اف ! یہ محبت کرنے والے


رہنما کو عوام کا خیال رکھنا ہی پڑے گا۔ کیا عمران خان لوگوں کی محبت اور ان کے اندھے اعتبار کے بغیر جیت سکتا تھا؟ کبھی بھی نہیں۔ نواز شریف ہو یا عمران خان، بلاول ہو یا الطاف بھائی۔ میں ان کے چاہنے والوں کی ان کی غلطیوں کا دفاع کر نے کی فولادی صلاحیت کو سلام کرتی ہوں۔ یہ الیکشن چونکہ عمران خان کی جیت کا الیکشن ہے اس لئے، بات اس کی ہی زیادہ ہو گی۔ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ واضح تھا، صرف پی ٹی آئی والوں کو نظر نہیں آرہا تھا( آ بھی رہا تھا تو دیکھنا نہیں چاہتے )، باقی سب دیکھ سکتے تھے، بالکل اسی طرح جیسے پانچ سال پہلے مسلم لیگ نون کی جیت کے وقت نون کے حمایتی اندھے تھے باقی سب کی آنکھیں کام کر رہی تھیں۔

جن سے ہم محبت کر تے ہیں ان کی بری بات بھی اچھی لگتی ہے لیکن یہ سیاست انفردای سطح کی محبت اور نفرت سے اوپر اٹھ کر دیکھنے کی چیز ہے کیونکہ اس سے ہم نہیں ہماری آنے والی نسلوں اور ہمارے ملک کا مستقبل وابستہ ہوتاہے۔ ہم اپنے پسندیدہ لیڈر کی جیت پر بھنگڑے تو ڈال سکتے ہیں مگر سچائی سے رخ نہیں موڑ سکتے۔ اگر ہم آج بھی ایسا کر یں گے تو ہم ایک کے بعد دوسرا اچھا لیڈر گنوا تے جائیں گے۔ محبت انسان کوطاقتور بناتی ہے، کیونکہ جس سے انسان محبت کرتا ہے اس کو سچ چاہے تلخ ہی کیوں نہ ہو وہی بتا تا ہے چاہے اس کے لئے خود اسے زندگی سے کک آوٹ کر دیا جائے، مگر سچی محبت یہی ہے لیکن جو ہم لوگ اپنے لیڈر سے کرنا شروع کر دیتے ہیں وہ محبت نہیں پرستش ہے، شرک ہے اور بربادی ہے۔

پانچ سال پہلے جب مسلم لیگ نون جیتی تو اس کے چاہنے والوں نے کہا کہ جمہوریت کی فتح ہو گئی ہے۔ ایک نون لیگئے کی بڑی جذباتی پو سٹ یاد آرہی ہے کہ ”مشرف کی آمریت رخصت ہو ئی اور جمہوریت کا خواب پو را ہوا“۔

عمران خان کے عاشق، پردیسی ایسی جمہوریت کے آنے پر آٹھ آٹھ آنسو بہا رہے تھے۔ بچوں کے سکول کے باہر کھڑی مائیں مایوس چہروں سے پوچھ رہی تھیں کہ کیا ہم اب بھی پاکستان نہیں جا سکیں گے؟ الیکشن میں دھاندلی کی ویڈیوز جگہ جگہ نشر ہو رہی تھیں، لوگ کہہ رہے تھے کہ ایسی جعلی جمہوریت سے آمریت بھلی، یہ عوام کی آواز نہیں ہے۔ مگر ایک مخصوص بیورکریسی کا طبقہ، صحافیوں کا ایک عالم فاضل ٹولہ چیخ چیخ کر ہمیں سمجھا رہا تھا کہ جمہوریت پھر بھی جمہوریت ہے چاہے لولی لنگڑی ہو، ہم سب صبر شکر کر کے بیٹھ گئے۔ اچھا جی۔ جمہوریت کو چلنے دیتے ہیں۔

تب جب میں کہتی کہ یہ سب طے شد تھا، اسٹبلیشمنٹ اور امریکہ کے بغیر کیا مجال تھی کہ نواز شریف تیسری دفعہ پھر وزیرِ اعظم بن جا تا۔ لیکن تب مجھ سے نون لیگ کے چاہنے والوں نے خوب لڑائیاں کیں۔ بیورو کریسی میں بیٹھے لوگوں نے کہا کہ نہیں یہ نیا پاکستان ہے، جہاں عدلیہ اور سیاست دونوں آزاد ہیں۔ اچھا جی مان لیتے ہیں۔

آج پانچ سال بعد جب انہی راستوں سے چلتا ہوا عمران خان وزارتِ اعظمی کا تاج پہننے والا ہے تو اب وہی صحافیوں کا مخصوص لبرل ٹولہ، وہی بیوروکریسی کے جمہوریت کے چیمپئین، کہ اب پاکستان میں عدلیہ، میڈیا اور سیاست آذاد ہے۔ وہی چہرے اب ہمیں انہی چور دروازوں کے بارے میں بتا رہے ہیں جن کا شور ہم پانچ سال پہلے مچا رہے تھے۔ کیا ان پانچ سالوں میں عدلیہ پھر سے پابند ہو گئی ہے؟ کیا آزاد میڈیا پھر خریدا اور دبایا جا چکا ہے، کیا فوج صرف اب سیاست میں ناک گھسا رہی ہے؟ ۔ توکیا پانچ سال پہلے یہ سب نہیں تھا اور اب پانچ سال بعد یہ ہو گیا؟
یہی رونا پانچ سال بعد آج آپ رو رہے ہیں تو اب پی ٹی آئی والے اس رونے میں شامل ہو نے کے لئے تیا ر نہیں ہیں۔

عمران خان سے محبت کر نے والوں اور نون اور پیپلز پارٹی میں محبت کر نے والوں میں ایک فرق ہے۔ اور یہ فرق سراسر خان صاحب کے نقصان میں جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کا بیرون ملک بیٹھا پرستار خان صاحب کی غلطیوں کو جھٹلاتا نہیں، وہ یہ نہیں کہتا کہ یہ ان کا ازلی حق ہے وہ دبا کے تنقید کرتا ہے۔ خان صاحب کی ہر چول سے مایوس ہو تا ہے، مگر پھر بھی ان کی سچائی کی وجہ سے ساتھ نہیں چھوڑتا، جیسے سدھو نے کہا ؛ وہ ایک خالص روح ہے، ہ بندہ پاکستان کو کچھ دے گا ہی اس سے کچھ لے گا نہیں“۔ ۔ بس یہی اعتماد۔ اس کے علاوہ اگر یہ کہیں کہ خان صاحب کوئی بہت بڑے سیاسی بصیرت والے لیڈر ہیں تو غلط، اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنے زورِ بازو پر یہاں تک پہنچے ہیں تو غلط۔

میں نے ان کی جیت کے بعد یہاں ایک چھوٹا سا فنکشن کرو ایا۔ خان صاحب کی تقریر ہی ایسی تھی کہ سات خون معاف کر نے کو دل کیا۔ اور میں حیران رہ گئی، چند گھنٹوں کے نوٹس پر لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا، جمعرات یعنی ورکنگ ڈے، ہر کو ئی تھکا ہارا، مگر پھر بھی رات کے 1 بجے تک جشن چلتا رہا اور مزے کی بات یہ تھی کہ کسی ایک چہرے پر بھی خان صاحب کی پرانی حماقتوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔

لوگ کہہ رہے تھے ”;دھاندلی دھاندلی کا شور ہے تو کیا ہوا۔ عمران خان ہی آرہا ہے نا دھاندلی کے راستے۔ ؟ “
“اسٹیبلشمنٹ کا شور ہے تو کیا ہوا، اس دفعہ انہیں بھی عقل آئی اور نواز اور زرداری کی بجائے کسی ایماندار بندے کو لا رہے ہیں۔ “
“بس عمران۔ آوے ہی آوے۔ اور ہمارے پاکستان پر حکومت کا راستہ تو ہے بھی ایک۔ “
“ انہی راستوں پر چل کر آسکو تو آؤ میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے۔ ”تو خان صاحب انہی کانٹوں بھرے راستے پر چل کر آچکے ہیں اور محبت کر نے والے محبتکیے جا رہے ہیں۔

خان صاحب کی جیت نے ہم بیرونِ ملک پاکستانیوں کے دل و دماغ پر چھائے، غبار کو ہٹا دیا ہے۔ سالوں بعد ایک بے نام سا جوش، دل سے اٹھی ایک سچی خوشی کی لہر، سب کا مل کر خوش ہونا، سب وہم سب شکوک، سب ایک پل میں لگا کہیں بھاگ گئے ہیں۔

میں نے الیکشن سے پہلے دو کالمز لکھے تھے۔ ایک عمران خان کے نام خط اور ایک اسی کی ایکسٹنیشن۔ میں آج بھی عمران خان کے لئے فکرمند ہوں۔ میں آج بھی ملٹری، ملا اور میڈیا کے کردار سے خوفز دہ ہوں۔ میں آج بھی یہی مطالبہ کرتی ہوں کہ کرپشن میں سزا دیں، سیاسی انتقام میں نہیں۔ سب کرپٹ لوگوں کو پکڑیں حتی کہ ان کو بھی جو ایسے سیاست دانوں کے ان ڈائرکیٹ بینفیشری ہو تے ہیں، اچھی پو سٹنگز، اچھے عہدے، ترقیاں، پلاٹ، مالی فوائد، لاکھوں میں تنخوائیں، لفانے، پرمٹ اور نہ جانے خوشامد کر کے کیا کیا کچھ حاصل کر چکے ہو تے ہیں، ایسے شاہی افسروں، بزنس مینوں اور صحافیوں کو کون پکڑے گا؟ کیا یہ پھر سے یو ٹرن لے کر نئی حکومت کے گن گانے لگیں گے اور فائدے حاصل کرتے جائیں گے؟ بڑی مچھلی پکڑ کر ایسی چھوٹی مچھلیوں کو نہ سبق سکھایا گیا تو خان صاحب یہ تالاب گندے کا گندا ہی رہ جائے گا۔

اداروں کو مضبوط بنائیں، سادگی اپنائیں، کرپشن فری کریں۔ یہ تو آپ کے اپنے ہی وعدے ہیں انہی وعدوں نے مردہ جسموں میں دوبارہ سے جان ڈالی ہے۔ ہمیں زندہ ہی رکھئے گا۔
خان صاحب کے پیار کر نے والوں نے جس طرح ان کا ہر حماقت میں ساتھ دیا ہے۔ دھرنے سے لے کر ریحام خان اور تیسری عجیب و غریب شادی تک۔ یہ آپ پر خدا کا خاص کرم ہے ورنہ ایسی غلطیاں انسان سے خود ہو جائیں تو وہ ان کا دفاع نہیں کر پاتا۔ آپ کو لوگوں نے اپنی ذات سے بڑھ کر چاہا ہے۔ اور ان کے بغیر آپ کچھ نہیں۔ لوگ کہتے ہیں عمران خان ڈٹا رہا، میں کہتی ہوں ان کا ساتھ دینے والے لوگ ڈٹے رہے، ورنہ لوگوں کے اعتبار اور محبت کے بغیروہ ایک دن بھی نہیں نکال سکتے تھے۔
محبت کرنے والے محبت ہی کریں ہرغلطی کا دفاع کرنے والے پجاری نہ بن بیٹھیں ورنہ یہ محبت نہیں رہتی حماقت بن جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).