گیارہ اگست- قائداعظم کی تقریر اور عمران خان کی حلف برداری


لوگ اس پر ہنستے تھے اسے پاگل نادان سمجھتے تھے۔ اس کیہر بات کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ اس کے اعلی آدرشوں کو دیوانے کے خواب کا نام دیا جاتا تھا۔ جیسے جیسے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے مخالفین کے تیر و نشتر اور زبانیں تند ہوتی چلی گئیں۔ ایک دفعہ کسی سے بحث کے دوران یہاں تک سننے کو ملا کہ اس کو کوئی نہیں جیتنے دے گا۔ ہم اس کو وزیراعظم نہیں بننے دیں گے۔ دیکھتے ہیں کیسے بنتا ہے یہ وزیراعظم۔ میں نے اکثر یہ سوچا کہ عمران خان کے خلاف اس بغض و عناد تک مخالفت کی وجہ کیا ہے تو مجھ حقیر با تقصیر کی یہی سمجھ میں آیا کہ وہ ہم میں سے ہے۔ ان میں سے نہیں۔ پاکستان میں سیاسی خاندان اور اشرافیہ سے ہٹ کر کوئی سیاست کرنے کا سوچے تو اس کا یونہی مذاق بنایا جاتا ہے۔

فرض کیجیے آج میں اور آپ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیں تو لوگ یہ کہہ کہہ کر ہمارا جینا حرام کر دیں گے کہ تمھیں ووٹ دے گا کون۔ کیا دماغ خراب ہے جو ایسا خیال ذہن میں آیا۔ روٹی کھانے کو پیسے نہیں اور چلے ہو الیکشن لڑنے۔ لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں۔ جس کے پاس پیسہ ہے لیکن سیاست اس کو وراثت میں نہیں ملی تب بھی اس کو پاکستان کی سیاست میں ویلکم نہیں کیا جاتا۔ ہم وراثتی سیاست سے باہر کچھ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ باپ کے بعد بیٹی، بیٹا، بھائئی کے بعد بہن، بھائی کے ساتھ بھائی دیکھنے کے ایسے عادی ہو گئے ہیں کہ بس اب اکلوتا خان دیکھتے ہیں کہ جس کے نہ آگے نہ پیچھے کوئی اس کی جانشینی سمبھالنے ولا نہیں تو ہمارے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں کہ اس کو تو سیاست کی الف بے نہیں آتی یہ کہان سے آگیا وزیراعظم بننے کا خواب لے کر۔ یہ تو فوج کا مہرہ ہے وغیرہ وغیرہ۔

پھر ہمیں درد مزید ہوتا ہے کہ اس نے اتنی بڑی پارٹی بنا کر ہمیں پچھاڑ دیا۔ ایسے ملک میں ایک سرپھرے کرکٹر کا ملک کا سب سے بڑا اور مقبول ترین لیڈر بن جانا کسی معجزے سے کم نہیں۔ جو لوگ اس کے عاشق ہیں وہ کہتے ہیں ایسا ہجوم تو خدا کے چنیدہ بندوں کے پیچھے آتا ہے۔ جو اس کی بے پناہ مقبولیت سے خائف ہیں وہ اس کو شوریدہ سر بے وقوف کم عقل جذباتی بتاتے ہیں۔ اس کی شہرت کو داغدار اور عوام کے دلوں سے محبت کو کم کرنے کے لئے کیا کیا نہیں کیا گیا۔

عمران خان کی سیاست اور پاکستان کے دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن نے دائیں اور بائیں بازو کے تصورات کو بھی ملیا میٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ اور تو اور میڈیا کو بھی ایسا تقسیم کیا کہ سبحان اللہ۔ بہت سے روشن خیال، انتہائی تعلیم یافتہ، لبرل دماغوں کو صرف خان کی مخالفت یا فوج کو بد نام کرنے کی خاطر انتہائی جہلا اور شدت پسندوں کی حمایت کرتے دیکھا گیا۔ عمران خان وزیراعظم نہ بن پائے اس کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ لیکن نہ جیپ جیتی نہ پی ایس پی اور نہ ہی ٹی ایل پی۔ سو وہ پراپیگنڈا بھی ہوا ہوا۔ کتاب بھی لکھوا کر دیکھ لی اور اس کتاب کا بھی سوا ستیاناس ہو گیا۔ خان یا اس کی پاپولیرٹی پر ذرہ برابر اثر نہ ڈال پائی۔ اب سب کی بولتی بند۔ کوئی جواب نہیں دیتا کہ جو پراپیگنڈا کیا ویسا تو کچھ نہیں ہوا۔

جس نے جو کرنا تھا کر لیا اور اب عمران خان 11 اگست 2018 کو بطور وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان حلف اٹھائیں گے۔ کیا شاندار بات ہے کہ عمران خان نے اس تاریخ کو اس عظیم کام کے لئے منتخب کیا۔ اکہتر برس قبل اسی تاریخ کو پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا تھا۔ یہ خطاب سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ مسٹر جناح نے اس خطاب میں ریاست کو چلانے کے وہ سنہری اصول بتائے جو ایک جمہوری ریاست کی بنیاد ہونے چاہیں۔

یہ وہ تقریر ہے جس کو 1977 تک ریڈیو پاکستان سے نشر کیا جاتا رہا۔ مسٹر جناح نے کہا۔ قانون کی بالا دستی ہر حال میں ہونی چاہیے، قانون سب کے لئے برابر ہے۔ یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ ہر شخص کی عزت جان و مال کا خیال رکھے۔ رشوت، اقربا پروری، بلیک مارکیٹنگ، اور کرپشن ریاست کی راہ میں حائل بنیادی مشکلات ہیں جن سےآہنی ہاتھ سے نمٹنا ضروری ہے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے لئے، آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لئے، آپ آزاد ہیں اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لئے۔ اس مملکت پاکستان میں آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا عقیدے سے ہو مملکت کا اس سے کوئی سروکار نہیں۔ انصاف اور غیر متعصبانہ رویے سے ہم اس قوم کو عظیم قوم بنائیں گے۔

اب پی ٹی آئی کے دس نکات اٹھا کر دیکھ لیں۔ یا پھر منشور پڑھ لیں یا خان صاحب کی تقاریر سن لیں انھوں نے اپنی ہر تقریر میں پاکستان کو ایک عظیم قوم بنانے کا تہیہ کیا ہے اور اس سلسلے میں وہ جن باتوں پر زور دیتے ہیں ان میں سے بیشتر وہی ہیں جن کا قائد اعطم نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں ذکر کیا تھا۔ عمران خان میں فرق یہ ہے کہ کہ انھوں دوسری جماعتوں کی طرح صرف ذکر نہیں کیا بلکہ اپنے عمل سے کر کے دکھایا ہے۔ خاص طور پر کرپشن کے خلاف ان کی جدو جہد۔

قاعداعظم بھی میٹنگز میں چائے پانی پر اخراجات کے قائل نہ تھے۔ خان کا وطیرہ بھی یہی ہے۔ لیکن اب وزارت عظمی کا قلمدان سمبھانے کے بعد عمران خان اور ان کی پارٹی پر ذمے داری بہت کڑی ہو گی کیونکہ پاکستان کے بچے بچے کی ان سے توقعات وابستہ ہیں۔ ان کے دور اقدار کے پانچ سالوں میں ذرا سی لغزش یا غیر ذمے داری ایک طوفان کھڑا کر دے گی۔ ان کے مخالفین کی تعداد بھی بڑھ چکی ہے اور اب ان کی زندگی اور اور ان کی حکومت صحافیوں تنقید نگاروں مخالفوں دشمنوں کے عدسے کے نیچے ہو گی۔

ایک بات تو میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں جس طالبانی سوچ کے ان کو طعنے دیے جاتے ہیں وہ اس کے بر عکس انتہائی پروگریسو بیانیہ لے کر چلیں گے وہ نہ صرف خواتین کو بھرپور بلکہ باقی تمام جماعتوں سے بڑھ کر عزت دیں گے بلکہ اقلیتوں کے لیے بھی وہ اقدامات کریں گے جو قابل ستائش ہوں گے۔

خان صاحب آپ نے حلف اٹھانے کے لئے 11 اگست کا انتخاب کر کے نہ صرف انتہائی ذہانت کا ثبوت دیا ہے بلکہ اپنی ذمے داریوں میں اضافہ بھی کر لیا ہے۔ اس وقت اس قوم کی واحد امید آپ ہیں۔ میں نہیں جانتی کہ اس تاریخ کا انتخاب کسی عددی خوش بختی سے ہے یا مسٹر جناح کے انتہائی اہم خطاب سے۔ ارادی ہو یا غیر ارادی اب پاکستان تحریک انصاف پر یہ فرض ہے کہ وہ اس قوم کو دنیا کی بہترین قوم بنا کر دکھائے۔

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah