خان صاحب !کٹھن ہے راہ گزر


ماننا پڑے گا کہ حالیہ انتخابات میں قوم کے پاس زیادہ آپشنز نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی کو بی بی کے المناک حادثے کے بعد قوم آزما چکی تھی۔ پانچ سال موقع ملا لیکن عوام کی بجائے اپنے ہی بندوں کو نوازتے رہے۔ نوازشریف صاحب کی سزاکا قصہ تاریخ کے سپرد بھی کردیں تو پارلیمنٹ میں خطاب سے لے کر مریم نواز کے کسی بھی ملک میں پراپرٹی نہ ہونے کی طرح ہر حکومتی معاملے میں قول و فعل کا تضاد رہا۔انہوں نے بھی صرف اپنے گھر کے لوگوں کا ہی خیال کیا۔ غلط اعدادوشمار سے پانچ سال لوگوں کو بہلاتے رہے ۔ مہنگے قرضوں سے مہنگے پراجیکٹس تک کی کہانی باہر نکلتی رہی لیکن ن لیگ یہی سمجھتی رہی کہ لوگ بھولے ہیں،بھول جائیں گے۔مگر ن لیگ خود بھول گئی کہ چیختا چلاتا میڈیا اب قصے کو فسانہ بننے نہیں دیتا۔اس پہ مستزاد وہ سر پھرا عمران جسے لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ پچھلی دہائی سے ایک ہی تقریر کررہا ہے اس نے بھی کوئی بات بھولنے نہیں دی۔
الیکشن ہوگئے ، لوگوں نے عمران خان صاحب کو آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران سے آپ لاکھ اختلاف کریں لیکن حقیقت ہے کہ وہ کرپشن جو اب پاکستانی معاشرے میں باعث نفرت نہیں ، باعث افتخار بن چکی تھی ،اسے ایک دفعہ پھر برے فعل کے طور پر اجاگر کرنے کے لئے خان نے عوام کی ذہن سازی کی ہے۔اس نے عام عوام کو سوال کرنا سکھا دیا ہے۔اس نے ”آوٹ آف دا بکس” دیکھنا اور سوچنا سکھا دیا ہے۔
خان صاحب کی بہت سی باتوں سے اختلاف بھی رہا ۔ خاص طور پر لوٹوں(جنہیں انہوں نے الیکٹیبلز کا نام دیا) کو اپنی ٹیم میں شامل کرنے کا۔ مخالفین نے اسے حکومت سازی کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے بندے قرار دیا۔ ٹی وی پر بیٹھے ہوئے جفادری قسم کے اینکرز بھی بڑی بڑی دور کی کوڑی لاتے اور ڈراتے رہے۔ جیپ کے گروپ کو خان کے لئے چیلنج کے طور پر پیش کیا گیا ۔ جنوبی پنجاب کے گروپ کو آگے لانے اور الیکشن جتوانے کی پریکٹس کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے ڈالا۔پانی جب ناک سے اوپر ہونے لگا تو ن لیگ نے بھی شروع میں دبے لفظوں اور پھر کچھ کھل کر فوج کا نام لینا شروع کردیا۔ ن لیگ والے بالآخر اس معاملے میں تجربہ کار تھے، جانتے ہوں گے کہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھے ایوان اقتدار تک کیسے پہنچاتے ہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود خان کی مقبولیت پاکستان تو ایک طرف بیرون ملک بھی پھیل چکی ۔ بہت سے لوگ جو روایتی سیاست سے نفرت کرنے لگ گئے تھے ،خان کو آزمانا چاہتے تھے۔ اس کے لئے اس کی بڑی بڑی سیاسی غلطیوں کو بھی نظر انداز کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے انکار نہیں کرتے لیکن حقیقت ہے کہ خان کے زیادہ الیکٹیبلز ہار گئے، جنوبی پنجاب میں ہمارے ضلع بہاولنگر میں ن لیگ پہلے سے بہتر انداز میں جیتی۔ جیپ بھی پنکچر نظر آئی۔ مطلب کہ یہ عوام ہیں جنہوں نے تبدیلی کے نعرے کو عزت دی اور خان کو ایوان اقتدار تک پہنچا دیا ۔
عمران خان اور ان کی ٹیم کو جہاں جیتنے کی خوشی ہوگی وہاں اب اپنی پارٹی میں وزارتوں کے کھیل کے بعد خزانے کی حالت ان کی نیند حرام کررہی ہوگی۔ فائلیں کھولیں گے تو پتہ چلے گا کہ آدھا ملک گروی ہے اورمہنگے قرضوں کی قسطیں منہ پھاڑے کھڑی ہیں۔ اندرونی سازشیں، بیرونی دباؤ، پارٹی کے اندر کھینچا تانی، فرقہ پرستی کے جن، دہشت گردی، پانی، بجلی کے مسائل،تمام پارٹیوں کی مشترکہ اپوزیشن اور سب سے بڑھ کر عوام کی توقعات کون کونسا چیلنج ہے جو انہیں درپیش نہیں ہوگا ۔
خان صاحب!لوگ آپ کی وکٹری سپیچ کی بڑی تعریف کررہے ہیں مجھے تو اس تقریر کے دوران انہی چیلنجز کابوجھ آپ کے کندھوں پہ نظر آیا۔ لیکن اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے آپ نے خود ہی تین دہائی محنت اور کوشش کی ہے ۔ آپ نے عوام کو شعور دینے کی کوشش کی ہے۔ آپ نے لوگ کی آنکھوں میں امید کے دیئے روشن کئے ہیں۔ یہ یاد رکھیئے گا کہ عوام کے پاس اس وقت اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ تدبر، حوصلہ اور دوراندیشی ملک کو آگے لے جاسکتے ہیں، جذباتیت، وقتی فیصلے اور نامناسب لوگ ملک کو مزید تباہی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔آپ 25سال سے زیادہ عرصے سے آج کے دن کے لئے کوشاں ہیں اس لئے اب غلطی کی گنجائش بھی نہیں ہے۔
ہماری نیک تمنائیں اپنے پیارے وطن کے ساتھ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).