اب عمران کو تنہا مت چھوڑنا!


یہ جولائی کی 24 تاریخ ہے۔ کل انتخابات کا دن ہے۔ چند سطریں پیش خدمت ہیں کہ سند رہیں

بھٹو کے ساتھ تو جو ہوا سو ہوا۔ تاریخ کے قاری ہیں، عہد کے چشم دید گواہ نہیں لیکن بعد میں جو کچھ بی بی کے ساتھ ہوا اس عہد کم ظرف کو کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ آج جنہیں بی بی شہید کہا جاتا ہے، اور متنبہ کیا جاتا ہے کہ نواز شریف جیسے لیڈر کا بی بی جیسی قد آور رہنما سے تقابل کسی طور درست نہیں۔ ان کا حال یہ تھا کہ کردار کشی میں تمام حدیں پھلانگ لی گئیں۔ نواز شریف اور ان کے شیخ رشید جیسے حواریوں نے ان کو سینگوں پر اٹھائے رکھا۔ وہ عہد آج کے اس زمانے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ وہی بی بی کی سول سپرمیسی کی باتیں اور غداری کے القابات۔ کرپشن کی ہوشربا داستانیں اور مذہب کو ان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنا۔ بی بی کے پہلے دور اقتدار میں جس طرح ووٹ کی توہین کی گئی اور ہاتھ پاؤں باندھ کر اقتدار ان کے حوالے کیا گیا اس کی ایک منظر کشی کرسٹینا لیمب کی کتاب ‘اللہ کا انتظار’ میں ملتی ہے۔

وہ دور بھی آج کے دور سے کوئی خاص مختلف نہیں تھا۔ اس دور میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں ہمکتے منہ میں چوسنی لیے نواز شریف محب الوطن ٹھہرے اور بی بی کے تمام عقلی دلائل نواز شریف کے حواریوں کی ایک گندی گالی کی مار نہ سہہ سکتے تھے۔ اس وقت بھی یہی خیال کیا جاتا تھا کہ بے نظیر کے پیچھے عالمی اسٹیبلشمنٹ ہے جبکہ نواز شریف جیسا بھی اس کے پیچھے تو ہمارے اپنے ہیں۔ بے نظیر سیاسی جدوجہد کر رہیں تھیں۔ جیل جا رہیں تھیں۔ مار سہہ رہیں تھیں۔ دوسری طرف ووٹ کی توہین کا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ پیپلز پارٹی کو نکڑ سے لگا کر من پسند پارٹیوں کو کھل کھیلنے کا موقع دیا جا رہا تھا۔

جب عوام باشعور ہوں تو وہ دوسروں کے حق اختلاف کے لیے بھی لڑتے ہیں۔ لڑ نہ سکیں تو سمجھتے ضرور ہیں۔ پاکستان میں سیاسی شعور کی کبھی کمی نہیں رہی۔ شاید اسی وجہ پاکستانی عوام نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے برعکس ہی فیصلہ دیا۔ اجتماعی شعور کواس سطح تک پہنچنے میں وقت درکار ہوتا جہاں ان کے ساتھ دھوکہ دہی کے امکانات قدرے کم ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ سطح ہوتی ہے جہاں ایک سیاسی ورکر، اپنی مخالف سیاسی جماعت کے حق کے لیے بھی لڑتا ہے۔ گذشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو کارنر کر دیا گیا تھا۔ ان کو آزادی سے انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب ن لیگ بغلیں بجا رہی تھی۔ لیکن اگر اسی دور میں ن لیگ کو کارنر کر دیا گیا ہوتا تو کیا پیپلز پارٹی ، نون لیگ کے حق انتخاب کے لیے لڑتی ؟ شاید نہیں۔ اسی امیچیورٹی سے نکلنے کا مطلب ‘ووٹ کو عزت’ دینا ہے

اب عمران خان، پاکستان کے تمام مسائل کے حل کا استعارہ ٹھہرے ہیں۔ نوجوان سحر میں ہیں، ان کی آنکھوں میں چمک ہے۔ عمران خان کی غلطیاں، انہیں نواز شریف کی کرپشن سے کم نظر آ رہی ہیں۔ پاکستان میں 70 سالہ زبوں حالی کا سبب نواز شریف بالخصوص اور سیاستدان بالعموم ٹھہرے ہیں۔ عمران خان پر کرپشن کے کوئی چارجز نہیں ہیں کا ایک عمومی تاثر ان سے محبت کرنے والوں کے ذہن میں نمایاں ہیں۔ ہمیں یاد صرف یہ رکھنا ہو گا کہ نواز شریف نے جب یہ والا پانچ سالہ دور اقتدار سنبھالا تو ایک عدد کلین چٹ ان کے پاس بھی تھی حالانکہ وہ اس سے پہلے 30 سال سے اقتدار کی راہداریوں میں تھے۔ فی الحال عمران خان یا ان کی پارٹی پر کرپشن کے وہ کئی مقدمات جو عدالتوں میں رہے ان کی حیثیت اتنی ہی غیر اہم ہے جتنا نواز شریف کے فلیٹس کی اہمیت آج سے پانچ سال پہلے غیر اہم تھی۔

 یہ اہم کب ہوتی ہے؟ جب سیاستدان، سیاستدان بننے کی کوشش کرتا ہے۔

غیر جذباتی اور تکنیکی حوالے سے سوچیں، عمران خان باجود اچھی نیت رکھنے کے کالاباغ ڈیم نہیں بنوا سکیں گے۔

عمران خان ، دیامر بھاشا، بونجی یا سکردو ڈیم وغیرہ نہیں بنوا سکیں گے جب تک مکمل خارجہ پالیسی ان کے ہاتھ میں نہیں ہو گی اور گلگت بلتستان ‘متنازع حیثیت ‘ سے باہر نہیں نکل آئے گا اور ورلڈ بینک ڈیم بنانے کے لیے رقم فراہم نہیں کرے گا۔

عمران خان پر کرپشن کے پرانے مقدمات کھلیں گے وہی مقدمات جو آج بھی ہم سب کو معلوم ہیں لیکن جب اس وقت کھلیں گے تو ایسا دکھائی دے گا جیسے پاکستان میں غربت کی واحد وجہ عمران خان کا لوٹا ہوا پیسہ ہے۔ جو کہ یقیننا حقیقت سے بہت دور بات ہو گی۔

چاہے کوئی ڈکٹیٹر ہو یا سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں بننے والا حکمران اس کی پہلی ترجیح بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی ہوتی ہے۔ ڈکٹیٹر چاہے دو زانو ہو کر کسی بھارتی حکمران کو فرشی سلام کریں اس سے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن ایک سیاسی حکمران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ عمران کی ایسی ہی کسی مخلصانہ کوشش کی تصاویر بعد میں ان کی غداری کی گواہ ٹھہریں گی۔ پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ عمران خان کی ذات کو سمجھا جائے گا۔

میں سیاستدانوں کو بوجوہ کرپٹ نہیں کہتا۔ سیاستدانوں کی کرپشن کے باوجود ان کو کرپٹ نہیں کہتا۔ سیاستدانوں کو کرپٹ کہنے سے پہلے میں اس آزادی کا متمنی ہوں جس میں ملک کے اندر کسی بھی کرپٹ کو کرپٹ کہنے کی آزادی ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سیاستدان کو کیوں کہ ایمیونٹی حاصل نہیں ہے اس لیے جو جب جیسے چاہے سیاستدانوں کو سینگوں پر اٹھا لے۔ جھوٹ ثابت ہو تو معافی مانگنے کا تکلف بھی نہ کرے کیونکہ سیاستدان نے کیا اکھاڑ لینا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا نواز شریف کے بائی پاس آپریشن کا کچھ میڈیا اینکرز نے کس قدر مذاق کا نشانہ بنایا اور اب جب کہ ثابت ہو گیا ہے آپریشن ہوا تھا تو کیا کسی نے معافی مانگنے کا تکلف کیا؟ نہیں کیا۔ کیونکہ سیاستدانوں کوگالی دینا اور تذلیل کرنا ہمارا بنیادی پیدائشی حق ہے۔

عمران خان ابھی اقتدار میں نہیں آئے۔ جیسے ہی وہ ‘ناپسندیدگی کی فہرست’ میں آئیں گے ان کے خلاف بھی جھوٹ اور تذلیل کا بازار گرم ہو جائے گا۔ اصول کی عینک پہنی ہو تو کوئی شخصیت دیوتا نہیں ہوتی۔ جو اصول کے دائرے میں آتا جائے قابل عزت ٹھہرتا جائے۔ سیاست کی سائنس میں مقصدیت اور معروضیت اہم ہیں۔ مقصدیت اور معروضیت تک پہنچنے کے لیے جذبات کا معتدل رکھنے کی منزل اہم ہے۔ مقصدیت اور معروضیت اہم ہو جائیں تو پانچ سال کسی سیاسی شخصیت کی پوجا نہیں کی جاتی بلکہ انتخابات کے انتہائی قریب آنے پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس دفعہ ووٹ کس کو دینا ہے؟

عمران پر کڑا وقت آئے گا۔ تسلسل کی ایک ناگزیر کڑی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ عمران کے ساتھ اس وقت صرف وہی لوگ کھڑے ہوں جو ہر سیاستدان پر کڑا وقت آنے پر کھڑا ہوتے ہیں اور جم غفیر کسی نئے محب الوطن کے ترانے گا رہا ہوتا ہے۔ عمران خان کا ساتھ صرف انتخابات تک کے لیے نہیں بلکہ ان سے محبت کرنے والوں کو کڑے وقت میں بھی ان کا ساتھ دینا ہو گا۔ الزامات کی جب بارش ہو گی تو یہ ضرور سوچنا ہو گا کہ عمران خان جو 70 برس کی عمر تک کرپٹ نہیں تھا اچانک ایسا کیا ہوا کہ ان کر پشن کے چارجز کی بھرمار ہو گئی ہے۔ ان سے محبت کرنے والوں کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کرپشن کے چارجز ، عمران نے دور حکومت سے متعلق ہیں یا حکومت سنبھالنے سے پہلے کے دور کے متعلق؟ اگر پہلے دور کے متعلق ہیں تو اب ان کا اس قدر ڈھنڈورا کیوں پیٹا جا رہا ہے؟

عمران خان تبدیلی کے نعرے کو لیکر آگے بڑھے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ گیلی گھاس پر چلتے ہوئے جب پگڈنڈی پر انگارے آئیں گے تو کون کون ان کے ساتھ کھڑا ہو گا؟

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik