کیا پاکستان میں حالیہ الیکشن شفاف تھے؟


پاکستان میں حالیہ انتخابات نے ملک میں جمہوریت کا مستقبل روشن کر دیا ہے۔ انتخابات میں عوام بالخصوص خواتین نے بھرپور شرکت کرکے بیلٹ کے ذریعے تبدیلی کے تسلسل پر ٹھپہ لگایا ہے جو ایک خوش آئند امر ہے۔ پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے شکوک شبہات پر مبنی مختلف سازشی تھیوریاں دم توڑ چکی ہیں۔ جمہوری روایات کو آگے بڑھانے میں ریاستی اداروں نے جس بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے وہ دنیا میں پاکستان کی ایک نئی سمت متعین کرے گا اورعالمی برادری میں پاکستان کا وقار بلند ہو گا۔

الیکشن 2018 کا کامیاب انعقادپاکستان میں قانون اور آئینی اداروں کی عملداری اور سربلندی کی طرف ایک عظیم جست ہے جس کے لئے پوری قوم، عدلیہ، پاک فوج، الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتیں مبارکباد کی مستحق ہیں۔ تاہم، ہم جمہوریت کے اثرات سے بہتر طور پر اسی وقت مستفید ہوسکیں گے جب الیکشن ہارنے والی سیاسی جماعتیں پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی بجائے آگے کی طرف دیکھیں گی اور اے این پی کے راہنما غلام احمد بلور کی طرح اپنی ذات کی بجائے پاکستان کے لئے وسعت قلبی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کی جیت کو تسلیم کرتے ہوئے ووٹ کو عزت دیں گی۔

یہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والوں کے امتحان کا وقت ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ دنیا کے پانچویں بڑے الیکشن تھے جس میں دس کروڑ سے زائد ووٹرز نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ اتنے بڑے انتخابی عمل میں ضرور کچھ نہ کچھ خامیاں ظاہر ہو سکتی ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ کامیاب اور شفاف الیکشن تھے۔ یورپی یونین کے الیکشن آبزرویشن مشن پاکستان کے چیف آبزرورمائیکل گہلر نے ان انتخابات کو 2013 کے انتخابات سے بہتر اور قابل اطمینان قراردیا ہے۔

تکنیکی طور پر پولنگ اسٹیشنز کی سطح پر الیکشن کے غیر شفاف ہونے کے امکانات صفر ہیں جہاں انتخابی عملے کے علاوہ، پولیس، فوج، امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس، فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن)اور دیگر مشاہدہ کار موقع پر موجود تھے۔ پولنگ ختم ہونے کے بعد متعلقہ امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس، پولیس اور فوج کی نگرانی میں انتخابی عملہ ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل کرتا ہے اور موقع پر موجود پولنگ ایجنٹس کوالیکشن کمیشن کے فارم 45 پرنتائج کی کاپی فراہم کی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف پس منظر اور وابستگی کے حامل پندرہ بیس ایسے افراد جو شاید پہلی بار زندگی میں ایک دوسرے کو الیکشن کے انعقاد کے سلسلے میں مل رہے ہوں، وہ الیکشن میں دھاندلی کے لئے مک مکا کر سکتے ہیں؟ یقینی طور پر ایسا ہونا ناممکن ہے۔

الیکشن کی غیر شفافیت کے حوالے سے جو سوالات اور اعتراضات اُٹھائے جا رہے ہیں وہ بھی محض سُنی سُنائی باتوں اورافواہوں پر مبنی ہیں اور اس سلسلے میں کسی جانب سے بھی کوئی قابل ذکر شواہد پیش نہیں کیے جا سکے ہیں۔ ان اعتراضات میں سے ایک اعتراض الیکشن نتائج میں تاخیر ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پولنگ کا عمل ختم ہونے کے ایک سے دوگھنٹوں کے درمیان گنتی کا عمل مکمل کر لیا جاتا ہے اور موقع پر موجود مختلف امید واروں کے پولنگ ایجنٹس کو فارم 45 پر پریزائڈنگ آفیسر اور سینئر پریزائڈنگ آفیسرکے دستخط شدہ نتائج فراہم کر دیے جاتے ہیں اور مسترد شدہ ووٹوں کے متعلق بھی آگاہ کر دیا جاتا ہے اور یہ عمل ہر پولنگ اسٹیشن پہ مکمل ہوتا ہے یوں مقامی طور پر ہر حلقے کا امیدواراپنے حلقے میں موجودتمام پولنگ اسٹیشنز کے رزلٹ سے بروقت آگاہ ہوجاتا ہے سو اعتراض کرنے کا کوئی ٹھوس جواز نہیں رہ جاتا۔ جبکہ سرکاری سطح پر مفصل نتائج مرتب کرنے اور الیکشن کمیشن کے ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے کے لئے پولنگ عملے کو وقت درکار ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے الیکشن ٹرانسمیشن سسٹم (آرٹی ایس)کا نظام بیٹھ جانے اور کئی علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز نہ ہونے کی وجہ سے پریزائیڈنگ آفیسرزاپنے متعلقہ آر اوز کو فارم 45 اورچھیالیس بروقت ارسال کرنے سے قاصر رہے او ر آراوز کو رزلٹ کی فراہمی کے لئے مجبوراً مینوئل طریقہ کارپر انحصار کرنا پڑا جس سے انتخابی نتائج جاری کرنے میں الیکشن کمیشن کو تاخیر ہوئی۔ ایک ایک حلقے میں درجنوں امیدواروں کا انتخاب لڑنا بھی انتخابی نتائج مرتب کرنے میں تاخیر کا باعث بنتا ہے اور انتخابی عملے کاوقت الگ ضائع کرتا ہے۔ پریزائڈنگ افسران اور دیگر انتخابی عملے کو نہ صرف نتائج فراہم کرنا ہوتے ہیں بلکہ تمام انتخابی مواد کو بھی بحفاظت آراوز کے دفاتر پہنچانا اور موصول کرانا ہوتا ہے۔ پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد انتخابی مواد اور رزلٹ فوج کی نگرانی میں بھیجنے کے لئے فراہم کی گئی ٹرانسپورٹ کئی ایک پولنگ اسٹیشنز سے انتخابی سامان اکٹھا کرتی ہیں جن کی آراوز کے دفاتر تک ترسیل میں اچھا خاصا وقت لگ جا تا ہے۔

اس سلسلے میں اپنے اپنے کندھوں پر انتخابی مواد اٹھائے مختلف پولنگ اسٹیشنز سے آئے ہوئے سینکڑوں پریزائیڈنگ افسران اور دیگر انتخابی عملے کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے جو ایک تھکا دینے والا، صبر آزما، طویل اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ خاص طور پرانتخابی عملے کی خواتین کی حالت تو انتہائی قابل رحم ہوتی ہے۔ ایسے میں دھاندلی کے الزامات انتخابی عملے کی توہین کے مترادف ہیں جن میں سے اکثر ہماری قوم کے معمار اساتذہ کرام ہوتے ہیں۔ جہاں تک پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے باہر نکالنے کی بات ہے تو اس میں بھی مبالغہ آرائی ہے۔

الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق ایک وقت میں ہر پولنگ بُوتھ پر ہر امیدوار کا صرف ایک پولنگ ایجنٹ امیدوار کا اتھارٹی لیٹر دکھا کر الیکشن عمل کی نگرانی کر سکتا ہے جبکہ ووٹوں کی گنتی کے وقت ہر امیدوار کا صرف ایک پولنگ ایجنٹ گنتی کی کارروائی دیکھنے کا مجاز ہوتا ہے۔ اتھارٹی لیٹر کے بغیر یا امیدوار کی طرف سے ایک سے زائد پولنگ ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشنز سے باہر نکالنا بالکل جائز، درست اور قانونی عمل ہے۔ پولنگ اسٹیشنز پر گنتی مکمل ہونے اور نتائج کی فراہمی کے بعد پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالنا الیکشن قوانین کے عین مطابق ہے سو اس پر شور مچانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

جہاں تک فارم 45 پر رزلٹ کی کاپی پولنگ ایجنٹوں کو فراہم نہ کرنے اور اسے غیر شفافیت سے تعبیر کرنے کا سوال ہے تو یہ بھی کافی حد تک بلا جواز ہے۔ انتخابی نتائج کے درجنوں فارم پُر کرنے اور الیکشن کمیشن، ریٹرننگ افسران و دیگر کے لئے الگ الگ نتائج کے متعددسیٹ تیار کرنا پڑتے ہیں دیکھنے میں آیا ہے کہ ووٹوں کی گنتی کے بعددیگر سرکاری امور کو بروقت نمٹانے اور وقت بچانے کے لئے پریزائڈنگ افسران نے پولنگ ایجنٹوں سے درخواست کی کہ علیحدہ علیحدہ رزلٹ حاصل کرنے کی بجائے تمام پولنگ ایجنٹس یا تو موبائل پرفارم 45 کی تصویر بنا لیں یا ایک کاپی حاصل کر کے فوٹو کاپیاں کروا کر آپس میں بانٹ لیں، جن پولنگ ایجنٹس نے کاپی حاصل کرنے پرہی اصرار کیا انھیں فارم 45 پر نتائج کی کاپی فراہم کر دی گئی، فارم 45 کی عدم فراہمی دھاندلی کا ثبوت نہیں ہے۔

بہرحال، کوئٹہ سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں الیکشن کے عمل میں ڈیوٹی کے دوران شہید ہونے والے سیکیورٹی فورسز کے جوان، انتخابی عملے کے ارکان اور شہید ہونے والے ووٹرز ہماری جمہوریت کے ہیرو ہیں جنھوں نے اپنی جانیں ایک مقدس فرض کی ادائیگی کے لئے گنوا دیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق الیکشن ڈیوٹی میں انتخابی عملے، پولیس اور فوج کا رویہ انتہائی پروفیشنل اور غیر جانبدارانہ تھا۔ خاص طور پر فوج کی موجودگی نے انتخابی عمل کو سبوتاژ ہونے سے بچا لیا۔ صاف اور شفاف الیکشن کے انعقاد کا بہت زیادہ کریڈٹ فوج اور پولیس کو جاتا ہے جنھوں نے نہ صرف پُرامن انتخابات کو یقینی بنایا بلکہ ہر طرح سے انتخابی عملے کی بھرپور معاونت کی۔ صاف اور شفاف الیکشن کے انعقاد پرالیکشن کمیشن، چیف آف آرمی سٹاف اور پوری پاکستانی قوم کو مبارک باد!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).