کیا عمران خان وزیراعظم ہاؤس میں قیام نہ کرنے کا وعدہ پورا کرسکیں گے ؟


کیا عمران خان وزیراعظم ہائوس کو تعلیمی ادارے میں تبدیل کرنے کے دعویٰ کو پورا کرسکیں گے؟ ان سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف نے دو مرتبہ وزیر اعظم ہائوس منتقل نہ ہونے کا اعلان کیا مگر سیکوریٹی وجوہات کے سبب ایسا نہ کرسکے۔  پاکستان کے آئندہ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ وزیر اعظم ہائوس میں رہائش اختیار نہیں کریں گے بلکہ وہ اسے ایک تعلیمی ادارے میں تبدیل کردیں گے۔  کیا وہ اپنے اس دعویٰ کو حقیقت کا روپ دے سکیں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔

تاہم، ماضی کے تجربات کی روشنی میں واضح ہے کہ اس طرح کے منصوبے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہوئے۔ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اپنے پارٹی سربراہ عمران خان کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ ہائوس خالی کردیا تھا، تاہم وہ زیر استعمال ہی رہا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 1997اور 2013میں دو مرتبہ اعلان کیا کہ وہ وزیر اعظم ہائوس میں رہائش اختیار نہیں کریں گے ، تاہم سیکوریٹی وجوہات کے پیش نظر انہیں اپنا ذہن تبدیل کرنا پڑا۔ عمران خان نے اپنی وکٹری اسپیچ میں کہا کہ وزیر اعظم ہائوس شاہی محل ہے، مجھے وہاں بیٹھتے ہوئے شرم محسوس ہوگی کیونکہ وہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بنا ہےجبکہ ان کی ذاتی رہائش گاہ بنی گالہ 3سوکنال پر ہے لیکن اس کی تعمیر میں عوام یا ٹیکس کا پیسا شامل نہیں۔ اس میں 8بیڈ رومز(بشمول گیسٹ ونگ)، ایک جم، دو کچن، بڑا لانڈری روم، وسیع ہال اور بڑا ڈرائنگ روم شامل ہے۔ یہ وہ گھر ہے جہاں وہ صرف اپنی اہلیہ کے ہمراہ رہ رہے ہیں۔ رہائشی ایریا سے الگ پی ٹی آئی کا مرکزی سیکریٹریٹ بھی یہیں ہے۔

اس کے مقابلے میں وزیر اعظم ہائوس 8 سو کنال پر مشتمل ہے۔ وزیر اعظم کی رہائش گاہ 9 بیڈ رومز (بشمول گیسٹ ونگ) پر مشتمل ہے۔ اس میں پانچ دیگر گھر بھی ہیں، جس میں پرنسپل سیکریٹری، اسپیشل سیکریٹری، ملٹری سیکریٹری، ڈپٹی ملٹری سیکریٹریز، جب کہ وزیر اعظم کے دیگر سینئر اسٹاف کے لیے اپارٹمنٹس بھی ہیں۔ ملٹری سیکریٹری وزیراعظم ہائوس کے بجٹ کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ یہاں پر پولیس اور دیگر سیکوریٹی عملے کی رہائش گاہ بھی ہے۔ جب کہ 10کمروں پر مشتمل کیمپ آفس بھی وزیر اعظم ہائوس کا حصہ ہے۔ اگر عمران خان وزیرا عظم ہائوس میں رہائش اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ ایسا کرنے والے دوسرے وزیر اعظم ہوں گے۔ ان سے قبل شاہد خاقان عباسی اپنی نجی رہائش گاہ میں رہتے رہے ہیں۔ جب کہ نگراں وزیر اعظم ناصر الملک وزیر اعظم ہائوس منتقل ہوئے تھے ، گو کہ ان کا اپنا گھر اسلام آباد میں تھا۔

Prime Minister House

نوا ز شریف نے 2013کے انتخابات کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ منسٹرز انکلیو میں رہائش اختیارکریں گے کیوں کہ وزیر اعظم ہائوس سے ان کی تلخ یادیں وابستہ تھیں جب 1999 میں ان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی تھی۔ ابتدائی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ نواز شریف ، قومی اسمبلی کے اسپیکر کو الاٹ کیے گئے منسٹرزانکلیو میں رہائش اختیار کریں گے۔ جب کہ پنجاب ہائوس پر متبادل کے طور پر سوچ بچار کیا گیا تھا لیکن سیکوریٹی اسٹاف کے مشورے پر انہوں نے ان میں سے کسی جگہ بھی رہائش اختیار نہیں کی۔ سیکوریٹی اسٹاف کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم ہائوس میں رہا ئش اختیار نہ کرنے کے باعث انہیں اپنے ایس او پیز میں تبدیلی لانا پڑے گی، جس سے اخراجات اور خطرات میں اضافہ ہوگا۔ یہی بات 1997 میں بھی نواز شریف کے ذہن میں تھی۔ اس وقت انہوں نے بھی عمران خان کی طرح اعلان کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہائوس کو یونی ورسٹی میں تبدیل کردیں گے۔ اس ضمن میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جو کہ سرتاج عزیز ، گوہر ایوب اور کچھ دیگر ارکان پر مبنی تھی۔ جنہوں نے کہا کہ یونی ورسٹی کا منصوبہ ناقابل عمل ہےکیوں کہ یہ علاقہ ہائی سیکوریٹی زون میں واقع ہے اور یہاں طلبا کی موجودگی سیکوریٹی خدشات میں اضافہ کرے گی۔

خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ ہائوس کو یونی ورسٹی میں تبدیل کیے جانے کے عمران خان کے منصوبے کو فوج نے مسترد کردیا تھا۔ اس حوالے سے عمران اسماعیل نے ایک ٹاک شو میں بتایا تھا کہ پشاور کنٹونمنٹ کے ہائی سیکوریٹی زون میں واقع ہونے کے باعث یہ منصوبہ ملتوی کیا گیا تھا۔ پرویز خٹک ابتدائی طور پر اپنے ذاتی گھر منتقل ہوگئے تھے، تاہم رہائش گاہ سے سفر کے باعث عوام کو مشکلات کا سامنا تھا۔ جس کے بعد وہ وزیر اعلیٰ ہائوس کے قریب ایک اینکسی میں منتقل ہوگئے تھے اور بالآخر وہ ایسے ایریا میں چلے گئے تھے جہاں صوبے کے اعلیٰ افسران جیسا کہ پولیس چیف اور وزراء کی رہائش تھی۔ بہرحال وزیر اعلیٰ زیر استعمال ہی رہا اور اسے گزشتہ پانچ سال سے وزیر اعلیٰ آفس کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

اگر عمران خان شاہد خاقان عباسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی ذاتی رہائش گاہ بنی گالہ میں ہی مقیم رہتے ہیں تو یہ سیکوریٹی مسائل کے بغیر ممکن نہیں ہوگا کیوں کہ صرف ایک ہی سڑک ان کے گھر تک جاتی ہے۔ اس لیے اگر کوئی احتجاج کرکے روڈ بلاک کر دیتا ہے تو عمران خان وہیں محصور ہوجائیں گے ، جب کہ ان کے اسٹاف کی ان تک رسائی ممکن نہیں رہے گی۔ کیا منسٹرز انکلیو میں بطور وزیر اعظم ان کی سیکورٹی کو برقرار رکھنا ممکن ہو گا، یہ سوال ابھی باقی ہے۔

(عمر چیمہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).