کانچ کا پُتلا: صادق علی شہزاد



اُسے مکمل علم نہ تھا کہ یہ یونانیوں کا نظریہ ہے یا رومیوں کا، مگر وہ اِس کامل یقین کے ساتھ اُسے سمجھا رہا تھا کہ گمان ہوتا تھا یہ اُس کا اپنا ہی بنایا اور پالا ہوا نظریہ ہے کہ ساری دنیا کا یہ نظام عورت اور مرد کے وجود کے فرق سے کام کر رہا ہے اور اِس پورے نظام کی تخلیق کا بنیادی مقصد اُس فرق کے ساتھ، عورت اور مرد کا ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے۔ اس نظریے کی جمالیاتی وضاحت کے لئے وہ مزید کہنے لگے: جب خدا نے آدم کو اپنی محبت سے بنا لیا اور اُسے رہنے کو جنت کے باغات میں اتار ا تو کچھ عرصہ میں ہی آدم اداس ہو گیا۔ اُسے اپنی اداسی کو دور کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ اپنے بندے کی یہ اداسی خدا کے لئے قابلِ قبول نہ تھی۔

آدم کی تخلیق کے وقت خدا نے اپنی جمالیاتی حس کا آدم کے وجود میں حصہ رکھا تھا، جو اُسے اداسی سے نکلنے اورتسکین دینے کی کوئی راہ نہیں دے رہا تھا۔ تب خدا نے آدم کے وجود کی خوب صورتی اور جمالیات کو ایک وجود میں ڈھالا اور اُس کے جسم میں تیرتی خوب صورتی کو حوا کی صورت سامنے لا کھڑا کیا۔ اِسی وضاحت سے وہ مرد کی اندرونی خوب صورتی کو عورت کی بظاہر خوب صورتی کے مقابلے میں لا کھڑا کرتے تھے۔ اور مرد کے اخلاقی معیارات سے اس کی تخلیقی قوت تک اِس وضاحت کا کینوس پھیلا دیتے۔

ملتان آرٹس فورم کے کتابی سلسلے سطور کی اشاعت کے وقت شوکت قادری اور میں روز ہی ممتاز اطہر کی ضوریز اکادمی جا پہنچتے تھے، راستے میں النگ سے بوہڑ دروازے کی طرف اترتے ہوئے رنگوں کی بیشتر دکانوں کے درمیان ایک شخص زندگی میں رنگ بھرنے میں مشغول ہوتا۔ اُس کے ہنر سے آتے جاتے دیکھنے والوں کی آنکھوں میں کچھ وقت کے لئے زندگی جاگ جاتی اور اُن کی جمی ہوئی خشک حسِ جمالیات کچھ لمحوں کی لئے رگوں میں بھاگنے لگتی۔ ایک روز قادری صاحب اور میں اُس بے رنگ دکان میں زندگی کے رنگ مانگنے جا پہنچے۔ یوں صادق علی شہزاد نے پہلی ملاقات میں یونانیوں یا رومیوں سے مستعار لیا ہوا یا خود ہی سے تراشہ ہوا نظریہ اپنے تعارف میں زندگی کے پہلے رنگ کی صورت ہمارے دلوں میں دے مارا۔

اگر کوئی پوچھے صادق علی شہزاد کون تھا؟ تو میں بلا کسی توقف کے کہوں گا، محبت سے بنا، چلتا پھرتا ایک ایسا مجسمہ جو خود میں موم اور پانی کے تمام اوصاف رکھتا ہے۔ جس کے خون میں وفا کا رنگ بھرا ہے، جو زندگی کی آندھی کے سیاہ ویرانے میں سفید پتنگے کی طرح اڑتا جا رہا ہے۔ جس کی انکھیں پانی سے بھری رہتی ہیں اور وہ اِس پانی کی قدر سے باخوبی واقف ہے۔ جو کسی انجان کو مل کر بھی اُس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیتا ہے اور اُس کی جلد اُس کی تنہائی اور دکھ کو کہیں پیچھے چھوڑ کر اگلے ہاتھوں میں ایک گرم ولولہ، ایک پرجوش محبت اور ایک بے لوث خلوص منتقل کر دیتے ہیں۔ یہی ہاتھ پلاسٹر آف پیرس کو تراشتے ہوئے اُس میں زندگی کی وہ تمام جزئیات بھر دیتے ہیں جو بہت سارے جیتے جی انسانوں کے نصیب میں بھی نہیں آتیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ آج تک انہوں نے مٹی کا مجسمہ نہ بنایا تھا۔ اُنہیں اپنے ہاتھوں میں اُس بے اثر چونے کو مٹی کرنے کا یقین تھا۔

اُس ایک ملاقات کے بعد میں کئی بار اُن کے پاس جا پہنچا، کسی نئے رنگ، کسی نئے نین نقشے، کسی نئے ولولے کی تلاش میں۔ اُن سے ہوئی ملاقاتوں کو میں با آسانی گن سکتا ہوں مگر وہ چند ملاقاتیں کئی روز رزو ملنے والے فنکاروں، دانش مندوں اورغیر معمولی لوگوں کی لاکھوں ملاقاتوں پر بھاری ہو گیں کیونکہ صادق علی شہزاد واقعی صادق اورکھرا انسان تھا۔ ایسا مہذب آدمی جس سے ملنے کا تصور ہی انکھوں میں روشنی بھر دیتا ہے۔ اُس کی منٹوں کی محبت کئی صدیوں پر بھاری ہوتی۔

اُن کے مجسمے بے رنگ مجسمے ہیں جیسے اُن کی اپنی زندگی بظاہر بے رنگ تھی مگر وہ اُن کے مجسموں کی طرح پر کیف لیکن سادہ تھی۔ انہوں نے فرید، غالب یا فیض کو مجسم کیا تو اُن کے فن کو چھوڑ کر محض اُن کی اناٹمی اور صورت کی جزئیات پر ہاتھ ڈالا۔ دوسری طرف جب وہ عام سے کردار یا اشعار کو مجسم کرنے پر آئے تو چہروں اور شعروں کی معنوی اہمیت کو اجاگر کر ڈالا۔ زندگی کی تلخیوں کو اپنے فن سے تلخ ہی ظاہر کیا۔ جب رومانس کے اظہار کا وقت آیا تو چہرے کے تاثرات سے لے کر بدن کے خم اور انگڑائیوں تک میں جان بھر دی۔ یہ وہ ہنر تھا جو انہوں نے کسی استاد، گرو یا آرٹ کالج سے نہ سیکھا تھا بلکہ قدرت نے اُن کی لگن اور جستجو میں انہیں ودیعت کیا تھا۔

وہ جس پائے کا فن کار تھا اُس مناسبت سے نہ تو مقبولیت پاسکا نہ ہی شہرت۔ مگر وہ اپنے چند قدر دانوں کی محبت سے اِس قدر خوش ہو جاتا کہ کسی اور چیز کی ضرورت نہ رہتی۔ انہوں کی بے شمار مجسموں میں اپنی اہلیہ اور اُس کی محبت کو مجسم کیا، مگر یوں کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ انہوں نے جس عورت کو مجسم کیا وہ اُسے اپنی محبوبہ سے بیوی اور بیوی سے مجسمہ بنانا چاہتے تھے جسے دیکھ دیکھ کر وہ تمام عمر بتا سکیں اور عمر بتا دی گئی۔

ایک دکان اور ایک دکان نما کمرہ۔ اِس کل کائنات میں بیٹیوں کی شادی کے بعد زندگی گزار رہے تھے۔ اسی کائنات میں جب ایک دوست کو اُن سے ملاقات کی غرض سے لے گیا تو تنہائی نے یہ حال کر رکھا تھا کہ وہ کچھ کچھ تو پہچان رہے تھے، کچھ پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے اور مکمل طور پر پہچاننا ہی نہ چاہتے تھے۔ اپنی پوری زندگی فن کی خاطر وقف کرنے والا، اپنے مجسموں کو کبھی نہ بیچنے کا قائل صادق علی شہزاد اُس دن نیم تشخص کی حالت میں مجھے ادب کے ساتھ صحافت کی ابتدا کا مشورہ محض اِس غرض سے دے رہا تھا کہ آپ کو آپ کی محنت کا صلہ کاروباری ہوئے بنا کبھی نہیں مل پاتا۔

وہ مہذب شخص اُس روز پورے سماج کو گالیاں دے رہا تھا اور رہ رہ کر ایک دکھ اور غصے کے عالم میں اپنے اُن کاروباری فنکار دوستوں کے نام گنوا رہا تھا جن کا وہ پرستار رہ چکا ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جو اُس تنہائی کی دین تھا جسے کبھی انہوں نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ بے ہیت پتھروں کو حسین شکلیں عطا کرنے والا صادق علی شہزاد اپنی زندگی کو کوئی حسین زاویہ نہ دے پایا۔

اُن کو اعزار تو دیے گئے مگر ایسے جو اُن کے لئے بے معنی اور غیر اہم تھے۔ وہ سادگی سے زندگی تو گزار گیا مگر اُن کے دل میں اپنے فن سے کچھ کر دیکھانے کی خواہش کبھی ختم نہ ہوئی۔ کسی ادارے یا شخص نے انہیں ایساموقع نہ دیا کہ وہ اپنی خواہش کو سچ کر دکھاتے۔

صادق صاحب سے آخری ملاقات ملتان ٹی ہاوس کی افتتاحی تقریب میں ہوئی تھی۔ ہمیشہ کی طرح انہوں نے گلے لگایا، ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لئے اور غائب رہنے کا شکوہ کیا۔ میں ڈال مٹول اور مصروفیت کا بہانہ کر ہی رہا تھا کہ انہوں نے پہلے ہی سب فراڈیوں کی لائن میں کھڑا کر دیا۔ ”ارے بھائی آ جایا کرو، دو لمحہ دل ہی بہل جاتا ہے۔ ممتاز اطہر کا ہمسایہ ہوں اُس کے بہانے ہی آجایا کرو۔ “اُن سے اُس روز ملاقات کا وعدہ پھر وفا نہ ہو سکا۔

وہ ملتان شہر میں اپنی نوعیت کا واحد فن کار تھا، کانچ کا ایک ایسا پتلا جس کی نفاست اور محبت کا بھرم اُس کا مٹی کا وجود نہ رکھ پایا۔ بدقسمتی یہ تھی کہ لاکھوں کی آبادی کا ملتان اور کروڑوں کے بنے آرٹ کالجز ہنر اور تخلیقیت سے بھری اُس تجوری کو کبھی کھول بھی نہ پائے، کچھ پانا اور سیکھنا تو دور کی بات۔ اوریوں ہی صادق پینٹ ہاوس اور اُس کے اندر چھپی زندگیوں میں رنگ بھرنے کی وہ دکان ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی جس کے اندر رکھی ہر چیز کی قیمت محبت تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).