر لیا تھا کہ اب وہ ملک گیر کی بجائے صرف ایک صوبے یعنی سندھ کی جماعت رہ گئی ہے۔ پاکستانی ریاست اور سماج کو سمجھنے والوں سیانے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ملک کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ۔ 1970 کے بعد سے یہ جماعت لاشیں دکھا کر ووٹ مانگ رہی ہیں۔ اب بھی ایک نوجوان جو دس سال سے ’ انڈر ٹریننگ‘ کی مستقل تختی لگا کر پھر رہا ہے؛ اُس کی سیاست کا بُنیادی نکتہ یہ ہے کہ وہ شہید بھٹو کا نواسا نیز شہید رانی کا بیٹا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس پارٹی نے ستر کے بعد جتنے انتخاب جیتے ہیں، شہید بیس پر ہی ان میں فتح پائی ہے۔

پاکستان کی دو بڑی جماعتوں میں سے ایک مسلم لیگ ن ہے۔ بعض لوگ تو اسے ملک کی سب سے بڑی جماعت کہتے ہیں۔ یہاں میں اپنے ملک کے لوگوں کو بتاتا چلوں کہ اسی نام کی ایک جماعت نے پاکستان بنایا تھا۔ یعنی مسلم لیگ اس وقت ’ن‘ نہیں تھی۔ کہتے ہیں کہ برصغیر کے سب سے بڑے لیڈر اور  مسٹر کلین نے یہ ملک مسلمانوں کے لیے بنایا تھا۔ اسی لیے اس شخص کو قائدِ اعظم بھی کہتے ہیں۔ لیکن جب انگریزوں کے پالتو پنجاب کے جاگیر داروں کو اندازہ ہو گیا کہ اب وہ جس ریاست کی  عمل داری میں رہیں گے وہ پاکستان ہے تو وہ راتوں رات مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ اس وقت سے مسلم لیگ نے بھی حکومت میں شامل رہنے کو ہی ترجیح دی ہے۔

لہذا خود ساختہ فیلڈ مارشل سے لے کر مست، پھر اسلامی اور پھر نہ ڈرنے والے، یعنی ہر ورائیٹی کے فوجی آمر کی داشتہ اول کا کردار مسلم لیگ ہی ادا کر تی رہی ہے۔ ان دست بستہ فرزانوں میں جنا ب محمد خان جونیجو نے اپنی سادگی میں ایسی پرکاری دکھائی کہ مارشل لا ختم کر دیا۔ پھر جرنیلوں کو سوزوکیوں (وہ بھی چھوٹی والی) میں بٹھانے کا عزم کر لیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اوجھڑی کیمپ دھماکے کی تحقیقات کا حکم بھی دے دیا۔ ابھی جونیجو مرحوم کا دیا یہ زخم پوری طرح مندمل بھی نہیں ہوا تھا کہ صر ف سات سال بعد ایک ہاتھوں کا لگایا پودا عرف نواز شریف سامنے آ کھڑا ہوا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

نواز شریف کو دوسری مرتبہ موقع دیا گیا تو بزورِ کمانڈو عرف نڈر مشرف نکالنا اور باہر بھجوانا پڑا۔ اب 2013 میں حکومت ملنے پر تو یہ بھائی جان پر غداری کا مقدمہ چلانا چاہتا تھا۔ اور کچھ کچھ عوامی مینڈیٹ یا ووٹ کی بات بھی زیرِ لب کرنی شروع کر دی تھی۔ شریف لوگوں کے لندن میں فلیٹس، کئی جائدادیں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کاروبار بھی ہیں۔ جن کی منی ٹریل یہ نہیں دے سکے۔ اسی چکر میں آج کل میاں نواز شریف( جو اصل پارٹی لیڈر ہیں جیل میں ہیں)۔

ان بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے علاوہ ایک عجیب و غریب یعنی maverick (کیا ترجمہ کیا جائے۔ نوٹنکی کہہ لیں) بھی 1996ء سے انتخاب میں حصہ لے رہا ہے۔ یہ مشہور، ہر دلعزیز کرکٹر اور انسانیت دوست عمران خان ہے۔ اس بیچارے کو کسی صوفی نے (لوگ کہتے ہیں، ریٹائرڈ جرنیلوں نے) کہہ دیا کہ تم وزیرِ اعظم بنو گے۔ غالباً اس نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ کون سے ملک کا، اور پاکستان چلا آیا۔ بعد از خرابی و خواریِ بسیار، 2011ء  میں ایک حاضر سروس جرنیل نے اس کو گود لیا اور اس کی وجہ سے اب اس کی ایک سیا سی جماعت ہے جس کا نام پی ٹی آئی ہے۔ مجھے میرے دوستوں نے بتایا کہ عزیزی بلاول کے علاوہ بھارت کے چھیالیس سالہ راہول گاندھی اور پاکستان  کے سترے بہترے عمران خان بھی اُن سیاست دانوں میں سے ہیں جن کی انڈر ٹریننگ کی تختی پتھر کاٹ کر بنائی گئی ہے۔ اس نوجوان کے پاک دامنی اور کرپشن سے پاک معاشرے کا بیان سن کر بہت سے تخیل پرست جو پاکستان کو بہتر دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے ساتھ ہو لیے۔ بہت سے اقتدار کی چاہ رکھنے والے بھی اس پر پنڈی کے پیروں کی شفقت دیکھ کر اس کے ہمرکاب ہیں۔

اب تو سدا بہار اقتداری، جنہیں لوٹے کہا جاتا ہے، اس تعداد میں پی ٹی آئی میں ہیں کہ کئی مساجد میں کم پڑ رہے ہیں۔ لیکن یہ سب بیکار باتیں ہیں۔ میرے دوستوں کا کہنا تھا کہ عمران خان کے لیے صرف ایک امر اہم ہے۔ اس کا وزیرِ اعظم ہونا۔ خواہ الیکشن ہوں یا نہ ہوں۔ یہ کام شیطان کرے یا اس کا کوئی چیلا چانٹا۔ پاکستان کا اگر کوئی مقصد ہے تو وہ عمران خان کو وزیرِ اعظم بنانا۔ ورنہ گاو آمد خررفت۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے میرے دوست زیادتی کر رہے ہیں۔ سرور میں رہنے والوں کو اس سے کوئی زیادہ سروکار نہیں ہوتا۔

ایسی اور بہت سی مزیدار باتیں ہیں، جیسے کہ کس کس کے پاس ایک سے زیادہ لائسنسی بیویاں نکلیں۔ ایمانداری سے، بلکہ بے ایمانی سے بھی، اگر دیکھا جائے تو یہ ساری جماعتیں اور ان کے زیادہ تر امیدوار، ہر گز ہرگز ایسے نہیں جن کو ووٹ ڈالا جائے۔  لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ میں نے یاروں دوستوں، عزیز رشتے داروں، حد یہ کہ بھائیوں اور بہنوں کو ان کے لیے آپس میں لڑتے دیکھا ہے۔

اس سب کے باوجود، ان انتخابات کی ایک تھیم ہے، ایک بُنیادی خیال ہے، جس کے گرد یہ الیکشن گھوم رہا ہے۔ وہ ہے ووٹ اور ووٹر کی عزت۔  یہ ایک سیاسی پارٹی کا نعرہ ہے : ووٹ کو عزت دو۔  جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ ووٹ کو عزت نہیں دینی۔ ان کا استدلال ہے کہ جب ستر سال سے ووٹ کو عزت نہیں دی گئی تو اب کیوں؟ مزے کی بات یہ ہے کہ جس ادارے کا ووٹ کو بوٹ کی ٹھوکر سے بے عزت کرنا مسلسل عمل تھا اُس نے یہ کہنا بند کر دیا ہے۔ لیکن ایک سیاسی پارٹی کا کہنا ہے کہ ہم وردی والے آمر کو ستر مرتبہ منتخب کریں گے۔  جن دیگر جماعتوں کو بھی ارضی و سماوی طاقتوں کی آشیر واد حاصل ہے وہ اسی وعدے پر ہے کہ ہم ووٹ کی عزت نہیں ہونے دیں گے۔ عجیب بات ہے جس فرد نے ووٹ کو عزت دو کا فارمولا دیا ہے، وہ خود اسی راستے سے اس مقام پر پہنچا ہے ۔ چنانچہ اس کے مخالفین بجا طور پر یہ اعتراض اُٹھاتے ہیں ۔  ان کا کہنا ہے کہ ہم بھی وہی راستہ اختیار کر کے وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں تو اس میں ہرج ہی کیا ہے؟ ساڈی واری کہیڑی موت پیندی اے؟ چونکہ ہر پاکستانی اپنا پہیہ خود ایجاد کرنے پر یقین کرتا ہے، ہمیں اس عمل پر انگلی اُٹھانے کا کوئی حق  نہیں ہے۔ ویسے بھی ثقافتی طور پر ایسی حرکات برِصغیر خصوصاً پاکستان میں عام ہیں۔ عوام بھی ان کے عادی ہیں۔ جیسے کہ لوٹا ازم عرف الیکٹ ایبل۔  ان میں بھی جناب مشاہد حسین اور جناب ہمایوں اختر خان مینارہ نور یا ان کے نقاد کے مطابق مینارہِ تاریکی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جبکہ کچھ ہمدردوں اور ’ غیر جانبدار ماہرین‘ کا کہنا تھا کہ لوگ معاملات نہیں سمجھتے۔ یہ ان کی اور ان جیسے دوسرے الیکٹ ایبل کی مجبوری ہے کہ یہ لوگ آکسیجن کے بغیر تو زندہ رہ سکتے ہیں، اقتدار کے بغیر نہیں۔  مجھے میرے مقامی دوستوں نے بتایا کہ اس دفعہ لوٹے اور دیگر روایتی اُمیدوار کافی مشکل میں ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ عوام ایسے ایسے سوالات کر رہے ہیں جس کے یہ سردار، جاگیر دار عادی نہیں ہیں۔ چنانچہ ان میں سے کئی اپنا بہروپ برقرار نہیں رکھ سکے۔

ایک نے کہا : اپنے سردار کو ووٹ دینا ہی ہوتا ہے ۔ ایک معمولی ووٹ پر اتنے نخرے۔  یہ سب سے معقول بات تھی جو ان مسلسل منتخب ہونے والوں میں سے کسی نے کی۔ ورنہ عام ٹون یہ تھی کہ

تمہارا ووٹ! میں اس پر پیشاب بھی نہیں کرتا۔ ایک اور اُمیدوار کا اپنے ووٹروں کو کہنا تھا کہ وہ انسان بن جائیں ۔ خواہ مخواہ کی ہوائی باتوں میں نہ آئیں۔ ووٹ تو ہمیں ہی دینا ہے۔ اپنی اوقات پہچانو۔ لیکن ایسا طرزِ عمل دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ میڈیا کے اس دور میں بدمعاشی ناممکن تو نہیں لیکن اس کی معاشرتی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک بات میں نے خود بھی نوٹ کی کہ پاکستانی عوام کا سیاسی شعور قابل رشکِ حد تک زیادہ ہے۔ پاکستان بنانے کے لیے ووٹ، 1970 کے انتخابات سے 2013 تک ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کو مایوس کرنے والے، حد یہ کہ 2002 کے ننگے فوجی انتخابات میں بھی سرکاری سیاسی جماعت مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ میرے دوستوں کا کہنا تھا کہ اس دفعہ سماوی و ارضی طاقتیں جس طرح کھل کھلا کر سرپرستی و مخالفت کر رہی ہیں، وہ ایوب خان کے مادرِ ملت کے خلاف مداخلت کے بعد سب سے بڑا قبل از انتخابات آپریشن ہے۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ ووٹ کو عزت ملتی ہے یا اس کی مزید بے عزتی کا جو سامان کیا جارہا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).