اگر انگیلا میرکل وزیراعظم پاکستان بن جائیں


جرمنی کی تاریخ میں طویل ترین عرصہ تک چانسلر کے عہدے پر فائز رہنے والی انگیلا میرکل اگر پاکستانی وزیراعظم بنیں تو کیا وہ پاکستان کے مسائل اسی طرح حل کرتیں، جیسے انہوں نے چند بین الاقوامی تنازعات حل کیے ہیں؟

تحریرپڑھنے سے قبل یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ نہ تو کسی مشاہدے پر مبنی ہے اور نہ ہی چانسلر میرکل کے ساتھ خصوصی گفتگو پر۔ جناب کچھ دیر کے لیے تصور کر لیجیے کہ جرمنی میں بھی فوجی ادارے کے علاوہ دوسرا کوئی ملکی ادارہ نہ تو مضبوط ہوتا نہ ہی ٹھیک کام کر رہا ہوتا اور تمام سیاستدان معاشی طور پر بدعنوانی کے شکار ہوتے تو ایسی صورتحال میں مغرب کی دور حاضر کی طاقتور ترین خاتون سمجھی جانے والی انگیلا میرکل کس طرح ملکی حالات پر قابو پاتیں اور ملک میں جمہوریت کو کیسے مستحکم کرتیں؟

انگیلا میرکل طبعیات میں پی ایچ ڈی ہیں لہٰذا وہ ‘ریشنلزم’ یا عقلیت پسندی سے کام لیتی ہیں نہ کہ’آئیڈیئلزم‘ یعنی’ مثالیت پسندی‘ سے۔ یورپ میں یونان کا معاشی بحران ہو، ایران جوہری معاہدہ ہو، پیرس میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق طے پانے والا معاہدہ ہو، روس کا یوکرائنی جزیرے کریمیا پرقبضہ ہو یا خانہ جنگی کے شکار مہاجرین کا بحران ہو، میرکل نے ان تنازعات میں غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔

میرکل کی زندگی پر گہری نظر رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ میرکل ‘اپنے مخالفین کو دوستوں سے بھی زیادہ قریب رکھتی ہیں اور ان کے ساتھ بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں کرتیں۔ مفاہمتی پالیسی اپناتے ہوئے وہ سیاسی حریفوں کا اعتماد حاصل کرنے کا موقع ہاتھ سے کبھی جانے نہیں دیتیں،شاید یہی وجہ ہے کہ روسی صدر پوٹن ’محترمہ میرکل‘ سے بہت گرم جوشی سے ملتے ہیں اور ان کے خیالات کی ہمیشہ قدر بھی کرتے ہیں۔

اگر میرکل پاکستان کی وزیراعظم بن جائیں تو دفاعی معاملات، سکیورٹی امور اور خارجہ پالیسی کے سلسلے میں عسکری قیادت کو اپنے ساتھ ملا کر اور اس کا اعتماد حاصل کر کے فیصلے کرتیں اور دوسری جانب جمہوری اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام اہم فیصلوں کے لیے پارلیمان کی حمایت کے حصول کو یقینی بناتیں۔ اسطرح وہ ملک میں جمہوری طاقتوں کے خلاف کی جانے والی پس پردہ سازشوں پر قبل ازوقت گرفت رکھ پاتیں۔ دوسری طرف میرکل تمام مذہبی قدامت پسند حلقوں کو یہ تاثر دیتیں کہ وہ اُن کے ساتھ مل کر معاشرے میں رواداری اور برداشت کو فروغ دینے کے لیے تعلیم اور ثقافتی سرگرمیوں پر غیر معمولی توجہ دیتی ہیں اور اس کے لیے ملکی خزانے کا استعمال بھی بھرپورطریقے سے کر رہی ہیں۔

یہ تو ہوگیا ’ملا اور ملٹری‘ سے معاملہ لیکن چھوٹے صوبوں کے عوامی حقوق کے تحفظات کا کیا جائے؟ محترمہ میرکل کا تعلق سابق مشرقی جرمنی سے ہے۔ اس لیے وہ بخوبی سمجھتی ہیں کہ صوبائی خودمختاری کتنی اہم ہے، لہٰذا جرمنی کی طرح پاکستان میں بھی چھوٹے صوبوں کی وفاق میں نمائندگی اور مقامی وسائل پر خود مختاری کے ذریعے اقتصادی ترقی یقینی بناتیں اور ساتھ ہی مستحکم معیشت کے حامل صوبوں پرزور دیتیں کہ وہ وفاقی نظام کے تحت معاشی طور پر بدحال صوبوں کے اقتصادی استحکام میں تعاون کریں تاکہ ان صوبوں کےعوام بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر قومی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ پاکستان میں یہ تجویز یقینی طور پر نئی نہیں ہے لیکن ملکی آئین میں اٹھارویں ترمیم کے باوجود صوبوں کی خود مختاری پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔

میرکل بحیثیت ایک ماہر طبعیات تعلیمی اداروں میں جدید تحقیق اور ایجادات پر خاص توجہ دیتیں اور پارلیمان پر ہر ممکن دباو ڈالتیں کہ صحت اور تعلیم کے منصوبے، وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر، حکمرانوں کی اولین ترجیحات میں شامل ہوں۔

پاکستان کو درپیش انگنت مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ’کرپشن‘ کا ہے۔ اس مسئلے کو محترمہ میرکل کیسےحل کرتیں؟ میرکل کے پاس الہ دین کا چراغ تو ہے نہیں کہ جس کی مدد سے تمام مسائل فوراً حل ہوجائیں، لیکن وہ اپنے دور حکومت میں عوام کے اندر یہ شعور ضرور بیدار کرتیں کہ معاشی بدعنوانی یا ٹیکس چوری کرنے والے افراد دیمک کے مانند ہوتے ہیں جو معاشرے کو اندر سے چاٹ جاتے ہیں اور اس سے چھٹکارا محض آزاد اور منصفانہ احتساب کے عمل سے ہی ہو سکتا ہے۔

آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ شاید ہی کوئی ایسا پاکستانی ہوگا، خواہ وہ بیرون ملک مقیم ہو یا پاکستان میں، جس کی یہ خواہش نہ ہو کہ ملک کےمجموعی حالات سازگار ہوں، اقتصادی اور سیاسی استحکام ہو، امن و امان کی صورتحال بہتر ہوجائے اور ان کی آنے والی نسلیں ایک آزاد معاشرے میں پروان چڑھیں۔

یہ سب کچھ ناممکن نہیں لیکن لڑکھڑاتی جمہوریت کے سہارے یہ عمل مشکل اور طویل ہوگا جسکی وجہ سے عوام کو نہ صرف ایک مسیحا کی تلاش ہے بلکہ وہ انتخابی عمل کے ذریعے مسائل کا ‘فوری حل ‘ چاہتے ہیں۔

میری ناقص رائے میں پاکستانی عوام کو متحرک ہو کر اپنے مستقبل کے لیے خود جدوجہد کرنا ہوگی جس میں سب سے پہلے انفرادی طور پر اپنے اندرسوئی ہوئی اس ’انگیلا میرکل‘ کو جگانا ہوگا جو صرف اور صرف ملکی ترقی اور قوم کے فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہتی ہے۔ جس کامقصد اختلاف رائے رکھنے والوں کواپنے قریب لانا ہے نہ کہ دشمنی اور نفرت کی آگ کو ہوا دینا۔ امید ہے کہ ایک دن پاکستان میں بھی ہم جرمنی جیسی مضبوط جمہوریت دیکھیں گے جس میں ملکی فوج بیرکوں میں ہوگی اور جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے ہتھیاروں کی بجائے آئین اور قوانین کا استعمال کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).