عمران خان کو محنت اور ووٹرز کے اعتماد نے جتایا


عمران خان کیوں جیتے؟ اس ملین ڈالر کوئیسچن کے کا جواب بہ یک وقت سادہ بھی ہے پیچیدہ بھی۔ تحریک انصاف کے حامی بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کی انتھک جدوجہد، پختونخوا حکومت کی کامیابی، کرپشن سے پاک اور کامیابیوں سے بھرپور ماضی، عوام کا ان پر اعتماد، کرشماتی شخصیت وغیرہ وغیرہ ان کی کامیابی کی وجوہات ہیں۔ جبکہ ان کے مخالفین اس کو اسٹیبلشمنٹ کی کاریگری قرار دیتے ہیں۔ میرے خیال میں دونوں پہلو خان صاحب کی کامیابی کی ضمانت بنے ہیں۔

یہ بات تھوڑا بہت فہم رکھنے والا پی ٹی آئی کا ایک حامی بھی تسلیم کرے گا کہ خان صاحب کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ اگر اپنی تمام قوت کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو یہ خیرہ کن کامیابی کبھی ان کا مقدر نہیں بن سکتی تھی۔ خان صاحب 2013 کے مقابلے میں دگنی نشستیں لے جاتے یا ذیادہ سے ذیادہ اس کو تین گنا کر لیتے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ غیبی طاقتوں کی مرہونِ منت ہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے پاس اگر الہ دین کا چراغ ہے جس کے ذریعے وہ کسی بھی کام کو ممکن بنا سکتی ہے تو خان صاحب جیسے بندے پر کبھی اپنا داؤ نہ کھیلتی۔

نواز شریف کو کھیل سے باہر پھینکنے کا منصوبہ ان کے وزیراعظم بننے کے تھوڑا عرصہ بعد ہی شروع ہوچکا تھا۔ اس ملک میں کسی بھی چیز کی کمی ہوسکتی ہے، کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کے لئے بیتاب سیاستدانوں کی ہر گز نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے اشارۂ آبرو پر بروئے کار آنے والے سیاستدان ہر گھڑی تیار ہوتے ہیں۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان جیسے ضدی اور انا پرست انسان پر سرمایہ کاری کیوں کرنی پڑی؟ اس سوال کا جواب سادہ سا ہے کہ ریس میں ہارنے والے گھوڑے پر بازی نہیں لگائی جاتی۔ وننگ ہارس ہی داؤ لگانے والوں کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ خان صاحب نے پچھلے بائیس سال اپنے آپ کو کھیل سے باہر نہیں ہونے دیا اور اگر کبھی ان کی پہاڑ جیسی غلطیوں کے باعث نوبت یہاں تک پہنچی بھی تو ان کی زبردست فین فالوونگ جو زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے، ان کی مدد کو آئی اور ان کو بچا لے گئی۔

اس لئے ہم بجا طور یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ خان صاحب کی کامیابی کا سہرا ان کی محنت اور ان کے کارکنوں اور ووٹرز کے ان پر ہر حال میں قائم اعتماد کو جاتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف سے نالاں ہوئی تو خان صاحب کے سر پر دستِ شفقت رکھ دیا، صرف اس لئے کہ خان صاحب کو پہلے سے حاصل عوامی تائید کے باعث انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانا آسان تھا۔ نواز شریف اور ان کی جماعت کے گلے شکوے اس لحاظ سے جائز ہیں کہ انتخابی دنگل میں سب پہلوانوں کو اپنی طاقت کے بل بوتے اترنا چاہیے نہ کہ پردۂ غیب سے آنے والی مدد ان کی کامیابی کا باعث بنے۔

اصولی طور پر اس موقف سے اختلاف ممکن نہیں لیکن اے کاش کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی بلندی کی اس سطح کو پہنچ جائے۔ نواز شریف کو جب جب اسٹیبلشمنٹ کی کمک پہنچی انہیں کوئی اخلاقی اساس یاد نہیں آئی لیکن جب وہی مدد خان صاحب کو فراہم کی گئی تو ووٹ کو عزت دو جیسے نعرے تخلیق کیے گئے۔ بعینہ خان صاحب اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے تب تک ناقد رہے جب یہ ہوا مخالف سمت میں چلتی رہی لیکن جوں ہی تندئی بادِ مخالف موافق ہوئی، خان صاحب سارے گلے شکوے بھول کر اس کے ساتھ ساتھ اڑنے لگے۔

خان صاحب 1996 میں سیاست میں آئے۔ وہ نسل جس نے جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے آگے پیچھے آنکھ کھولی سمجھ ہی نہ سکی کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے؟ سیاسی جماعتیں کیا چیز ہیں اور ان کا کردار کیا ہوتا ہے؟ انتخابات کیا ہوتے ہیں؟ کیوں اور کیسے کرائے جاتے ہیں؟ اٹھاسی سے لے کر ستانوے تک وقفے وقفے سے انتخابات ہوتے رہے اور عوام نے جمہوری تماشے کے وہ تماشے دیکھے کہ کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوئے۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف میں اقتدار کے لئے کھنچاتانی اس حد تک بڑھی کہ ملک ایک چراہ گاہ کا منظر پیش کرنے لگا۔ طاقت اور اختیار، دولت حاصل کرنے کا ذریعہ بنا اور اسی دولت کو طاقت اور اختیار حاصل کرنے اور اسے بڑھانے کا ذریعہ بنایا گیا۔

پیسے لگاؤ، اختیار حاصل کرو، طاقتور بنو، مزید دولت بناؤ اور اس سے اختیار اور طاقت کو دوام دینے کی تدبیریں کرو۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اسی دائرے میں گھومنے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ زرداری صاحب کو مسٹر ٹین پرسینٹ کا خطاب عطا ہوا، گھوڑوں کے اصطبل، سوئس بینکس، سرے محل اور نیکلس بینظیر اور زرداری کی پہچان بن گئے۔ دوسری جانب جب جب نواز شریف حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، ان کی دولت دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگی۔ ملوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور بیرون ملک دولت بھی۔ کبھی کبھار خیال آتا ہے کہ جیسے دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی یا بٹھا دی گئی تھی کہ پاکستان جیسے ملک میں پیسے ہو، تو سب کچھ ممکن ہے۔

ان حالات میں خان صاحب کرکٹ کا عالمی کپ جیت اور اس کے بل بوتے کینسر ہاسپٹل بنا چکے تھے۔ ایک ہیرو سپر ہیرو بن گیا تھا، عزت اور شہرت کے انتہاؤں پر پہنچ چکا تھا۔ توانائی سے بھر پور انسان، جس کو اس کے اظہار اور استعمال کے لئے کوئی اور میدانِ عمل چاہیے تھا۔ خان صاحب کا دل سیاست کے لئے مچلتا تھا لیکن حتمی فیصلہ نہ کر پا رہے تھے۔ ایسے میں ملک میں جس طرف نکلتے، لوگ وزیراعظم عمران خان کے دل لبھانے والے نعروں سے ان کا استقبال کرتے۔ بالآخر پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھ دی اور اصولی سیاست کا راگ الاپنے لگے۔

خان صاحب کی اولین انتخابات ان کے لئے ڈراونا خواب ثابت ہوئے لیکن ہمت ہارنا اور ہار ماننا ان کی خمیر میں شامل نہیں۔ ہاتھ پاوں مارتے رہے لیکن ماہیٔ بے آب کی جانب تڑپتے ہی رہے، بات بنتی دکھائی نہ دے رہی تھی۔ خان صاحب عزم کے پکے ہیں۔ مشرف نے عنانِ حکومت زبردستی سنبھالی تو پابندیوں میں جکڑا میڈیا کافی حد تک آزاد ہوا۔ ملک بھر میں نیوز چینل کی بہار آئی۔ خان صاحب سرشام کسی سٹوڈیو میں گھس، کیمرے کے سامنے بیٹھ، بے ساختہ گفتگو کرنے لگے۔ ان کی تان شروع بھی کرپشن پر ہوتی اور ٹوٹتی بھی کرپشن پر۔ ملک کا بھیڑہ غرق ان کا تکیہ کلام بن گیا۔ یہ باتیں لوگوں کے لئے نئی تھیں۔ ان کا ہیرو، ایک ایسا ہیرو جس کے اپنے ہاتھ صاف تھے سیاستدانوں کو آڑے ہاتھوں لیتا تو لوگوں کو خوشگوار احساس ہوتا۔

کبھی کبھار تو دوسرے، تیسرے درجے کے سیاستدانوں کے ساتھ خان صاحب کو الجھتے دیکھتے تو ان کی حالت پر ترس آتا کہ جیسے رضیہ غنڈوں میں گھر گئی ہو۔ بابر غوری، بابر اعوان، شیخ رشید سمیت کئی دیگر سیاستدانوں کا ان ٹاک شوز میں خان صاحب کے ساتھ تذلیل آمیز رویہ لوگوں کو آج بھی یاد ہے۔ دو ہزار تین میں خان صاحب غیبی طاقتوں کی مدد سے بہ مشکل اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اگلے انتخابات میں بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ پیلپز پارٹی زرداری کے ہاتھ لگی تو عمران خان، نواز شریف کے حقیقی مد مقابل کی صورت میں سامنے آئے۔ لاہور کے جلسے میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر امڈ آیا تو 2013 میں ہی خان صاحب کی کامیابی کی امید پیدا ہوئی۔ لیکن کچھ غلط وقت پر درست اور کچھ سراسر غلط فیصلے خان صاحب کو لے ڈوبے۔

2013 میں نواز شریف آئے اور حقیقت یہ ہے کہ پچھلی حکومت سے بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔ امن و امان، کراچی اور بلوچستان پر حکومتی رٹ کی بحالی، توانائی کے بحران پر بڑی حد تک قابو اور پاک۔ چین تعلقات کو نئی جہت اور منزل عطا کرنا بلاشبہ نواز شریف کے کارنامے ہیں۔ قدرت، خان صاحب پر مہربان تھی، پانامہ لیکس نواز شریف پر آسمانی بجلی بن کر گرے تو دھرنوں کی ناکامی کا زخم سہنے والے خان صاحب نے اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دینے کا پکا فیصلہ کرلیا اور پھر اسلام باد لاک ڈاؤن کے موقع پر لاک ڈاؤن تو نہ ہوسکا لیکن معاملہ عدالت ضرور چلا گیا۔ باقی تاریخ ہے۔

خان صاحب کی کامیابی درحقیقت پیلپز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی باریاں لینے والی سیاست کا نتیجہ ہے۔ ثبات ایک تعیر کو ہے زمانے میں۔ انسانی فطرت ہمیشہ تبدیلی کی آرزومند ہوتی ہے۔ گھٹن بڑھ جائے تو کھڑکیاں کھولنی پڑتی ہے۔ پی ایم ایل این اور پیپلز پارٹی ادراک نہ کرسکی کہ مخلوقِ خدا کا دم گھٹ رہا تھا ایسے میں گھر کے دیواروں کو مزید اونچا کرنا اپنے آپ کو مارنے کے مترادف تھا
پہلے ہی تازہ ہوا آتی تھی کم اس پہ ستم
گھر کی دیواروں کو ہم نے اور اونچا کردیا
عامر گمریانی
نوشہرہ کے پی کے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).