میں نے چاہا تھا کہ یہ ملک سنور جائے


میرے عزیر ہم وطنو!
آگے مجھے نہیں معلوم کیا ہوگا؟ میں نے چاہا تھا کہ یہ ملک سنور جائے، میں نے سیاسی جدوجہد شروع کی۔ میں نے چاہا کہ ہسپتال بنے تو میں نے اس کے لئے پیسہ جمع کیا، میں نے چاہا کہ اس قوم کو شعور آئے میں نے 20سال جدوجہد کی، میں نے سب کو ایک صف میں رکھا، میں نے چاہا کہ اس ملک کی حالت بدلے، میں نے چاہا کہ اس ملک کی عوام کا معیار زندگی بلند ہو، میں نے چاہا کہ کرپشن ختم ہو، میں نے چاہا کہ مجھے وزیر اعظم کی کرسی ملے اس کے لئے میں نے اپنے سارے اصول بھی بدلے، میں نے الیکشن سے پہلے اعتراف کیا کہ میں یہ الیکشن جیتنے کے لئے لڑ رہا ہوں۔ میں نے چاہا کہ میری جماعت کو عددی برتری ملے، میں طاقت کے حصول کے لئے جو کچھ کر سکتا تھا کیا اور آج میںا س طاقت سے صرف ایک حلف کی دوری پہ ہوں۔ لیکن جب میں حلف لے لوں گا تب مجھے نہیں معلوم کیا ہو گا۔

میں نے سماجی تشکیل کا کوئی سبق نہیں پڑھا ہوا اور نہ ہی یہ راز کسی پیر کی قبر پہ بوسہ دینے سے مجھ پہ وا ہو گا، میں نے حکومت کا نظم و نسق چلانے کی کبھی کوئی مشق نہیں کی، مجھے نہیں پتہ کہ اس ملک کی خارجہ پالیسی کیسے بنتی ہے، مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ کرپشن کیسے ختم ہو گی، مجھے نہیں معلوم کہ قرضے کیسے اتریں گیں مگر میں چندا جمع کر لیتا ہوں اور کر سکتا ہوں، مجھے نہیں خبر کہ سماجی انصاف کے کیا تقاضے ہیں، مجھے نہیں خبر کے انسانی سماج کی کیا نوعیتیں ہیں، مجھے نہیں علم کہ لوگوں کو کیسے سوچنا سکھایا جا سکتا ہے۔ مجھے سماج کی کسی ایک علت کا ادراک نہیں ہے۔

اگر مجھے یہ پتہ ہوتا تو میں کبھی اپنے بیانات سے نہ پھرتا۔ میری جدوجہد میں کئی ایک یو ٹرن نہ آتے۔ مجھے اگر ابن خلدون اور ابن رشد کی سماجیات کا ادراک ہوتا تو میں خود کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہوتا ایسا بالکل نہیں ہے۔ میں اس سب سے نا بلد ہوں تاہم میری خواہش ضرور ہے یہ ملک ترقی کرے۔ میرا خاندان بھی نہیں جس کو میں نوازوں گا۔ میں کسی مالی بے ضابطگی کا بھی مرتکب نہیں ہوں گا، میں اپنے معاملات میں سادگی اپنا وں گا، میں عاجزی کا پیکر بنوں گا میں بشری بی بی کے ہر روحانی سبق کو سینے سے لگا کر چلوں گا۔ آپ یقین مانیے میں نے جو شیروانی 2013 میں سلوائی تھی اب وہ بھی نہیں پہنوں گا۔

میرے عزیر ہم وطنو میں نیا پاکستان بنایا چاہتا ہوں۔ مجھے نہیں پتہ مگر کیسے بنے گا؟
میرا اصل امتحان اب شروع ہوا جس کا میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔
مجھے ادراک نہیں تھا کہ حکومت اکیلا بندہ نہیں چلا سکتا۔ مجھے اب ضرورت پڑی ہے۔ میری صف میں تو سارے ہی سیماب صفت ہیں۔ حکومتی امور سازی کے لئے مجھے اپنے سمیت ایک بھی موزوں نہیں مل رہا ہے۔

ایک صوبے کی حکومت تھی مجھے خود نہیں معلوم کیسے چلی۔ ہاں درختوں کا کسی نے مشورہ دیا تھا اس پہ میں نے کافی شہرت کمائی لیکن گنے نہیں میں نے بھی کہ کتنے ہیں۔ ایک بار علی محمد خان نے کہا کہ بلین ٹری اور مجھے خود بھی نہیں معلوم کہاں لگے ہیں۔ میرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ میں کانوں کا بہت کچا ہوں۔ میرے اردگرد سب پیسے والے لوگ ہیں جن کے مجھ سمیت میری پارٹی پہ بھی بڑے احسانات ہیں۔ میں جب الیکشن میں بھی نہیں تھا تب بھی جہانگیر ترین کو ساتھ سٹیج پہ بٹھاتا تھا اب کیسے ممکن ہے انکار کروں؟ وہ خود انتخابی سیاست سے باہر ہو کر بھی میری حکومت کے لئے آزاد ولوگوں سے رابطے کر رہا ہے۔ میں نے یہ الیکشن جیتنے کے لئے لڑا مجھے لگا کہ جب ایک با ر جیت جاوں گا تو سیکھ لوں گا کہ حکومت کیسے چلتی ہے۔ ملک کیسے ٹھیک ہوتا ہے، نظام کیسے بدلتا ہے، پرانے سے نیا پاکستان کیسے بننا ہے۔ اب پتہ چلا کہ نہیں یہ کرکٹ نہیں ہے۔

میرے عزیز ہم وطنو۔ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ میں یہی کر سکتا تھا۔ آپ سب کو سمھجنا چاہیے کہ میں یہی کر سکتا تھا۔ یعنی میں دو بڑے کرپٹ خاندانوں کو اس ملک کے چہرے سے دور کر سکتا تھا جن کی نحوست نے اس ملک کا اصل چہرہ ڈھانپ رکھا تھا۔ میں اس میں کامیاب ہو گیا ہوں لیکن لگتا نہیں مجھے یہ لوگ اور اپنی حماقتیں زیادہ دیر چلنے دیں۔ میں نے ان کو سخت تنگ کیا تھا شاید اتنا زیادہ نہیں کرنا چاہے تھا۔

ورلڈ کپ کی ٹیم میں بھی سارے لڑکے تھے لیکن کپتان تو کوئی ایک ہی ہوتا ہے نا آخر۔ سارا کریڈٹ اس کو جاتا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ اب بھی ایسا ہی کروں کریڈٹ سمیٹوں لیکن اب حالات ایسے نہیں ہیں۔ میں آپ کو اصل موضوع کی طرف لے کر آنا چاہتا ہوں۔

دیکھیں میں یہی کر سکتا تھا۔ میں الیکشن جیت سکتاتھا اب جو کرنا ہے وہ میری ٹیم کر ے گی اور میری ٹیم کیسی ہے یہ سب آپ کے سامنے ہے۔ اب اگر مجھ سے کوئی اول فول ہوا تو میں ذمہ دار نہیں میری ساری ٹیم ہو گی۔ نیا پاکستان میری ٹیم بنائے گی۔ کرپشن میری ٹیم ختم کرے گی، مجھے لگتا تھا کہ یہ سسٹم ٹھیک ہے اور اس کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔
یہ سارا سسٹم خراب ہے اور اگر اللہ مجھے دوسرے جنم کا موقع دیتا ہے تو میں پھر نئے سرے سے اس سسٹم کے خلاف جدوجہد شروع کروں گایہ سارا نظام گندا اور ناقابل استعمال ہے۔

اس نظام سے خیر کشید نہیں ہو سکتی۔ اس سارے نظام کی بساط لپیٹنا ٹھہر چکا ہے۔ مجھے ادراک ہو چلا ہے کہ اس نظام میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور جس تبدیلی کی بات میں کرتا رہا وہ تو ممکن ہی نہیں۔ مجھے ادراک ہو ا ہے کہ تبدیلی کسی رائج الوقت نظام کا حصہ بن کر نہیں لائی جا سکتی، مجھے ادراک ہوا ہے کہ تبدیلی کے لئے کچھ اصولوں کا پہلے سے طے ہونا لازم ہے۔ مجھے سمجھ آئی ہے کہ تبدیلی کے خدوخال واضح ہونے چاہیں۔ تبدیلی کا روڈ میپ ہونا چاہیے ورنہ انسان اپنے چال بھی بھول جاتا ہے۔
اس عالم تنہائی میں مجھے آپ سب کی دعاوں کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).