ایک ہزار کفن، فارمی مرغیاں اور عام انتخابات


23 جولائی کو ڈپٹی کمشنر پشاور نے عام انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر خدا نخواسطہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا ہے۔ تو ہم نے پہلے سے ایک ہزار کفن کا اتنظام کر دیا ہے۔ چند منٹ کے اندر اندر ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی کیونکہ انتظامات بہتر ہے کہنا اور ساتھ کفن کا بندوبست بھی کرنا، دومتضاد باتیں تھیں۔ اگر انتظامات بہتر تھیں تو ایک ہزار کفن تیار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

خیر سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ڈپٹی کمشنر کو تنقیدی اور تلخ لفظوں کے ہار پہنائے۔ عمران خان کے ٹائیگرزنے ڈپٹی کمشنر کو بلاجھجک خوب گالیاں دیں۔ سراج الحق اور مولانا فضل الرحمان کے کارکنوں نے اسلامی پوائنٹ آف ویو سے ڈپٹی کمشنر کی بات غلط ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ن لیگ کے کارکنوں نے کمشنر کے بیان کو بھی عمران خان کے کھاتے میں ڈالا اور روایتی انداز میں خان صاحب پر لفظی گولہ باری جاری رکھی۔ بعض لوگ ڈپٹی کمشنر کی بیان پر صدر ممنون حسین کی طرح خاموش رہے لیکن بعض نے سید قائم علی شاہ کی طرح پولیس ڈیپارٹمنٹ اور نگران حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔

دیگر پاکستانیوں کی طرح میں نے بھی سوشل میڈیا پر ڈی جی آئی ایس پی آر کے یک طرفہ پریس کانفرنس کی طرح ڈپٹی کمشنر کی کلاس لی۔ حالانکہ اگر ڈپٹی کمشنر کی بات پر ٹھنڈے دماغ سے ایسے غورکیا جائے، جیسے نیوٹن نے سیب زمین پر گرتے وقت کیا تھا تو اس کا بیان گزشتہ حالات کی تناظر میں بلکل درست ہے۔ کیونکہ کم آبادی والے ملک میں ایک سال کے دوران اتنی فارمی مرغیاں ذبح نہیں ہوتیں جتنے ایک سال میں پاکستانی شہری حادثاتی اور سانحاتی موت مرتے ہیں۔ ہمارے بارے میں مشہور ہے کہ پاکستانی نیا واقعہ رونماء ہوتے ہی پرانا بھول جاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کیونکہ جن لوگوں کو ہر روز نیا زخم ملتا ہو، وہ پرانے زخم کو کیسے یاد رکھ سکتے ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر ایک جملہ پڑھا تھا کہ دریا میں چاہے آمریت ہو یا جمہوریت لیکن حکومت ہمیشہ مگر مچھ ہی کی رہے گی۔ اس جملے کا میرے مضمون سے کوئی تعلق نہیں یہ تومیرے ذہن کے باغی بیکٹیریا نے میرے چھٹی حس پر دستک دی اور مضمون میں درج کرنے پر زور دیا۔

طارق بن زیاد نے سپین پر حملہ آور ہونے سے قبل اپنی کشتیاں جلائی تھیں۔ جو دشمن کے لئے پیغام تھا کہ ہم یا تو جیت کر یہاں پر قابض ہوجائیں گے یا جام شہادت پی کر تاریخ میں امر ہو جائیں گے۔ شاید ڈپٹی کمشنر پشاور بھی ٹوٹی کمر والے دشمن کو خبردار کرنا چاہتے تھے کہ آپ اگر الیکشن والے دن ایک ہزار بندے مار بھی دیں تو چنتا کرنے کی کوئی بات نہیں کیونکہ کفن تو ہم نے پہلے سے تیار کیے ہیں۔

یا ہوسکتا ہے کہ کمشنر صاحب نے جولائی سال 2015 کو شہر قائد میں ہیٹ اسٹرک سے ہونے والی ہلاکتوں سے اندازہ لگایا ہو۔ کیونکہ سال 2015 میں ہیٹ اسٹروک کی باعث کراچی کے 1267 شہری لقمہ اجل بنے تھے۔ اب جب ہیٹ اسٹروک سے 1267 افراد مر سکتے ہیں تو الیکشن کا دن جو بہت حساس ہوتا ہے، اس کے لئے ایک ہزار کفن کا قبل ازوقت بندوبست کرنا برا آئیڈیا نہیں۔ اگر ڈپٹی کمشنر پانچ سو قبروں کا بندوبست بھی کرتے تو چھا جاتے کیونکہ کراچی میں ہیٹ اسٹروک سے شہید ہونے والے سینکڑوں افراد کو اجتماعی قبر میں دفن کرنا پڑا تھا۔

اب کراچی میں بجلی اور پانی کی صورتحال کیا ہے۔ یہ کراچی کے باشندوں کو پتہ ہوگا۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ سال 2014 میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے مس فاطمہ جناح کو انتقال کے 47 سال بعد دو لاکھ 67 ہزار774 روپے پانی اور سیوریج کا بل بھیج دیا تھا۔ جس سے وہاں کے ذمہ داروں کی اپنے پیشے سے محبت اور دل لگا کر کام کرنے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اب تک ہمارے تقریبا 80 ہزار شہری اور دس ہزار سکیورٹی اہلکار جان بحق ہوئے ہیں اس کے علاوہ یونیسیف کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ دنیا میں نومولود بچوں کی ہلاکت میں پاکستان سب سے آگے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2016 میں پاکستان میں ایک برس کے دوران دو لاکھ 48 ہزار نومولود بچے ہلاک ہوئے۔ جو دنیا بھر میں ہلاک ہونے والے بچوں کا دس فیصد ہے۔

یہاں یہ با ت قابل ذکر ہے کہ یہاں بعض سانحات کے ذمہ دار عوام خود ہیں۔ جس کا اندازہ گزشتہ سال بہاولپور کے علاقے میں آئل ٹینکر الٹنے سے لگایا جاسکتا ہے۔ الٹنے کے بعد آئل ٹینکر میں اس وقت آگ بھڑک اٹھی جب اہل علاقہ تیل سمیٹنے میں مصروف تھے جس کے نتیجے میں 154 افراد جاں بحق اور دوسو سے زائد زخمی ہوئے۔

کمال یہ نہیں کہ شہباز شریف جگہ جگہ پانی میں کھڑے ہیں سوال یہ ہے کہ جگہ جگہ پانی کیوں کھڑا ہے۔ سال 2003 کے بعد 2013 تک سالانہ سیلاب میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے جن میں صرف سال 2010 کے سیلاب میں تقریبا دو ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ پاکستان میں اب تک سیلاب اور دہشتگردی میں اتنے لوگ ہلاک نہیں ہوئے۔ جتنے ہرسال منشیات کے استعمال سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ روزانہ تقریبا سات سو افراد منشیات استعمال کرنے کی وجہ سے دم توڑ جاتے ہیں۔ یہ تعداد سالانہ دو لاکھ پچپن ہزار بنتی ہے۔ حالانکہ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں اب تک دہشتگردی میں بھی نہیں ہوئیں۔

میں نے اوپر کے سطور میں کہا ہے کہ اتنی تعداد میں کم آبادی والے ممالک میں مرغیاں ذبح نہیں ہوتیں، جتنی بڑی تعداد میں یہاں انسان ہلاک ہورہے ہیں۔ اس لئے ڈپٹی کمشنر کی بیان پر واویلا کرنے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ ملک میں جاری سالانہ ہلاکتوں کا جائزہ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).