سلمٰی اعوان ، محض پاکستانی نہیں عالمی معاشر ے کی عکاس کہانی کار


سلمٰی اعوان کو کون نہیں جانتا۔ کم و بیش پانچ دہائیوں سے ادب و صحافت سے منسلک ہیں۔ زندگی میں انھوں نے تین کام ایمان دارانہ تسلسل سے کیے ہیں: سانس لینے کے لیے کھایا پیاہے؛کتابیں پڑھی ہیں، کتابیں لکھی ہیں، اور ابنِ بطوطہ کا تعاقب کیا ہے۔ یہ تین کام، مردادیبوں میں صرف جنابِ تارڑ نے کیے ہیں، شاید۔ اِن دونوں قلم کاروں میں کئی قدریں مشترک ہیں: دونوں شہر شہر، قصبہ قصبہ، صوبہ صوبہ، ملک ملک لُور لُور پھرتے ہے؛ یوں دونوں پکے پیٹھے پھرونتل لکھاری ہیں۔ دونوں سفرنامہ نگار ہیں؛ دونوں ناول نگار ہیں، دونوں مختصر افسانے بُنتے ہیں، دونوں کالم و مضامین لکھتے ہیں، لکھتے رہتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ ایک شے میں مگر آگے ہیں؛وہ شو بزی ہیں۔ ان کی اداکاریاں، فن کاریاں ٹی وی سے باہر ان کی تحریروں میں بھی آدھمکتی ہیں۔ وہ بہت رنگیلے ہیں، شوخ ہیں، منچلے رنگ کے ادیب ہیں۔

بی بی سلمٰی سادہ مزاج ہیں، اپنی حد میں رہنے والی، سمٹی سمٹی، مخصوص قدروں کی عاملہ، سنجیدہ، گہری، تصنع سے پرے بسنے والی، اداکاریاں کرنے سے معذرت خواہ۔ وہ روس جاتی ہیں، تو انسانی المیوں، انسانی رویوں اور انسانی خوشیوں کے پیچھے چھپے کارن کی تلاش اوراس تلاش کے دوران میں خود پہ کھلتی کہانیوں کو سمیٹنے۔ وہ عراق جاتی ہیں تو مقصدمحض سیر سپاٹانہیں، وہاں کی صدیوں پرانی ثقافت کا، تجسس کی کدالوں سے کھدائی کرکے اتا پتا لگاناہے، وہاں کے لوگوں کو ملنا، ان کے رہن سہن کو دیکھنا، پرکھنا، دھیان میں رکھنا، ان کے مسایل کو اپنے وطن کے مسایل کے مقابل رکھ کر تاکنا اور پھر کسی ذیرک لکھاری کی بصیرت سے انھیں صفحے پر اتارنا ہوتا ہے۔ وہ یوروپ جاتی ہیں تو سڑکیں ناپنے تولنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے باسیوں کے معمولات کو بھی تولتی ہیں، ناپتی ہیں۔ بی بی سلمٰی اعوان کی آنکھ کا نور پاکستان بھر کی خواتین لکھاریوں سے جدا رنگ رکھتا ہے۔ علاقائی و عالمی انسان، اس کے بننے بگڑنے کی داستان، سلمٰی جی کا موضوع ہے۔ مگر اس موضوع کو نبھاتے نبھاتے وہ اس مخصوص خطے کے اندرون و بیرون کا بھی نین نقشہ قاری پہ روشن از آفتاب کرتی ہیں، لاریب، خوب کرتی ہیں۔

اپنے دعوے پر دلیل کے طور پر ہم بات کریں گے محترمہ سلمٰی اعوان کے اردو سے انگریزی میں ترجمہ شدہ افسانی مجموعہ کی۔ یہ ان کی مختلف دیسوں سے اکٹھی کی گئی کہانیوں کی کتا ب ہے۔ لطف یہ ہے کہ ترجمہ کسی ایک مترجم کا نہیں، تین مختلف مترجمین کا ہے۔ چناں چہ ترجمہ میں کہیں تھکن کے باعث، جھول کا شائبہ بھی نام کو ہے۔

The Sky Remained Silent یا ’ فلک چپ رہا‘ سے معنون یہ مجموعہ دو قسموں کی کہانیاں رکھتا ہے:بدیسی یعنی پاکستان سے باہر کی دنیا کی کہانیاں؛ اور دیسی یعنی ہماری اپنی کہانیاں۔ دوجے حصے کا تو عنوان ہی ’ پاکستانی کہانیاں ’ ہے۔ پہلے حصے کی پہلی کہانی جو کم و بیش اسی صفحوں کو گھیرتی ہے، اپنی تیکنیک، بُنت، حجم، اور موضوع کے اعتبارات سے ناولٹ کی سطح پہ پہنچی ہوئی ہے۔ یہ اس کتاب کی طویل ترین کہانی ہے۔ یہاں آپ، ایک روسی صحافی خاتون اَنّاکی ذاتی اور نیم رومانوی زندگی سے لے کر اس کے صحافیانہ پیشے سے وابستگی، اس کی اس پیشے کے ساتھ لگن اور اس کے لیے کچھ بھی کردینے کا جذبہ جھلکاتی دنیا کی سیر کرتے ہیں۔ یہی نہیں، قاری پہ یہاں، دہائیوں پرے کے روس کی سماجی، سیاسی اور جنگی زندگی بھی روشن روشن ہوتی ہے۔ چیچنیا کے مسلمانوں پر روسی فوجی دستوں کے ستم کو قلم کے ذریعے دنیا تک پہنچاتی انّا سٹیپانوفا، ایک بے باک صحافی، محبتی دوست، اور متجسس محققہ ہے۔ وہ اپنے گھر اور ملک کے بارے میں برابر دکھی ہے۔ مصنفہ، اس کردار کے اندر سے کہانی بڑی خوبی سے باہر نکالتی ہیں۔ یوُں، یہ ناول نما طویل کہانی، نا صرف انسانی کرداروں پہ مشتمل ہے، بل کہ اس دور کے روس کو بھی ایک کردار ہی کی صورت بنتے، ٹوٹتے پیش کرتی ہے۔

‘غزہ کے بچے‘ آغازمیں قاری کو دمشق میں پھراتی ہے۔ آنسو، خون، پیڑن، سطر سطر دکھاتی ہے۔ اورآخر میں صلاح الدین کو فلسطین کے بیٹوں اور بیٹیوں کے واسطے دے دے کر جگانے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔ قاری، آنسووں سے کہانی آغاز کرتا ہے، آنسووں ہی سے انجام کیے دیتا ہے۔ کہانی ُ رک جاتی ہے مگر خون کا دریا بہتا رہتا ہے۔ عنوانی کہانی ’فلک چپ رہا‘ جلتے ہوے بغداد سے شروع ہوتی ہے، امریکی فوجی غنڈوں کی حرام زدگیوں کو جھلکاتی، عراقی صدام کو کوستی، لہو اُڑاتی، چیخیں پھیلاتی، یوں ختم ہوتی ہے کہ عراقیوں کے مردہ ضمیروں کو قاری پہ زندہ کرجاتی ہے۔ مسایل کی وجوہ کو متوازن پیش کرتی اس کہانی میں صرف بیرونی طاقت ہی کو عراقی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرایا نہیں گیا، بل کہ اندرونی خلفشاریوں کو بھی برابر مطعون کیا گیا ہے۔ کلیدی کردار اس میں انیس سالہ عبیر کا ہے، جو عزت، اور ثقافت کے تحفظ کے لیے جاں دے دیتی ہے۔ موضوع کی نبھت کی رُو سے یہ کہانی عنوانی کہانی بننے کا جائز استحقا ق رکھتی ہے۔

کہانی ’سومیتادیدی اور اروما‘مغربی پاکستان یعنی بنگلہ دیش میں کھلتی، بند ہوتی ہے۔ واقعات یہاں بھی چشم کشا ہیں، افسردہ اور پریشان کن الگ۔ ڈھاکہ کے موسم بدلتے ہیں اور ڈھاکہ والوں کے مزاج بھی، رابندرا ناتھ ٹیگور کی نظمیں فضا میں گونجتی ہیں، ہندو دھرم مذکور ہوتا ہے، اور کہانی کا اختتام بڑا ہی مقہور ہوتا ہے۔

کتاب کے دوسرے حصے کی کہانیاں پاکستانی ہیں۔ اس حصے کی پہلی کہانی ’جب تم جانو‘ جہاں آرا کے دکھڑے کی ترجمان ہے۔ کلیدی کردار کی ذہنی و سماجی الجھن، اس کے خاندانی بکھیرے اور ان کی سلجھن کے حیلے یہاں موضوع بنتے ہیں۔ ایک خط سے آغا زہوتی یہ کہانی شالیمار باغ کی روشوں پہ چلتے چلتے غائب ہوجاتی ہے، مگر کہانی والوں کے دکھ حاظر و ناظر ہی رہتے ہیں۔

کہانی ’ مکڑی کا جالا‘ کی سلیمہ خالص گھریلو عور ت ہے۔ اس کے مسایل مگر گھریلو سے زیادہ ذہنی ہیں۔ وہ اپنے پیاروں کی مشکلوں کو اپنی مشکلیں سمجھتی ہے۔ المیے کی یہی تفہیم اسے پریشان رکھتی ہے۔ کہانی کے آغاز میں کالی داس کا حوالہ کہانی کو کہیں کہیں علامتی رنگ دیتا ہے۔ اور منفرد معنویت بھی۔ ‘ پاکستانی کہانیاں ’ والے اس حصے میں شامل کم و بیش ہر کہانی میںآدھی درجن سے کم کردار نہیںآتے۔ چند ایک عمدگی سے ضروری نظر آتے ہوے اعلی انداز میں کھپتے ہیں۔ مگر چند ایسے بھی ہیں، جو اگر نا بھی آتے تو بھی کہانیاں اتنی ہی مضبوط ہوتیں، اس سے بھی زیادہ، شاید۔

پر اصل تو داد دینی پڑتی ہے ہماری پیاری لکھارن کی اس تنوع مزاجی کو کہ جس نے اس کتاب میں موجود کسی بھی کہانی میں تکرارِ موضوع اورتکرارِ لفظیات سے پرہیز برتتے ہوے ایسی رنگا رنگی جھلکائی ہے کہ قاری کو کہیں یکسانیت جیسی نحوست کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ آپ کتاب اٹھاتے ہیں تو ختم ہونے تیکر اٹھائے ہی رکھتے ہیں۔ میں مطمئن حال
ہوں کہ ایک اچھی کتاب کی پڑھت چند گھنٹوں میں مکمل ہوئی۔ اللہ اللہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).