ایک صبح نو کا آغاز


ہمارے نو منتخب وزیر اعظم عمران خان صاحب کے نتائج کے بعد مختصر تاثرات سنے۔ شکریہ کہ انہوں نے سب سے پہلے ہمارے بلوچ بہن بھائیوں کا ذکر خیر کیا۔ اس وقت ان کو داد رسی کی بہت ضرورت ہے۔ آپ ایک دردمند دل اور قومی غیرت رکھنے والے انسان ہیں۔ امید ہے کہ آ پ ان کے مسائل کا ذاتی طور پر جائزہ لے کر ان کی جائز مطالبات جلد پورے کریں گے۔

پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر ایک باشعور اور باضمیر انسان کو دیکھ کر اپنے کچھ تحفّظات کے باوجود ایک طمانیت کا احساس ہو رہا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ دن پاکستان کی قسمت بدلنے کا دن ثابت ہو اور اب ملک میں امن کی فضا ساز گار ہو اور ملکی معیشت اور مجموعی نظام بہتری کی شاہرہ پر گامزن ہو جائے۔آمین

عمراں خان صاحب نے جیتنے کے بعد جو سادہ حکومتی رہن سہن کی یقینی دہانی کروائی ہے وہ بے حد خوش آئند ہے۔ جہاں عمران خان صاحب نے دیگر اصلاحت کا تذکرہ کیا ہے وہیں اگر وہ چند دوسرے اہم امور پر بھی اپنا ایجنڈا عوام کو بتادیں توبہت اچھا ہو۔

ملک کو اس وقت بہت سے سنگین مسائل کا سامنا ہے جس میں یوں تو

٭اوّل تعلیم اور صحت ہے۔ لیکن اس وقت بدقسمتی سے سب سے بنیادی چیز پانی ا ورفضا یعنی ہوا یہ دونوں خطرے میں ہیں۔ اس لیے ڈیمز کی تعمیر اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی جنگلات کا جو توازن پہلی حکومتی کی نااہلی کی وجہ سے بگڑا ہے اس کو بھی نارمل پر لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے موسموں کی شدت میں کمی آئے گی۔ اور فضا صاف ہو گی۔ ہوا کی کثافت ختم ہو گی۔ علاوہ ازیں شہروں میں شجر کاری بھی ازبس ضروری ہے۔ کسانوں کو سہولت دے کرزراعت کے امکا نات وسیع تر کیے جانے کی سخت ضرورت ہے۔

٭پورے ملک میں اعلیٰ نسل کی گائے بھینسوں کی سرکاری سرپرستی میں افزائش کی جائے تا کہ عوام الناس کو دودھ اور گھی وافر سستا ، خالص اور مناسب داموں پر مل سکے۔ یہ عوام کی صحتوں کا سوال ہے۔ صحت مند بدن صحت مند سوچ کو فروغ دیتا ہے۔ ہمارے پچھلے لیڈران اعلی ترین گاڑیوں کے فلیٹس (fleets) ہونے کے باوجود باہر سے درآمد قیمتی گھوڑوں کے اصطبل رکھتے تھے۔ جو صرف شغل تھا ۔ ان کو اس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ ان گھوڑوں کو مربّے، بادام اور سیب کھلائے جاتے ہیں۔ جبکہ عوام کو بھینسوں کے باڑوں کی سخت ضرورت ہے۔ یا تو حکومت خود کھولے یا گوالوں کو قرضے دے کہ وہ خود چلائیں ۔ لیکن حکومت ان کا ٹریک رکھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ پیسہ ذاتی ضروریات میں تو استعمال نہیں ہو رہا۔

٭سرکاری اسپتالوں میں کرپشن کا مکمل خاتمہ یقینی بنائیں۔ اور وہاں دوائیوں کی دستیابی سریع اور آسان ہو نیز عمومی صفائی بھی معیاری ہو۔

٭اسکولوں میں مذہبی اور لسانی منافرت پر مبنی نصاب مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ گستاخی کے غلط الزام لگانے والے ذہنی مریضوں کی بیماری کے علاج طور پر ان کی باقاعدہ سزا مقرر کی جائے۔ کہ الزام غلط ثابت ہونے پر ان کو جرمانہ یا قید کی سزا یا دونوں دی جائیں۔

٭آج کل دیہاتوں سے لوگوں کا شہر میں آکر آباد ہونے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے جس سے شہروں میں بہت بھیڑ اور عوامی سہولیات کا فقدان ہوتا جا رہا ہے۔ ہے اس کے لیے دیہاتوں میں اسکول، کالج اسپتال اور کارخانے لگائے جائیں۔ اس سکلسلے میں نجی کارخانوں اور فیکٹریوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔۔ تاکہ وہاں لوگوں کو تعلیم روزگار اور صحت کی سہولتیں میّسر ہوں۔

٭ پاکستان کے تمام چھوٹے شہروں میں عموماً اور بڑے شہروں میں خصوصاً سیوریج کے نظام کو بہتر کیا جائے بلکہ اس کا جال بچھایا جائے۔ جو پہلے سے موجود ہیں ان کو مرمت اور صفائی کے ذریعے بحال اور فعّا ل یا جائے۔ تا کہ بارشوں میں سڑکو پر پانی اکٹھا ہو کر ٹریفک کو مفلوج نہ کرے۔ تمام ملک میں صفائی کے لیے اور اور گند گی کوختم کرنے کے خاص اقدامات کیے جائیں۔ چاہیں تو ابتدائی طور پہ نوجوانوں کی رضاکار تنظیمیں بنائی جائیں جو ہفتہ وار شہر کی صفائی میں حصہ لیں۔ اس طرح نوجوانوں میں سوک سینس یعنی ایک ذمہ دار شہری کی روح بیدار ہو گی۔ اور وہ فالتو بیٹھ کر غلط ہاتھوں میں پڑنے سے بچ رہیں گے۔ اس طرح ان میں سے اچھا کام کرنے والوں کو حکومت سند دے جو ہر ادار ے میں اس کی ایک اضافی قابلیت کے طور پر مانی جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت بڑا  ایجنڈ اہے اور اس میں وقت لگے گا لیکن کم و بیش یہ سب  پاکستان کی حکومت میں زیادہ تر سارے ادارے موجود ہیں اور  باقاعدہ تنخواہیں بھی لیتے ہیں۔ مگر فیوڈل سسٹم اورکرپٹ حضرات نے ان کو ناکارہ بنا رکھا ہے۔ بس ان کو ٹیوننگ کی ضرورت ہے۔ اگر یہ باتیں ایجنڈے پر ہوں گی توعمل بھی ہو سکے گا۔

٭اندازہ ہوتا ہے کہ آنےو الی حکومت پاک چین دوستی کومزید فروغ دے گی۔ اچھی بات ہے مگرچین دو نمبر مال کے لیے مشہور ہے۔ ا سکی سروسز بھی کہیں دو نمبر نہ ہوں اس کا یقین کر لینا چاہیے۔ اور یہ بھی خیال رہے کہ چین پر اتنا اعتماد اور انحصار نہ ہو کہ ہم اپنے گھر میں ثانوی حیثیت اختیار کر جائیں۔ پھر یہ کہ ، یہ دوستی برابری کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ اور یہ بھی خیال رہے کہ ہم صرف نیچے کا ہاتھ نہ بنیں۔

٭اللہ کے فضل سے ہماری قوم میں ذہانت اور محنت کی کمی نہیں۔ ان ذہین طاقتوں کو کرپشن اور کرپٹ لوگ آگے نہیں آنے دیتے تھے۔ ایک ایسا دارہ بنائیں جس سے ایسے لوگ رابطہ کر سکیں جو ریسرچ یا سائینسی اور ٹیکنالوجی یا انڈسٹریز کے حوالے سے کوئی بہتر چیز متعارف کروانا چاہتے ہوں۔ حکومت ا س آئیڈیے کی خود سرپرستی کرے۔ تاکہ ہمارے اپنے انجنیئر زاور ڈاکٹرز اور ریسرچرز بلکہ عامتہ الناس بھی اپنے ملک کے لیے اپنا ہنر پیش کر سکیں۔

چین سے دوستی میں ا س لیے بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ تو دور تھا اس کا ہاتھ ہمارے گریبان تک پہنچنے میں دیر لگتی تھی۔ یہ بغل میں بیٹھا ہے ۔ نیّت خراب ہوئی تو چھوڑے گا نہیں۔

٭ خواتین کے لیے بڑی تعداد میں سرکاری اسکول پورے ملک میں کھولے جائیں۔

خصوصاً اندررون سندھ تھر میں خواتین کی تعلم کا نظام بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ تا کہ وہاں خواتین سے متعلق بے ہودہ رسموں مثلاً قرآن سے شادی، کاروکاری وڈیروں کی غلامی جیسی قبیح رسوم کا خاتمہ ہو۔

٭تھر میں جگہ جگہ نل اور ٹیوب ویل لگائے جائیں تا کہ خواتین کو پانی بھرنے کے لیے جھلستی دھوپ میں دور نہ جانا پڑے۔

ہم بیرونی ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کے نبضیں پاکستان کےساتھ چلتی ہیں۔ دل اس کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہم سانس سانس اس کی بہتری کے لیے دعا گو رہتے ہیں۔

خدا کرے کہ مری ارض پاک پہ اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہ ء زوال نہ ہو

باقی ہمارے حکمرانوں کا عقیدہ کیا ہے ہمیں ا س سے کوئی غرض نہیں سوائے اس کے کہ وہ پاکستانی ہیں۔ اوریہ کہ اس مملکت خداد داد کے لیے جو اس وقت اندرونی بیرونی سازشوں کا شکار ہے کے لیے وہ کیا بہتری لاتے ہیں ۔ اللہ کرے کہ عمران خان واقعی قائد اعظم کا  تقریباً ستر  سال قبل اغو اہو جانے والا بچہ ان کا پاکستان ملک دشمن عناصر سے رہاکرو الیں ۔آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).