عاصی کرنالی …. محبتیں اور شکایتیں


\"raziعاصی کرنالی کی پانچویں برسی 20جنوری کو منائی جا رہی ہے

 اکتوبر1978ءکی ایک صبح شیر شاہ روڈ پر واقع پاکستان نیشنل سینٹر کے آڈیٹوریم میں ’یوم اقوام متحدہ‘ کے حوالے سے ایک تقریری مقابلہ تھا۔ اس تقریری مقابلے کی صدارت پروفیسر عاصی کرنالی کررہے تھے۔ مہمان خصوصی کی نشست پر اقبال ساغر صدیقی جلوہ افروز تھے۔ میں اپنے سکول کی طرف سے آٹھویں جماعت کے طالب علم کی حیثیت سے اپنے ٹیچرمنیر احمد شامی کے ہمراہ اس مقابلے میں شرکت کیلئے آیاتھا۔تقریب کے اختتام پر مجھے مقابلہ جیتنے والے طالب علم کے طور پر سٹیج پر بلایاگیا تو صدر ِمحفل پروفیسر عاصی کرنالی نے مجھ سے مصافحہ کیا سبز گڈی کاغذ میں لپٹی ہوئی ایک کتاب پر مشتمل انعام میرے حوالے کیا۔ میں نے انعام وصول کیا اور ہاتھ چھڑا کر تیزی سے واپس مڑنے لگا تووہاں موجود پریس فوٹو گرافر نے کہا ’ بیٹا ایک منٹ ٹھہریں۔ میں آپ کی تصویر نہیں بناسکا‘۔ عاصی کرنالی صاحب نے شفقت کے ساتھ مصافحے کے انداز میں میرا ہاتھ دوبارہ تھام لیا۔ ’آپ نے بہت اچھی تقریر کی‘۔ وہ کچھ دیر کا توقف چاہتے تھے تاکہ فوٹو گرافر کو تصویر بنانے کاموقع مل جائے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ہاتھ چھڑا کر دوبارہ حاضرین میں جا بیٹھوں۔ تصویر بنانے والے وہ فوٹو گرافر جنہوں نے مجھے بہت محبت کے ساتھ’ بیٹا ایک منٹ ٹھہریں‘ کہاتھا انور امروہوی تھے جو 24نومبر2006ءکوخود ہمیشہ کے لئے تصویر بن گئے اور میرا ہاتھ تھام کر مجھے انعام دینے والے پروفیسر عاصی کرنالی20جنوری2011ءکی دوپہر اس جہان سے رخصت ہو گئے۔ ان کے ساتھ آخری مصافحہ میں نے 24دسمبر 2010ءکو سائیں حبیب کے ڈیرے پر منعقد ہونے والی ’بزم فقیر‘ کی محفل مسالمہ میں کیاتھا۔

پروفیسر عاصی کرنالی کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں وہاں مسلسل اور انتھک محنت کے سوا کچھ بھی تو دکھائی نہیں دیتا۔ یہ محنت اور لگن ہمیں ان کی ذاتی زندگی میں بھی دکھائی دیتی ہے اور ادبی زندگی میںبھی۔ ایک کمٹمنٹ تھی ادب کے ساتھ اور ا پنے پیشے کے ساتھ۔ 70 برس پر مشتمل ادبی اور63سال پر مشتمل تعلیمی کیریئر میں وہ ہمیں قدم بہ قدم آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس دوران انہوں نے ہزاروں طالب \"aasiعلموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔11شعری مجموعوں سمیت18کتب تصنیف کیں۔ شاعری میں بھی سینکڑوں شاگردوں کی رہنمائی کی۔ بے شمار تقریبات میں شرکت کی۔وہ آخری سانس تک متحرک رہے۔ آرام اور سکون ان کی سرشت میں تھا ہی نہیں۔ اور کیسے ہوتا انہیں آرام اور توقف کی عادت ہی نہیں تھی۔ اگر آرام کی عادت ہوتی تو وہ20جنوری کو ڈاکٹروں کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سکون سے بستر پر لیٹے رہتے۔ انہیں جان لیوا ہارٹ اٹیک بھی تو اسی لیے ہوا کہ وہ ڈاکٹروں کی ہدایات کونظر انداز کرکے بستر علالت سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

عاصی کرنالی کی صحت ہمیشہ قابل رشک رہی۔ دو تین برس قبل تک تو وہ خودسکوٹر چلاتے تھے اور شہر کی سڑکوں پر سفر کرتے دکھائی دیتے تھے۔ چند برس قبل ڈاکٹر انور سدید نے جب مجھ سے ان کی صحت کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے انہیں بتایا تھا کہ عاصی صاحب مکمل طور پر صحت مند اور چاق وچوبند ہیں۔ نہ صرف یہ کہ خود سکوٹر چلاتے ہیں بلکہ اسے سٹینڈ پر بھی خود لگاتے ہیں۔ گھٹنوں میں تکلیف کے باعث دو تین برس سے عاصی صاحب کیلئے تقریبات میں زیادہ دیر بیٹھنا ممکن نہ ہوتا تھا مگر وہ پھر بھی تسلسل کے ساتھ محفلوں میں شریک ہوتے۔ کسی کو انکار کرنا یا ناراض ہونا ان کی لغت میں تھا ہی نہیں ۔ 33 برس کے دوران ہم نے بارہا ان سے اختلاف کیا، ان سے جھگڑا کیا، ان کے بارے میں تند و تیز کالم اور مضامین بھی لکھے مگر مجال ہے جو ایک آدھ بار کے سوا ان کے لبوں پر کبھی حرف شکایت بھی آیاہو۔

ہمیں ان سے جب بھی اختلاف ہوتا ہم برملا اس کا اظہار کرتے تھے۔ ہمیں شکایت ہوتی تھی کہ عاصی صاحب کے ہاں ادب سے کمٹمنٹ تو ملتی ہے مگر وہ ادب میں نظریے کے قائل کیوں نہیں؟ ہمیں اعتراض ہوتاتھا کہ وہ فوجی ڈکٹیٹروں کے خلاف آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟ وہ جمہوریت کے قتل پر خاموش کیوں رہتے ہیں؟ہمیں ان سے گلہ تھا کہ وہ متشاعروں کو غزلیں کیو ں دیتے ہیں؟ اور انٹر ویوز کے دوران جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کون لوگ اچھے شعر کہہ رہے ہیں تو وہ جواب میں ’ اسم شماری سے معذرت‘ کیوں کہتے ہیں؟ ان پر یہ الزام بھی لگاکہ جنرل ضیا کے مارشل لاءکے دوران محکمہ تعلیم سے وابستہ بعض جمہوریت پسند ادیبوں ، شاعروں کے تبادلوں اور گرفتاریوں میں ان کا ہاتھ تھا۔ ہم ایسے بہت سے سوالات ان سے بسا اوقات جارحانہ انداز میں بھی کرتے مگر عاصی صاحب کے ماتھے پر کبھی بل نہ آتاتھا۔ وہ نئے لکھاریوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے اور بسا اوقات ان کی تعریف ’ضرورت سے زیادہ‘ کے زمرے میں بھی آتی تھی۔ لیکن یہ ان کا ایک انداز تھا تربیت کا اور حوصلہ بڑھانے کا۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو نئے لکھاریوں کے کلام سے اوزان کی غلطیاں نکال کر اپنی ’ کہنہ مشقی‘ کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ عاصی کرنالی اپنی وضع کے انسان تھے۔ بسا اوقات تو اپنی انکساری اور ملائمت سے لاجواب کردیتے تھے ۔

\"aasiایک بارہم نے لکھا” عاصی صاحب نام کے شریف ہیں“

جواب آیا” یہ تو ایک حقیقت ہے میرا نام شریف احمد ہی ہے۔“

ہم نے لکھا” ثمر بانو ہاشمی کہتی ہیں۔ میری ساری زندگی کوبے ثمر اُس نے کیا“

کہنے لگے” وہ تو یہ کبھی نہیں کہہ سکتیں مگر آپ کا جملہ بہت خوبصورت ہے“۔

ایک مضمون میں ہم نے لکھا اگر ’لب خنداں‘ کے تمام مضامین عاصی صاحب نے اپنی اہلیہ کے بارے میںہی لکھے ہوتے تو پوری کتاب معرکةلآرا ہوتی۔‘

عاصی صاحب نے جوابی مضمون میں اس جملے کی خاص طور پر تعریف کردی۔

عاصی صاحب کے بارے میں ہمارے مضامین پر حسین سحر اور اقبال ارشد کو تو غصہ آجاتاتھا مگر عاصی صاحب ہمیشہ مسکرا کر ہمارے جارحانہ جملوں کا خیر مقدم کرتے۔ یہ ایک انداز تھا جواب نہ دے کر لاجواب کرنے کا۔

مشاعروں میں بھی ان کا یہی رویہ ہوتاتھا۔ ہم کبھی غزل میں کوئی غلط مصرع یا غلط لفظ استعمال کرتے تو عاصی صاحب مشاعرے کے بعد ہاتھ تھام کر ہمیں الگ لے جاتے۔ غلطی کی نشاندہی بھی اس انداز میں کرتے کہ جیسے غلطی ہم سے نہیں خود ان سے سرزد ہوئی ہو۔’ بس دیکھ لیجئے گا ۔ ممکن ہے ہم ہی غلطی پر ہوں ۔۔مگر شاید یہ لفظ یوں نہیں یوں ہے‘۔

مجھے یاد آرہاہے ریڈیو پاکستان کا وہ پروگرام جس میں ہم نے غالباً 1980ءیا 1981ءمیں شرکت کی تھی۔ ’ جواں ہر دم رواں‘ کے نام سے نوجوانوں کے اس پروگرام میں یوم اقبال کے حوالے سے کوئز مقابلہ تھا۔ اظہر سلیم مجوکہ اس پروگرام کے میزبان اور شرکا میں میرے ساتھ شاکر حسین شاکر بھی تھے۔ اس پروگرام میں منصف کے فرائض عاصی صاحب انجام دے رہے تھے۔ ہماری غلطیوں کی نشاندہی وہاں بھی عاصی صاحب نے ہی کی تھی۔ میں نے علامہ اقبال کا ایک شعر غلط پڑھ دیا۔ شاکر نے بھی ایسی ہی کوئی غلطی کی ۔ اور اظہر سلیم مجوکہ سے لفظ ’ شاہین‘ کی درست ادائیگی نہیں ہورہی تھی۔ عاصی صاحب نے جب تیسری بار لفظ شاہین کی تصحیح کرائی تو مجھ سے نہ رہا گیامیں نے کہا ’عاصی صاحب آپ جس شاہین کی بات کررہے ہیں وہ اقبال کا شاہین ہے اور اظہر سلیم مجوکہ جس شاہین کا ذکر کررہے ہیں وہ مجوکہ کا ہے۔ آپ مجوکہ کے شاہین کو اقبال کے شاہین میں تبدیل کرنے کی کوشش کیوں کررہے ہیں‘۔ عاصی صاحب نے ایک واشگاف قہقہہ لگایا اور بعد میں کئی برس تک اس واقعہ کا ذکر کرتے رہے۔

عاصی کرنالی کا سب سے ہی محبت بھرا تعلق تھا لیکن میرے اور ان کے تعلق میں محبت کے ساتھ شکایت بھی شامل رہی۔ اور محبت کے ساتھ جب شکایت شامل ہوجائے تو تعلق مستحکم بھی ہوتاہے اور یکطرفہ بھی نہیں رہتا۔ مجھے اعتراف ہے کہ عاصی کرنالی نے میری شکایتوں کے جواب میں بھی مجھے محبتوں سے نوازا۔ اکتوبر 1978ء کی صبح انہوں نے نیشنل سنٹر میں میرا ہاتھ تھاما۔ بعد کے برسوں نے بھی میں نے پہلے روز کی طرح ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی مگر عاصی صاحب نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رکھا۔ 20جنوری 2011ءکی شام وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر چپکے سے عدم کے سفر پر روانہ ہوگئے انور امروہوی موجود ہوتے تو میں انہیں سے کہتا کہ انور صاحب اس روز آپ نے مجھ سے کہاتھا ’بیٹا….ایک منٹ ٹھہریں‘ آج عاصی صاحب ہاتھ چھڑا رہے ہیں انہیں بھی روکنے کی کوشش کیجئے۔ مگر کیا کروں انور مروہوی تو عاصی صاحب سے پہلے ہی تصویر بن گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments