ووٹ کسے دے رہے ہو صاحب جی


ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ فیصلے تو ہوچکے ہیں اب بس میدان میں گھوڑے دوڑانے کا عمل کیا جائے گا۔ لیکن پھر بھی پسِ پُشت جتنے معاہدے کر لیے جائیں وہ ہمیشہ ہی ایک گمشدہ جُرم کی طرح گُم ہی رہتے ہیں اصل فیصلہ میدانوں میں مقابلے کی صورت میں آ نکلتا ہے۔

بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب سب کو پتہ چل جائے گا کہ اقتدار کی دیوی نے کس سے منہ موڑا اور کس کے گلے میں فتح کی مالا پہنائی، مگر تجسس کے مارے بے صبرے لوگ سوئمبر کی باقاعدہ رسم سے پہلے ہی جان لینا چاہتے ہیں کہ 25 جولائی کو کیا ہونے والا ہے۔ گھر مین ہوں، دفتر میں، چائے کے ڈھابے پر، چوک چوراہے میں، سینئر، جونئیر، بڑے چھوٹا سب پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ووٹ کسے دو گے صاحب جی؟ اب اس کے بعد جواب اپنی مرضی کا دیں تو اگلے کا معلوم نہیں کہ خوش بھی ہوتا ہے یا کہ ناراض۔ بہرحال لوگوں کی دلچسپی قابل ستائش ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو سمجھداری عطا کی ہے ساتھ لاشعوری بھی ہے لیکن اہم بات ہمیشہ مثبت پرکھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر بندہ فیصلے کرنے کا اختیار رکھتا ہے، سوال کرتا ہے، اپنے مستقبل پر فکرمند ہے اور ماضی میں گزری پونی صدی کو بھی سب یاد کرتے ہیں۔

”سوالی“ کرید کرید کر ایسے سوال پوچھتا ہے کہ عزت سادات بچانا مشکل ہو جاتی ہے، جن ملکوں میں جمہوریت بالغ ہو چکی ہے سیاسی پارٹیاں نظریات کی بنیاد پر بنتی ہیں اور سیاستدان محض کرسی کے لئے نظریے کبھی نہیں بدلتے اور نہ پارٹیاں، وہاں انتخابات ایشوز پر لڑے جاتے ہیں اور ایشوز ہی رائے عامہ کے رجحانات کی تشکیل کا پیمانہ ہوتے ہیں لیکن پاکستان پر اس جمہوری ”بدعت“ کا اطلاق نہیں ہوتا۔

وطن عزیز میں نظریے کی کوئی عزت مقام نہیں ہے، جس طرح ر پانچ سال بعد ہر پارٹی کا نعرہ بدلتا رہتا ہے، سونامی، نیاپاکستان، بلے پر نشان یا پھر کبھی شیر آیا تو کبھی ووٹ کو عزت دو، اس سارے ضمن میں ووٹر عزت کے لیے ترستا رہے کوئی فکر نہیں۔ کسی کی اٹھان اصول اور نظریے کی بنیاد پر ہو اور عوام اس کے پیچھے جمع ہونے لگیں تو اس نظام کے مہان پنڈت سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، پارٹی جس کی بھی ہو، نظریہ نعرہ کیا ہو، کیسے جوڑ توڑ کرنا ہے اور ان پُرانے گھوڑوں کو اصطبل میں دوڑانا کیسے ہے، لگام کس نے پکڑنی ہے اور اوپر کس نے بیٹھنا ہے یہ سب طے ہوتا ہے، کسی کھلاڑی کو وقت کا جبر مجبور کرتا ہے تو کسی کو دالحکومت کی وہ گزرے شام و سحر۔ باقی اسمبلیوں کے اجلاسوں اور کارکردگیوں کا حال تو سب دیکھتے ہیں۔

مذہبی سیاسی جماعتیں یا چھوٹی موٹی سیکولر پارٹیاں نظریات کی پاسداری کا دعویٰ کر تی ہیں مگر اجارہ دارانہ سیاست ان کا حلقہ اثر محدود کر دیتی ہے۔ انتخابات کے کھیل کے بڑے کھلاڑی بھی جاگیردار، وڈیرے، نواب، سردار، خان، ملک، سرمایہ دار، پیر اور گدی نشین ہی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں قومی درد رکھنے والے اصول پرست لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن اکثریت ان کی ہے جن کے مفادات اور مصلحتیں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں اور ساتھ ہی ان کی وفاداریاں بھی۔ کبھی جمہوریت کے لیے بلند و بانگ دعوے تو کبھی جمہہوریت کو چوری چھپے نقصان پہنچانے کے آقاؤں کے ساتھ انڈر ورلڈ میں معاہدے۔

25 جولائی کے انتخابات کے نتائج من پسندی سے دکھائے جا رہے ہیں بلکہ وزارت عظمیٰ کے لیے کئی نام بھی تجویز کر دیے گئے ہیں۔ پھر بھی اُمید کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا گناہ ہے مگر کیا کیجئے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں بھی کوئی تبدیلی آتے دکھائی نہیں دیتی۔ پچھلے 70سال کے تجربات کے پیش نظر یہ پیش گوئی ناممکنات میں سے نہیں کہ اس مرتبہ بھی وہی لوگ گلے میں مختلف جھنڈے پہن کر سامنے لائے جا رہے ہیں، وہ اب نظام بدلنے کی قسمیں بھی کھائے جا رہے ہیں اور اب بس کی روداد بھی پیش کر رہے ہیں۔

ویسے تو یہ سب ایک خاندان کی مانند ہیں اور سیاست ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ پرانے وقتوں میں موروثی بادشاہتیں ہوتی تھیں۔ جن میں باپ کے بعد بیٹا تخت نشین ہوتا تھا آج موروثی جمہوریت کا دور ہے جس میں باپ بیٹے بیٹیاں بیویاں بہوئیں داماد سمدھی سمدھنیں سب عوام الناس کے ووٹوں سے منتخب ہوکر ایک ساتھ تخت پر بیٹھتے ہیں۔ عوام انہیں ووٹ دینے پر مجبور ہیں کیونکہ ایسا نہ کریں تو انہیں تھانے کچہری اور پٹوارخانوں کے ایسے چکروں میں پھنسا دیا جاتا ہے کہ ساری عمر ان سے باہر نکل نہیں پاتے۔ ملک میں جو 58 فیصد لوگ غربت کے نچلے درجے میں گل سڑ رہے ہوں وہ ان کا مقابلہ کرنے سے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے۔ تاہم تعلیم کی شرح اور سوشل میڈیا کے استعمال سے لوگوں کے سیاسی شعور میں بھی اضافہ ہوا ہے اور موروثی سیاسی خاندانوں سے باہر کے کچھ سر پھرے بھی منتخب ہوئے تھے مگر جا کر کچھ ویسے ہی ہوگئے کسی کو بولنے تک نہیں دیا گیا۔

ان حالات میں قوم کوئی حقیقی تبدیلی چاہتی ہے تو اسے تمام خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا ووٹ ایسے لوگوں کے حق میں استعمال کرنا ہوگا جو بے شک جاگیردار‘ سرمایہ دار اور گدیوں کے مالک بھی ہوں مگر کردار اور گفتار میں اچھے ہوں، درد دل رکھنے والے ہوں، کبھی کسی آمرانہ نطام کے حامی نہ ہوں، لالچی اور پالشی نہ ہوں، ایسے جمہوری بھی نہ ہوں کہ جمہوریت زبان پر لٹکی رہے مگر کردار آمریت سے بھی بدتر ہو۔ ووٹ دیجیے اگر آپ سمجھتے ہین کہ کوئی نظریے پر ڈٹ کے کھڑا ہے تو اسے ہی ووٹ دیں، بجائے ان کے جنہیں الیکٹیبل کہتے ہوں جو ہر دور مین دو رویہ آنے والی بسوں پر دند منجن بیچنے والوں کی طرح سوار ہو کر منجن بیچنے نکلے ہوں۔ نا امیدی گناہ ہے اپنا ووٹ استعمال کریں مگر اپنے ضمیر کو مطمئن کریں جذباتی نہ بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).